عمران القادری
محفلین
تحریر: ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری
دین اسلام کے بنیادی مآخذ دو ہیں، ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ قرآن حکیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی 23 سالہ وحی الہٰی کا وہ حتمی مجموعہ ہے جس کی لفظی ومعنوی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔ چنانچہ قرآن حکیم دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس کا ایک ایک حرف ایک ایک حرکت اور ایک ایک سطر اسی طرح اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر اترا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو سنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کی سب سے بڑی حقانیت، کتاب زندہ قرآن ہے۔ حقانیت اسلام کی دوسری بڑی اساس پیغمبر انسانیت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت مطہرہ ہے۔ قرآن حکیم کی طرح صاحب قرآن کی زندگی کا بھی ایک ایک لمحہ، ایک ایک دن اور ایک ایک زاویہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ایک کھلی کتاب کی طرح ہر شخص کے سامنے موجود ہے۔ اپنوں کے سامنے بھی اور غیروں کے سامنے بھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کو خود اللہ رب العزت نے ’’اسوہ حسنہ‘‘ یعنی بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس پاکیزہ اور اعلیٰ ترین انسانی نمونۂ عمل کی تمام جزئیات بنی نوع انسان کے سامنے موجود ہوتیں۔ ان تفصیلات سے قیامت تک کی ہر نسل انسانی کو آگاہ کرنے کے لئے اللہ پاک نے صحابہ کرام کی برگزیدہ جماعت کو ذہانت، شجاعت، محبت، قوت مشاہدہ، صداقت، دیانت اور حفظ و ضبط جیسی نادر خصوصیات سے بیک وقت نواز رکھا تھا جو دنیا کے کسی دوسرے گروہ انسانی میں ہمیں یکجا نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ ان خوبیوں کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا، پسند و ناپسند اور اظہار فرحت و کوفت کی ہر کیفیت کو انہی الفاظ کے ساتھ محفوظ کرلیا گیا جو آپ نے اپنی زبان اقدس سے ادا فرمائے۔ انہی کلمات، انداز، کیفیات اور احوال کے بیان کو ’’علم حدیث‘‘ موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اقوال و افعال اور کیفیات کو بیان کرنے والوں کو راوی اور ان روایات پر کام کرنے والے خوش نصیب لوگوں کو محدث کہا جاتا ہے۔
علم حدیث کی اہمیت اور حجیت پر گفتگو اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں لیکن ایک بات واضح کئے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں کہ جب تک دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی جاتی رہے گی، آپ سے محبت کے چراغ اہل ایمان کے سینوں میں جلتے رہیں گے، آپ کی اطاعت کو عین ایمان سمجھا جاتا رہے گا، آپ کے اسوہ حسنہ کے نشانات کو سنگ میل بنایا جاتا رہے گا اور آپ کی عطاؤں کے سامنے پوری انسانیت دامن سوال دراز کئے رکھے گی قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کی حجیت خودبخود مسلم ہوتی رہے گی۔
آج کے ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے انسانی معاشرے میں یہ بات سمجھنی نسبتاً آسان ہے کہ ذرائع ابلاغ کی موجودہ ترقی نے زمان ومکان کے فاصلوں اور وسعتوں کو حیرت انگیز طور پر سمیٹ دیا ہے۔ معلومات کا سیلاب ہے جو ہر شخص تک پہنچ رہا ہے۔ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہر شخص کی حرکات و سکنات تک رسائی اس قدر آسان ہوچکی ہے کہ آج سے 50 سال قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سارے علوم و فنون انسان کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سی ڈیز، اخبارات، رسائل اور کتب، الغرض ایک سے ایک سریع اور آسان ذریعہ علم میسر ہے، ہم بڑے خطباء، قائدین، دانشوروں اور حکمرانوں کے قیمتی لمحات کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود کیا کوئی شخص کوئی حکومت یا کوئی ادارہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے فلاں شخصیت اور فلاں حکمران کی ساری زندگی محفوظ کردی ہے؟ اس کا ہر پہلو پبلک کے سامنے کھلا ہوا ہے اور اس کی خلوت و جلوت کی تفصیلات عوام کی پہنچ میں ہیں؟ نہیں، اس دنیا میں اس معیار پر کوئی بھی پورا نہیں اترتا۔ پوری کائنات میں یہ امتیاز صرف اور صرف حضور تاجدار کائنات کو حاصل ہے کہ آج سے ساڑھے 14 سو سال قبل جب ان جدید ذرائع اور سہولیات میں سے کسی ایک چیز کا بھی وجود نہیں تھا۔ ۔ ۔ صرف دیکھنے والوں کی محبت بھری نظریں اور محسوس کرنے والوں کی زبان حق ترجمان تھی، آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلوت وجلوت کا ہر لمحہ، سفرو حضر کی ہر تفصیل نشست و برخاست کا ہر انداز اور خوشی غمی کی ہر کیفیت ریکارڈ پر ہے۔
سیرت و سنت کا یہی معجزہ نما ریکارڈ ’’ذخیرہ حدیث‘‘ ہے۔ جو اس وقت سینکڑوں کتب کی صورت میں ہزاروں کتب خانوں کے اندر لاکھوں صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کس قدر پر لطف اور باعث حیرت و تعجب بات ہے کہ جن لوگوں نے اس علم کی خدمت میں خود کو مٹادیا اور اپنے عظیم وجلیل پیغمبر علیہ السلام کے اقوال و افعال کو محفوظ کرتے رہے۔ اللہ پاک نے ان کی حیات و خدمات کو بھی بقاء دوام کی نعمت سے سرفراز فرمادیا چنانچہ رواۃ حدیث کے حالات اور ان کی سیرت و کردار کے بیان پر مشتمل ایک مستقل صنفِ علم وجود میں آگئی جسے ’’علم اسماء الرجال‘‘ کہا جاتا ہے اور اس علم کی اس قدر دلچسپ تفصیلات جمع ہوگئیں کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہیں کرسکتا۔
چنانچہ ہر دور میں کچھ خوش نصیب لوگ ایسے ضرور آتے رہے جو اپنی اپنی جھولیوں میں علم حدیث کی خیرات سمیٹنے کو زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھ کر اس میدان میں استقامت کے ساتھ جمے رہے۔ انہوں نے علم حدیث کی خدمت کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایسے ہی مخصوص لوگوں (محدثین) میں سے بعض کو اللہ پاک نے حفظ و ضبط کی خصوصیت کے ساتھ ساتھ استنباط و استخراج احکام مسائل کی اضافی صلاحیت سے بھی نواز رکھا تھا، جنہیں ہم ائمہ مجتہدین کہتے ہیں مجتہدین اور محدثین کے اس سنہرے سلسلے کی کڑیوں میں سرفہرست امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، امام مالک رضی اللہ عنہ، امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ امام محمد شیبانی رضی اللہ عنہ، امام طحاوی رضی اللہ عنہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے نام ہیں۔
تاریخ تدوین حدیث۔ ۔ ۔ ایک نظر میں
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی دینی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت سے لیکر آج تک اسلامی دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ احادیث کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ تدوین حدیث کا کام دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی شروع ہوچکا تھا اور کئی صحابہ نے اپنے طور پر اپنی مسانید جمع کر رکھی تھیں لیکن چونکہ قرآن حکیم اتر رہا تھا، کئی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب پر قرآن حفظ کر رہے تھے اور جو لوگ لکھنا جانتے تھے وہ وحی الہٰی کی کتابت کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اور بعد ازاں خلفائے راشدین نے بھی حفاظت و تدوین قرآن کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت احادیث کے کسی مجموعے کی تدوین اور ترویج کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ تاہم صحابہ کے حیرت انگیز حافظے میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، احوال اور پسند ناپسند پوری طرح محفوظ رہی اس لئے جمع و تدوین قرآن کا کام جب پوری طرح مکمل ہوگیا اور دور دراز ممالک میں قرآن کے قلمی نسخے فراہم ہوگئے تو اس کے بعد تدوین حدیث پر کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
اسلامی سلطنت کی وسعتوں اور نئے مفتوحہ علاقوں میں نت نئے مسائل و معاملات اور فتنوں کے تدارک میں صحابہ کرام قرآنی احکام کی تشریح و تعبیر میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مدد لیتے تھے اور حسب ضرورت ایک دوسرے سے ان اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبادلہ بھی فرماتے تھے۔ صحابہ اور تابعین کا جذبہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے پیارے آقا کی باتوں کو حرزِ جاں بنائیں۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلرباء اداؤں کے تذکرووں سے ایمان کی تازگی کا سامان کریں۔ چنانچہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی فیضان علم حدیث کی حفاظت اور اس کی تدوین کا بنیادی سبب بھی بنا۔
جمع و تدوین قرآن میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اور قوت فیصلہ سے کام لیا اور یہ کام بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا اسی طرح باقاعدہ جمع و تدوین حدیث کی سعادت جس حکمران شخصیت کے حصہ میں آئی وہ فاروق اعظم ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے۔ اس پانچویں خلیفہ راشد نے جب بوجوہ احادیث کو یکجا اور مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا آپ نے تو اس وقت کے معتمد اور مستند ترین علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جن میں
1۔ ابوبکر بن محمد بن عمر بن حزم رحمۃ اللہ علیہ
2۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور
3۔ ابوبکر محمد بن مسلم بن عبداللہ بن شہاب زہری رضی اللہ عنہ
کے اسمائے گرامی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ اول الذکر دونوں حضرات کی مدد سے ابن شہاب زہری نے میسر احادیث کا پہلا اور شاندار مجموعہ مرتب کیا۔ امام ابن شہاب زہری (124ھ) اکابر تابعی اور اپنے زمانے کے محدثین میں ممتاز ترین مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ بھی دیا تھا اور حدیث نبوی کو محفوظ کرنے کا شوق بھی جنون کی حد تک تھا۔ علاوہ ازیں انہیں جن نامور شخصیات سے علم حدیث حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ اور سعید بن مسیب محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ جیسے تابعین شامل ہیں۔ حدیث کے نامور ائمہ، امام اوزاعی رضی اللہ عنہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ ہی کے فیض یافتہ تلامذہ میں شامل ہیں۔ (ا)
(حافظ جلال الدین سیوطی، تدریب الراوی 73)
کہا جاتا ہے کہ حدیث کو سند کے ساتھ بیان کرنے کی ابتداء بھی ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ نے کی، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علم اسناد کا واضح بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ (1) یوں صحابہ کرام تابعین اور بالخصوص مذکورہ بالا حضرات ائمہ نے جو کاوشیں بروئے کار لائیں یہ تدوین حدیث کا دورِ اول ہے۔
1۔ (مقدمہ الحرح والتعدیل رضی اللہ عنہ 20)
اسی دور کے دوسرے اہل علم نے پورے بلادِ اسلامیہ میں تدوین حدیث کا کام شروع کر دیا چنانچہ عبدالملک بن جریج (م 150ھ) نے مکہ میں، امام اوزاعی (م 157ھ) نے شام میں، معمر بن راشد (م 153ھ) نے یمن میں، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (م 150ھ) اور امام سفیان ثوری (م161ھ) نے کوفہ میں ربیع بن صبیح (م 160ھ) اور امام حماد بن سلمہ (م 167ھ) نے بصرہ میں امام عبداللہ بن مبارک (م 181ھ) نے خراسان میں اور عبداللہ بن وھب (م 197ھ) نے مصر میں جمع و تدوینِ حدیث کے مقدس مشن کا آغاز کر دیا۔
کوفہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ بن چکا تھا اس لئے مدینہ منورہ کے بعد اہل علم صحابہ اور تابعین یہاں آکر آباد ہوگئے تھے جن میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں جن کی صحبت و مجلس میں پروان چڑھنے والے ائمہ میں سراج الامۃ حضرت امام ابوحنیفہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنی سند سے جو احادیث روایت کیں ان کے تلمیذ رشید امام محمد، امام ابو یوسف امام حسن بن زیاد وغیرہ نے ’’الآثار‘‘ کے نام سے مرتب کیں۔ امام اعظم نے یہ کتاب ترتیب و تبویب کی عمدہ شکل میں مرتب کروائی، یہی وجہ ہے کہ بعض محققین اسی کتاب کو حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی حافظ مغلطانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’وہ کئی ائمہ کی طرح موطا کو حدیث کی پہلی مرتبہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک کتاب الآثار موطا سے پہلے کی تصنیف ہے جس سے خود موطا کی تالیف میں استفادہ کیا گیا۔
(تنویر الحوالک ج 1 رضی اللہ عنہ 4 طبع مصر)
امام سیوطی نے اسی موقف کو تبییض الصحیفہ میں یوں دہرایا۔
من مناقب ابی حنيفة التی انفرد بها انه اول من دَوَّنَ علم الشريعة ورتبه ابوابا ثم تبعه مالک بن انس فی ترتيب الموطا ولم يسبق ابا حنيفة احد.
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان خصوصی مناقب میں، جن میں وہ منفرد ہیں ایک یہ بھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کو ابواب میں مرتب کیا پھر امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے موطا کی ترتیب میں ان کی پیروی کی اور اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں‘‘۔
(تبییض الصحیفہ رضی اللہ عنہ 36 طبع حیدر آباد 1234ھ)
مدینہ منورہ میں ترتیب و تدوین احادیث کا جو کام امام زہری نے شروع کیا تھا اس کو آپ کے مایہ ناز تلامذہ نے آگے بڑھایا حتی کہ دوسری صدی ہجری کے آخیر میں ان کے نامور شاگرد امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے فقہی ترتیب پر پہلا منظم مجموعہ ’’موطا‘‘ کے نام سے پیش کر دیا۔ امام مالک کو مدینہ منورہ میں موجود جن جلیل القدر مشائخ سے حصول علم کا موقعہ ملا ان کی تعداد 9سو سے زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے چشمہ علم سے دور دراز تک اہل اسلام کو مستفید فرمایا چنانچہ حجاز کے علاوہ شام، عراق، یمن، فلسطین، مصر، افریقہ، اندلس اور بخارا و سمر قند سے جو تلامذہ حاضر ہوتے رہے ان میں لیث بن سعد (م 157ھ)، ابن مبارک (م 151ھ)، امام شافعی (م 204ھ) اور امام محمد بن حسن الشیبانی (م 189 ھ) جیسے مشاہیر قابل ذکر ہیں۔ دوسری صدی کے اس نصف آخر میں ان آئمہ نے جو مجموعہ ہائے حدیث مرتب فرمائے ان میں سفیان ثوری، عبداللہ ابن مبارک، امام اوزاعی اور ابن جریج کی جوامع، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الام اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں مگر جو شہرت اور قدرو منزلت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’’موطا‘‘ کو حاصل ہوئی وہ اس دور کی کسی اور کتاب کے حصے میں نہ آئی۔ اس کے کئی اسباب میں سے امام مالک کی شخصیت، علمی تبحر اور ان کا اخلاص تقویٰ اور صاحب حدیث حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کا عنصر غالب ہے۔ تدوین حدیث کا یہ دور جو دوسری صدی کے نصف تک جاری رہا یہ دور ثانی ہے۔
تدوین حدیث کا سنہری دور
تدوین حدیث کا تیسرا دور دوسری صدی ہجری کے نصف آخر سے چوتھی صدی ہجری کے خاتمے تک پھیلا ہوا ہے۔ اڑھائی سو سالہ یہ عرصہ، تدوین حدیث کی تاریخ کا سب سے سنہری دور ہے جس میں محدثین نے اپنی ان تھک کاوشوں سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ ان کاوشوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مختلف شعبوں میں نمایاں کارناموں کی طویل فہرست ملے گی۔ جن میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
رواۃ حدیث کی چھان بین کے بعد اسی دور میں صحاح ستہ، مسند الدارمی، مسند امام احمد بن حنبل مصنف عبدالرزاق صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان جیسی معیاری اور معتبر کتب حدیث مرتب ہوئیں۔ جن میں گذشتہ صدی کی کتب خود بخود سمٹ آئیں۔
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آثار صحابہ اور اقوال تابعین سے الگ کرکے مرتب کیا جانے لگا۔
نامور فقہاء کے اجتہادات اور مسائل کی تدوین و ترتیب کی روشنی میں محدثین نے احادیث مبارکہ کو فقہی ابواب اور واضح عنوانات (ترجمۃ الابواب) کے ساتھ مرتب کرنا شروع کر دیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم اس کی بہترین مثال ہیں۔
اسی دور میں علم اصول حدیث مدون ہوا جس کی روشن میں مصطلحات حدیث وضح ہوئیں، صحت اور ضعف اور ردو قبول کے اصول و ضوابط متعین کئے گئے اور سینکڑوں کتب لکھی گئیں جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
علم ’’غریب الحدیث‘‘ کی بنیاد پڑی جس کے تحت احادیث مبارکہ کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی گئی تاکہ فتوحات کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والے غیر عرب مسلمانوں کے لئے احادیث کی تفہیم کو ممکن بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں تیسری صدی ہجری سے لے کر اب تک درجنوں کتب لکھی گئی ہیں، جن میں ابو عبید قاسم بن سلام (م 224ھ)، امام ابراہیم بن اسحاق الحربی (م 285ھ)، ابو سلیمان بن محمد بن ابراہیم الخطابی البستی (م 388ھ)، ابو عبید احمد بن محمد الہروی (م 401ھ)، ابو القاسم جار اﷲ الزمخشری (م 538ھ)، محمد بن ابی بکر اشعری مدینی (م 581ھ)، علامہ ابن جوزی (م 597ھ)، امام ابن اثیر (م 606ھ)، امام سیوطی (م 911ھ) اور محمد طاہر پٹنی (م 986ھ) کی کتب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
حدیث کی حفاظت اور چھان بین کے لئے محدثین کرام نے درجنوں علوم کی بنیاد ڈالی جن پر اب تک کام جاری ہے اور ہزاروں کتب کا بے مثال ذخیرہ ہماری علمی تاریخ میں اضافے کا باعث بنا۔ اس دور میں شروع ہونے والے علوم حدیث میں سے علم اسماء الرجال، تاریخ الحدیث، علم جرح والتعدیل، علم الانساب، تخریج الحدیث، علم معرفۃ الاسماء ولکنیٰ اور علم الطبقات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم صرف علم اسماء الرجال کا اجمالی تذکرہ کر رہے ہیں۔
علم اسماء الرجال اور اس کی خصوصیت
مختلف باطل فرقوں کی طرف سے بپا کی جانے والی شر انگیزیوں کا تدارک کرنے کے لئے محدثین نے کڑے معیار متعین فرمائے اور اپنی زندگیاں ان اصولوں کی پرورش و نگہداشت کے لئے وقف کردیں۔ علم اسماء الرجال کے تحت کم و بیش 5 لاکھ راویوں کے حالات، پیدائش، وفات ان کے اخلاق، طرز زندگی، اساتذہ، تلامذہ اور دیگر شواہد پر مشتمل ایسا ذخیرہ علم ہے جس کی وسعت، پختگی اور تسلسل پر غیر مسلم اہل علم آج تک انگشت بہ دندان ہیں۔ یہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کا حصہ ہے کہ جنہوں نے اپنے آقا نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اقوال اور سنت کی حفاظت کے لئے خود کو وقف کر دیا اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کرم کے طفیل ان پانچ لاکھ افراد کو بھی تاریخ میں زنادہ و جاوید کر دیا۔ ان پانچ لاکھ ’’رجال حدیث‘‘ میں تقریباً 13 ہزار وہ شخصیات ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ سے روایت سن کر آگے بیان فرمائی، علامہ شبلی نعمانی نے اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔
’’مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف استفصار کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ کیا عجیب بات ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کی تحقیق کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تقریباً تیرہ ہزار شخصیتوں کے نام اور حالات قلم بند کئے گئے اور یہ اس زمانے میں ہوا جب تصنیف و تالیف کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا‘‘۔
(شبلی نعمانی سیرت النبی جلد اول مطبع اردو بازار لاہور)
عظمت تو وہ ہے جس کا اعتراف مخالفین کریں، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر نے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ کے ایڈیشن طبع 1886 کے مقدمے میں لکھا۔
’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اور نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو۔ جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے‘‘۔
(ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مقدمہ سپرنگر مطبوعہ کلکتہ)
متن حدیث کے ساتھ ساتھ سند کی تحقیق کے لئے فنِ علمِ الرجال کا ارتقاء ہوتا رہا اور اس پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م 241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م 256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں اور امام ترمذی (م 279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر شاندار کام اسی دور میں سرانجام دیا۔
تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م 234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں، امام ترمذی (م279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں اسماء الرجال پر اسی ابتدائی دور میں کام شروع کر دیا تھا۔
چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل لوگ ہیں امام نسائی (م303ھ) نے ’’کتاب الضعفاء والمتروکین‘‘ اور محمد بن احمد حماد الدولابی (م310ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنی‘‘ تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م327ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل‘‘کے مصنف ہیں اس کا مقدمہ قابل دید ہے اس کے علاوہ ’’کتاب الکنی‘‘ اور ’’کتاب المراسیل‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں۔ امام محمد بن حبان بستی (م354ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتاب المجروحین‘‘ لکھی ہیں۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م365ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، دار قطنی (م385ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔ امام دار قطنی نے ’’کتاب الضعفاء‘‘ بھی تالیف کی جو چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’الموتلف والمختلف‘‘ بھی چھپ چکی ہے۔
پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م463ھ) اور خطیب بغدادی (م463ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام زیادہ کیا۔
چھٹی صدی ہجری کے مولفین رجال میں سے امام بیہقی (م558ھ) امام ابن جوزی (م597ھ) ہیں۔ اس کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م600ھ) نے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی۔
ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (م676ھ) نے اس فن پر گراں قدر کام کیا۔ ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ بہت معروف ہے۔
آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن زکی مزی (م742ھ) اور حافظ ذہبی (م748ھ) نے ’’تاریخ اسلام‘‘، ’’سیر اعلام النبلا‘‘ اور ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور ابوالفداء عمادالدین ابن کثیر (م774ھ) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں رجال پر شاندار کام کیا۔
دین اسلام کے بنیادی مآخذ دو ہیں، ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ قرآن حکیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی 23 سالہ وحی الہٰی کا وہ حتمی مجموعہ ہے جس کی لفظی ومعنوی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔ چنانچہ قرآن حکیم دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس کا ایک ایک حرف ایک ایک حرکت اور ایک ایک سطر اسی طرح اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر اترا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو سنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کی سب سے بڑی حقانیت، کتاب زندہ قرآن ہے۔ حقانیت اسلام کی دوسری بڑی اساس پیغمبر انسانیت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت مطہرہ ہے۔ قرآن حکیم کی طرح صاحب قرآن کی زندگی کا بھی ایک ایک لمحہ، ایک ایک دن اور ایک ایک زاویہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ایک کھلی کتاب کی طرح ہر شخص کے سامنے موجود ہے۔ اپنوں کے سامنے بھی اور غیروں کے سامنے بھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کو خود اللہ رب العزت نے ’’اسوہ حسنہ‘‘ یعنی بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس پاکیزہ اور اعلیٰ ترین انسانی نمونۂ عمل کی تمام جزئیات بنی نوع انسان کے سامنے موجود ہوتیں۔ ان تفصیلات سے قیامت تک کی ہر نسل انسانی کو آگاہ کرنے کے لئے اللہ پاک نے صحابہ کرام کی برگزیدہ جماعت کو ذہانت، شجاعت، محبت، قوت مشاہدہ، صداقت، دیانت اور حفظ و ضبط جیسی نادر خصوصیات سے بیک وقت نواز رکھا تھا جو دنیا کے کسی دوسرے گروہ انسانی میں ہمیں یکجا نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ ان خوبیوں کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا، پسند و ناپسند اور اظہار فرحت و کوفت کی ہر کیفیت کو انہی الفاظ کے ساتھ محفوظ کرلیا گیا جو آپ نے اپنی زبان اقدس سے ادا فرمائے۔ انہی کلمات، انداز، کیفیات اور احوال کے بیان کو ’’علم حدیث‘‘ موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اقوال و افعال اور کیفیات کو بیان کرنے والوں کو راوی اور ان روایات پر کام کرنے والے خوش نصیب لوگوں کو محدث کہا جاتا ہے۔
علم حدیث کی اہمیت اور حجیت پر گفتگو اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں لیکن ایک بات واضح کئے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں کہ جب تک دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی جاتی رہے گی، آپ سے محبت کے چراغ اہل ایمان کے سینوں میں جلتے رہیں گے، آپ کی اطاعت کو عین ایمان سمجھا جاتا رہے گا، آپ کے اسوہ حسنہ کے نشانات کو سنگ میل بنایا جاتا رہے گا اور آپ کی عطاؤں کے سامنے پوری انسانیت دامن سوال دراز کئے رکھے گی قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کی حجیت خودبخود مسلم ہوتی رہے گی۔
آج کے ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے انسانی معاشرے میں یہ بات سمجھنی نسبتاً آسان ہے کہ ذرائع ابلاغ کی موجودہ ترقی نے زمان ومکان کے فاصلوں اور وسعتوں کو حیرت انگیز طور پر سمیٹ دیا ہے۔ معلومات کا سیلاب ہے جو ہر شخص تک پہنچ رہا ہے۔ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہر شخص کی حرکات و سکنات تک رسائی اس قدر آسان ہوچکی ہے کہ آج سے 50 سال قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سارے علوم و فنون انسان کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سی ڈیز، اخبارات، رسائل اور کتب، الغرض ایک سے ایک سریع اور آسان ذریعہ علم میسر ہے، ہم بڑے خطباء، قائدین، دانشوروں اور حکمرانوں کے قیمتی لمحات کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود کیا کوئی شخص کوئی حکومت یا کوئی ادارہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے فلاں شخصیت اور فلاں حکمران کی ساری زندگی محفوظ کردی ہے؟ اس کا ہر پہلو پبلک کے سامنے کھلا ہوا ہے اور اس کی خلوت و جلوت کی تفصیلات عوام کی پہنچ میں ہیں؟ نہیں، اس دنیا میں اس معیار پر کوئی بھی پورا نہیں اترتا۔ پوری کائنات میں یہ امتیاز صرف اور صرف حضور تاجدار کائنات کو حاصل ہے کہ آج سے ساڑھے 14 سو سال قبل جب ان جدید ذرائع اور سہولیات میں سے کسی ایک چیز کا بھی وجود نہیں تھا۔ ۔ ۔ صرف دیکھنے والوں کی محبت بھری نظریں اور محسوس کرنے والوں کی زبان حق ترجمان تھی، آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلوت وجلوت کا ہر لمحہ، سفرو حضر کی ہر تفصیل نشست و برخاست کا ہر انداز اور خوشی غمی کی ہر کیفیت ریکارڈ پر ہے۔
سیرت و سنت کا یہی معجزہ نما ریکارڈ ’’ذخیرہ حدیث‘‘ ہے۔ جو اس وقت سینکڑوں کتب کی صورت میں ہزاروں کتب خانوں کے اندر لاکھوں صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کس قدر پر لطف اور باعث حیرت و تعجب بات ہے کہ جن لوگوں نے اس علم کی خدمت میں خود کو مٹادیا اور اپنے عظیم وجلیل پیغمبر علیہ السلام کے اقوال و افعال کو محفوظ کرتے رہے۔ اللہ پاک نے ان کی حیات و خدمات کو بھی بقاء دوام کی نعمت سے سرفراز فرمادیا چنانچہ رواۃ حدیث کے حالات اور ان کی سیرت و کردار کے بیان پر مشتمل ایک مستقل صنفِ علم وجود میں آگئی جسے ’’علم اسماء الرجال‘‘ کہا جاتا ہے اور اس علم کی اس قدر دلچسپ تفصیلات جمع ہوگئیں کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہیں کرسکتا۔
چنانچہ ہر دور میں کچھ خوش نصیب لوگ ایسے ضرور آتے رہے جو اپنی اپنی جھولیوں میں علم حدیث کی خیرات سمیٹنے کو زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھ کر اس میدان میں استقامت کے ساتھ جمے رہے۔ انہوں نے علم حدیث کی خدمت کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایسے ہی مخصوص لوگوں (محدثین) میں سے بعض کو اللہ پاک نے حفظ و ضبط کی خصوصیت کے ساتھ ساتھ استنباط و استخراج احکام مسائل کی اضافی صلاحیت سے بھی نواز رکھا تھا، جنہیں ہم ائمہ مجتہدین کہتے ہیں مجتہدین اور محدثین کے اس سنہرے سلسلے کی کڑیوں میں سرفہرست امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، امام مالک رضی اللہ عنہ، امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ امام محمد شیبانی رضی اللہ عنہ، امام طحاوی رضی اللہ عنہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے نام ہیں۔
تاریخ تدوین حدیث۔ ۔ ۔ ایک نظر میں
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی دینی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت سے لیکر آج تک اسلامی دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ احادیث کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ تدوین حدیث کا کام دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی شروع ہوچکا تھا اور کئی صحابہ نے اپنے طور پر اپنی مسانید جمع کر رکھی تھیں لیکن چونکہ قرآن حکیم اتر رہا تھا، کئی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب پر قرآن حفظ کر رہے تھے اور جو لوگ لکھنا جانتے تھے وہ وحی الہٰی کی کتابت کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اور بعد ازاں خلفائے راشدین نے بھی حفاظت و تدوین قرآن کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت احادیث کے کسی مجموعے کی تدوین اور ترویج کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ تاہم صحابہ کے حیرت انگیز حافظے میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، احوال اور پسند ناپسند پوری طرح محفوظ رہی اس لئے جمع و تدوین قرآن کا کام جب پوری طرح مکمل ہوگیا اور دور دراز ممالک میں قرآن کے قلمی نسخے فراہم ہوگئے تو اس کے بعد تدوین حدیث پر کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔
اسلامی سلطنت کی وسعتوں اور نئے مفتوحہ علاقوں میں نت نئے مسائل و معاملات اور فتنوں کے تدارک میں صحابہ کرام قرآنی احکام کی تشریح و تعبیر میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مدد لیتے تھے اور حسب ضرورت ایک دوسرے سے ان اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبادلہ بھی فرماتے تھے۔ صحابہ اور تابعین کا جذبہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے پیارے آقا کی باتوں کو حرزِ جاں بنائیں۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلرباء اداؤں کے تذکرووں سے ایمان کی تازگی کا سامان کریں۔ چنانچہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی فیضان علم حدیث کی حفاظت اور اس کی تدوین کا بنیادی سبب بھی بنا۔
جمع و تدوین قرآن میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اور قوت فیصلہ سے کام لیا اور یہ کام بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا اسی طرح باقاعدہ جمع و تدوین حدیث کی سعادت جس حکمران شخصیت کے حصہ میں آئی وہ فاروق اعظم ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے۔ اس پانچویں خلیفہ راشد نے جب بوجوہ احادیث کو یکجا اور مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا آپ نے تو اس وقت کے معتمد اور مستند ترین علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جن میں
1۔ ابوبکر بن محمد بن عمر بن حزم رحمۃ اللہ علیہ
2۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور
3۔ ابوبکر محمد بن مسلم بن عبداللہ بن شہاب زہری رضی اللہ عنہ
کے اسمائے گرامی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ اول الذکر دونوں حضرات کی مدد سے ابن شہاب زہری نے میسر احادیث کا پہلا اور شاندار مجموعہ مرتب کیا۔ امام ابن شہاب زہری (124ھ) اکابر تابعی اور اپنے زمانے کے محدثین میں ممتاز ترین مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ بھی دیا تھا اور حدیث نبوی کو محفوظ کرنے کا شوق بھی جنون کی حد تک تھا۔ علاوہ ازیں انہیں جن نامور شخصیات سے علم حدیث حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ اور سعید بن مسیب محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ جیسے تابعین شامل ہیں۔ حدیث کے نامور ائمہ، امام اوزاعی رضی اللہ عنہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ ہی کے فیض یافتہ تلامذہ میں شامل ہیں۔ (ا)
(حافظ جلال الدین سیوطی، تدریب الراوی 73)
کہا جاتا ہے کہ حدیث کو سند کے ساتھ بیان کرنے کی ابتداء بھی ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ نے کی، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علم اسناد کا واضح بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ (1) یوں صحابہ کرام تابعین اور بالخصوص مذکورہ بالا حضرات ائمہ نے جو کاوشیں بروئے کار لائیں یہ تدوین حدیث کا دورِ اول ہے۔
1۔ (مقدمہ الحرح والتعدیل رضی اللہ عنہ 20)
اسی دور کے دوسرے اہل علم نے پورے بلادِ اسلامیہ میں تدوین حدیث کا کام شروع کر دیا چنانچہ عبدالملک بن جریج (م 150ھ) نے مکہ میں، امام اوزاعی (م 157ھ) نے شام میں، معمر بن راشد (م 153ھ) نے یمن میں، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (م 150ھ) اور امام سفیان ثوری (م161ھ) نے کوفہ میں ربیع بن صبیح (م 160ھ) اور امام حماد بن سلمہ (م 167ھ) نے بصرہ میں امام عبداللہ بن مبارک (م 181ھ) نے خراسان میں اور عبداللہ بن وھب (م 197ھ) نے مصر میں جمع و تدوینِ حدیث کے مقدس مشن کا آغاز کر دیا۔
کوفہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ بن چکا تھا اس لئے مدینہ منورہ کے بعد اہل علم صحابہ اور تابعین یہاں آکر آباد ہوگئے تھے جن میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں جن کی صحبت و مجلس میں پروان چڑھنے والے ائمہ میں سراج الامۃ حضرت امام ابوحنیفہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنی سند سے جو احادیث روایت کیں ان کے تلمیذ رشید امام محمد، امام ابو یوسف امام حسن بن زیاد وغیرہ نے ’’الآثار‘‘ کے نام سے مرتب کیں۔ امام اعظم نے یہ کتاب ترتیب و تبویب کی عمدہ شکل میں مرتب کروائی، یہی وجہ ہے کہ بعض محققین اسی کتاب کو حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی حافظ مغلطانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’وہ کئی ائمہ کی طرح موطا کو حدیث کی پہلی مرتبہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک کتاب الآثار موطا سے پہلے کی تصنیف ہے جس سے خود موطا کی تالیف میں استفادہ کیا گیا۔
(تنویر الحوالک ج 1 رضی اللہ عنہ 4 طبع مصر)
امام سیوطی نے اسی موقف کو تبییض الصحیفہ میں یوں دہرایا۔
من مناقب ابی حنيفة التی انفرد بها انه اول من دَوَّنَ علم الشريعة ورتبه ابوابا ثم تبعه مالک بن انس فی ترتيب الموطا ولم يسبق ابا حنيفة احد.
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان خصوصی مناقب میں، جن میں وہ منفرد ہیں ایک یہ بھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کو ابواب میں مرتب کیا پھر امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے موطا کی ترتیب میں ان کی پیروی کی اور اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں‘‘۔
(تبییض الصحیفہ رضی اللہ عنہ 36 طبع حیدر آباد 1234ھ)
مدینہ منورہ میں ترتیب و تدوین احادیث کا جو کام امام زہری نے شروع کیا تھا اس کو آپ کے مایہ ناز تلامذہ نے آگے بڑھایا حتی کہ دوسری صدی ہجری کے آخیر میں ان کے نامور شاگرد امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے فقہی ترتیب پر پہلا منظم مجموعہ ’’موطا‘‘ کے نام سے پیش کر دیا۔ امام مالک کو مدینہ منورہ میں موجود جن جلیل القدر مشائخ سے حصول علم کا موقعہ ملا ان کی تعداد 9سو سے زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے چشمہ علم سے دور دراز تک اہل اسلام کو مستفید فرمایا چنانچہ حجاز کے علاوہ شام، عراق، یمن، فلسطین، مصر، افریقہ، اندلس اور بخارا و سمر قند سے جو تلامذہ حاضر ہوتے رہے ان میں لیث بن سعد (م 157ھ)، ابن مبارک (م 151ھ)، امام شافعی (م 204ھ) اور امام محمد بن حسن الشیبانی (م 189 ھ) جیسے مشاہیر قابل ذکر ہیں۔ دوسری صدی کے اس نصف آخر میں ان آئمہ نے جو مجموعہ ہائے حدیث مرتب فرمائے ان میں سفیان ثوری، عبداللہ ابن مبارک، امام اوزاعی اور ابن جریج کی جوامع، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الام اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں مگر جو شہرت اور قدرو منزلت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’’موطا‘‘ کو حاصل ہوئی وہ اس دور کی کسی اور کتاب کے حصے میں نہ آئی۔ اس کے کئی اسباب میں سے امام مالک کی شخصیت، علمی تبحر اور ان کا اخلاص تقویٰ اور صاحب حدیث حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کا عنصر غالب ہے۔ تدوین حدیث کا یہ دور جو دوسری صدی کے نصف تک جاری رہا یہ دور ثانی ہے۔
تدوین حدیث کا سنہری دور
تدوین حدیث کا تیسرا دور دوسری صدی ہجری کے نصف آخر سے چوتھی صدی ہجری کے خاتمے تک پھیلا ہوا ہے۔ اڑھائی سو سالہ یہ عرصہ، تدوین حدیث کی تاریخ کا سب سے سنہری دور ہے جس میں محدثین نے اپنی ان تھک کاوشوں سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ ان کاوشوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مختلف شعبوں میں نمایاں کارناموں کی طویل فہرست ملے گی۔ جن میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
رواۃ حدیث کی چھان بین کے بعد اسی دور میں صحاح ستہ، مسند الدارمی، مسند امام احمد بن حنبل مصنف عبدالرزاق صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان جیسی معیاری اور معتبر کتب حدیث مرتب ہوئیں۔ جن میں گذشتہ صدی کی کتب خود بخود سمٹ آئیں۔
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آثار صحابہ اور اقوال تابعین سے الگ کرکے مرتب کیا جانے لگا۔
نامور فقہاء کے اجتہادات اور مسائل کی تدوین و ترتیب کی روشنی میں محدثین نے احادیث مبارکہ کو فقہی ابواب اور واضح عنوانات (ترجمۃ الابواب) کے ساتھ مرتب کرنا شروع کر دیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم اس کی بہترین مثال ہیں۔
اسی دور میں علم اصول حدیث مدون ہوا جس کی روشن میں مصطلحات حدیث وضح ہوئیں، صحت اور ضعف اور ردو قبول کے اصول و ضوابط متعین کئے گئے اور سینکڑوں کتب لکھی گئیں جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
علم ’’غریب الحدیث‘‘ کی بنیاد پڑی جس کے تحت احادیث مبارکہ کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی گئی تاکہ فتوحات کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والے غیر عرب مسلمانوں کے لئے احادیث کی تفہیم کو ممکن بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں تیسری صدی ہجری سے لے کر اب تک درجنوں کتب لکھی گئی ہیں، جن میں ابو عبید قاسم بن سلام (م 224ھ)، امام ابراہیم بن اسحاق الحربی (م 285ھ)، ابو سلیمان بن محمد بن ابراہیم الخطابی البستی (م 388ھ)، ابو عبید احمد بن محمد الہروی (م 401ھ)، ابو القاسم جار اﷲ الزمخشری (م 538ھ)، محمد بن ابی بکر اشعری مدینی (م 581ھ)، علامہ ابن جوزی (م 597ھ)، امام ابن اثیر (م 606ھ)، امام سیوطی (م 911ھ) اور محمد طاہر پٹنی (م 986ھ) کی کتب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
حدیث کی حفاظت اور چھان بین کے لئے محدثین کرام نے درجنوں علوم کی بنیاد ڈالی جن پر اب تک کام جاری ہے اور ہزاروں کتب کا بے مثال ذخیرہ ہماری علمی تاریخ میں اضافے کا باعث بنا۔ اس دور میں شروع ہونے والے علوم حدیث میں سے علم اسماء الرجال، تاریخ الحدیث، علم جرح والتعدیل، علم الانساب، تخریج الحدیث، علم معرفۃ الاسماء ولکنیٰ اور علم الطبقات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم صرف علم اسماء الرجال کا اجمالی تذکرہ کر رہے ہیں۔
علم اسماء الرجال اور اس کی خصوصیت
مختلف باطل فرقوں کی طرف سے بپا کی جانے والی شر انگیزیوں کا تدارک کرنے کے لئے محدثین نے کڑے معیار متعین فرمائے اور اپنی زندگیاں ان اصولوں کی پرورش و نگہداشت کے لئے وقف کردیں۔ علم اسماء الرجال کے تحت کم و بیش 5 لاکھ راویوں کے حالات، پیدائش، وفات ان کے اخلاق، طرز زندگی، اساتذہ، تلامذہ اور دیگر شواہد پر مشتمل ایسا ذخیرہ علم ہے جس کی وسعت، پختگی اور تسلسل پر غیر مسلم اہل علم آج تک انگشت بہ دندان ہیں۔ یہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کا حصہ ہے کہ جنہوں نے اپنے آقا نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اقوال اور سنت کی حفاظت کے لئے خود کو وقف کر دیا اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کرم کے طفیل ان پانچ لاکھ افراد کو بھی تاریخ میں زنادہ و جاوید کر دیا۔ ان پانچ لاکھ ’’رجال حدیث‘‘ میں تقریباً 13 ہزار وہ شخصیات ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ سے روایت سن کر آگے بیان فرمائی، علامہ شبلی نعمانی نے اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔
’’مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف استفصار کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ کیا عجیب بات ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کی تحقیق کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تقریباً تیرہ ہزار شخصیتوں کے نام اور حالات قلم بند کئے گئے اور یہ اس زمانے میں ہوا جب تصنیف و تالیف کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا‘‘۔
(شبلی نعمانی سیرت النبی جلد اول مطبع اردو بازار لاہور)
عظمت تو وہ ہے جس کا اعتراف مخالفین کریں، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر نے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ کے ایڈیشن طبع 1886 کے مقدمے میں لکھا۔
’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اور نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو۔ جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے‘‘۔
(ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مقدمہ سپرنگر مطبوعہ کلکتہ)
متن حدیث کے ساتھ ساتھ سند کی تحقیق کے لئے فنِ علمِ الرجال کا ارتقاء ہوتا رہا اور اس پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م 241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م 256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں اور امام ترمذی (م 279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر شاندار کام اسی دور میں سرانجام دیا۔
تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م 234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں، امام ترمذی (م279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں اسماء الرجال پر اسی ابتدائی دور میں کام شروع کر دیا تھا۔
چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل لوگ ہیں امام نسائی (م303ھ) نے ’’کتاب الضعفاء والمتروکین‘‘ اور محمد بن احمد حماد الدولابی (م310ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنی‘‘ تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م327ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل‘‘کے مصنف ہیں اس کا مقدمہ قابل دید ہے اس کے علاوہ ’’کتاب الکنی‘‘ اور ’’کتاب المراسیل‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں۔ امام محمد بن حبان بستی (م354ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتاب المجروحین‘‘ لکھی ہیں۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م365ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، دار قطنی (م385ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔ امام دار قطنی نے ’’کتاب الضعفاء‘‘ بھی تالیف کی جو چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’الموتلف والمختلف‘‘ بھی چھپ چکی ہے۔
پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م463ھ) اور خطیب بغدادی (م463ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام زیادہ کیا۔
چھٹی صدی ہجری کے مولفین رجال میں سے امام بیہقی (م558ھ) امام ابن جوزی (م597ھ) ہیں۔ اس کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م600ھ) نے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی۔
ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (م676ھ) نے اس فن پر گراں قدر کام کیا۔ ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ بہت معروف ہے۔
آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن زکی مزی (م742ھ) اور حافظ ذہبی (م748ھ) نے ’’تاریخ اسلام‘‘، ’’سیر اعلام النبلا‘‘ اور ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور ابوالفداء عمادالدین ابن کثیر (م774ھ) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں رجال پر شاندار کام کیا۔