شیخ رشید کی بدتمیزی کی وجہ سے چھٹی پر جانے والا عمران خان کا حامی افسر

جاسم محمد

محفلین
شیخ رشید کی بدتمیزی کی وجہ سے چھٹی پر جانے والا عمران خان کا حامی افسر
شاہد بھٹی



پاکستان کالج آف لا میں قانون کی تعلیم کا آغاز کیا تو اپنے سینئرز میں ایک عجیب شخص کو دیکھا جو صبح سب سے پہلے کالج پہنچتا اور شام کو کالج لائبریری بند ہونے پر ہی واپس جاتا۔ کیا سینیرز، کیا جونیئرز، کیا اساتذہ اور کیا کالج سٹاف سب میں یکساں مقبول۔ ایسی مقبولیت تو کالج میں اس وقت کی اعلی عدلیہ کے کسی جج یا معروف سیاستدانوں کے بیٹوں بھتیجوں کو بھی میسر نہ تھی جو اس متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے بظاہر سادہ سے نظر آنے والے شخص کو حاصل تھی۔

ایک دن پتہ چلا کہ اس نے سی ایس ایس کا تحریری امتحان پاس کر لیا ہے پھر انٹرویو ہوا اور ریلوے گروپ میں تعیناتی ہوگئی۔ english essay جس میں زیادہ لوگ فیل ہوتے ہیں اس کے سب سے زیادہ نمبر آئے۔ سول سروسز اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران چند ملاقاتیں ہوئیں وہاں بھی اسے خاصا مقبول پایا اور گروپ امپروومنٹ کے خواہاں پروبیشنرز کو اس سے مدد لیتے دیکھا۔ وہ اکیڈمی سے پاس آوٹ ہوا اور پھر بس فیسبک پر ہی رابطہ رہا۔

فیسبک پر نظر آنے والی تصاویر سے ہی پتہ چلا کہ وہ کسی کورس یا ڈگری کے لیے کچھ عرصہ امریکہ میں بھی مقیم رہا۔ اس کے اندر کا محب وطن اور اصلاح پسند دانشور ہمیشہ اس کی فیسبکی سرگرمیوں میں جھلکتا رہا۔ اپنے کام سے اس کی لگن بھی صاف نظر آتی رہی۔ فیسبک پر اس کی تحریروں سے اندازہ ہوتا رہا کہ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے بظاہر اکتایا ہوا اور مایوس ہے اور عمران خان سے ملک کی بہتری اور خوشحالی کی تمام تر امیدیں وابستہ کیے ہوے ہے۔

عمران خان کو پسند کرنے کے باوجود جمہوری اصولوں اور قانون کی بالا دستی پر مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی جماعت کے درست موقف کی حمایت کرنے سے کبھی نہیں ہچکچایا۔ پچھلے دنوں جب سپریم کورٹ کی جانب سے ریلوے کی ”زبوں حالی“ پر ازخود نوٹس لے کر کیس کی سماعت کے دوران وزیر ریلوے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اس کی جانب سے انگریزی میں پوسٹ پڑھنے کو ملی جس میں مشورہ دیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کسی بھی بین الاقوامی شہرت کی حامل ایچ آر فرم سے ریلوے اور عدلیہ کے KPIs فریم کروا کر پچھلے چند سالوں میں دونوں اداروں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لے کر دیکھ لیں۔

البتہ شریف خاندان کے خلاف کیسوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپنائے جانے والے خصوصی ضوابط کی حمایت کرتا رہا۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر بہت خوش پر جوش اور پرامید نظر آیا اور پوسٹ کی کہ ہم عمران خان کی ٹیم ہیں اور انہیں کبھی ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان حکومت کی کفایت شعاری مہم کی بھی پرجوش انداز میں تعریف اور حمایت کی۔


آج سوشل میڈیا پر اس کی جانب سے چئیرمین ریلوے کو لکھی درخوست وائرل ہے جس میں وزیر ریلوے کے انتہائی غیر پیشہ ورانہ اور بد لحاظ (ill mannered) رویہ کی وجہ سے اس نے یہ کہتے ہوے طویل رخصت کی استدعا کی ہے کہ سول سروس آف پاکستان کے ایک معزز رکن کی حیثیت سے اس کے لیے موجودہ وزیر ریلوے کے ماتحت کام کرنا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ وزیر ریلوے کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اس ٹیم کے ساتھ جو وزیر ریلوے کے ویژن سے مطابقت رکھتی ہو کام کریں۔

محمد حنیف گل کی جگہ پر خود کو رکھ کر دیکھیں تو صاف سمجھ آتا ہے کہ جس ادارے کی بہتری کے لیے آپ نے دن رات ایک کیے ہوں اس ادارے کو نقصان پہنچانے والے رویوں کو برداشت کرنا کتنا کربناک ہو سکتا ہے۔

آج ایک فرض شناس آفیسر محمد حنیف گل کے خواب ٹوٹے ہیں۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نے آج بھی وزیر ریلوے شیخ رشید کے غیر پیشہ ورانہ اور غیر مناسب رویہ کا نوٹس نہ لیا تو آنے والے دنوں میں بہت سے خواب ٹوٹنے کا اندیشہ ہے۔
 
ایک سرکاری ملازم کے سیاسی خیالات کبھی بھی سوشل میڈیا کا حصہ نہیں ہونے چاہییں۔ اس کو نکلا دیا جانا چاہئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بالکل کوئی حرج نہیں مگر ان کو سوشل میڈیا پہ نہیں آنا چاہئے۔
آپ کی رائےسے متفق ہوں۔ بیروکریٹ، سول سروسز والےریاست کے ملازم ہیں۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ عوام کے منتخب نمائندوں کی پالیسی پرملک کو چلانا ان کا کام ہے۔ اختلاف کی صورت میں استعفی دے سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی ریلوے افسروں سے میٹنگ کے دوران گریڈ 20 کے حنیف گل نامی افسر سے تُو تُو میں میں ہوگئی جس پر شیخ رشید نے اپنی روایتی بدتمیزی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا۔ بعد میں سوشل میڈیا کے توسط سے پتہ چلا کہ حنیف گل نے 2 سال کی چھٹی بمعہ تنخواہ کی درخواست دے دی جس میں لکھا ہے کہ وہ نان پروفیشنل اور بدتمیز منسٹر کے نیچے کام نہیں کرسکتا۔
حنیف گل کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، غلط ہوا۔ شیخ رشید کی بدتمیزیاں کوئی نئی بات نہیں، لیکن اگر یہ بدتمیزیاں سیاستدانوں اور صحافیوں تک محدود رکھے تو بہتر ہوگا، پڑھے لکھے لوگ، خاص کر وہ جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر اہم عہدوں پر موجود ہیں، ان کے ساتھ ایک وزیر محض اس بنا پر بدتمیزی نہیں کرسکتا کہ وہ الیکشن جیت کر آیا ہے اور شومئی قسمت سے وزیر بن بیٹھا۔
حنیف گل کے ساتھ تمام سی ایس پی افسران کو اظہار یکجہتی کرنا ہوگا، ہوسکے تو متفقہ طور پر شیخ رشید سے معافی کا مطالبہ کریں، بصورت دیگر اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیں۔
شیخ رشید سے بھی اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر تو کسی افسر نے کرپشن کی ہے تو اس کے خلاف بھرپور کاروائی کی جائے، ثبوتوں کے ساتھ اسے ایکسپوز کرکے نیب کے حوالے کیا جائے، لیکن محض اس وجہ سے کہ اس نے اپنے پچھلے پانچ سال کی کارکردگی کو بہتر بنا کر پیش کیا، آپ اس کی توہین نہیں کرسکتے۔
حنیف گل صاحب سے بھی عرض ہے کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو اس کا یہ حل نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے دو سال کی چھٹی پر تنخواہ وصول کرتے رہیں۔ اپنے حق کیلئے لڑتے رہیں، ساتھ کام بھی کرتے رہیں۔ دو سال کی چھٹی کے بعد کیا شیخ رشید وزارت چھوڑ چکا ہوگا یا آپ کے اندر برداشت کا مادہ بڑھ چکا ہوگا؟
حنیف گل ہوسکتا ہے کہ ایماندار افسر ہو لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ 17 ویں گریڈ سے لے کر اوپر کے گریڈ پر جوں جوں جاتے جائیں، کرپشن میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ جو نوازشریف اور زرداری پر 1800 ارب لوٹنے کا الزام ہے، یہ ان دونوں نے خود نہیں لوٹے تھے بلکہ ان کے مددگار یہی گریڈ 18، 19، 20 اور 21 کے افسران ہی تھے جو اس حرامخوری میں برابر کے مددگار تھے۔
شیخ رشید صاحب،
خواجہ سعد رفیق سے بغض رکھنے کی بجائے کارکردگی کا مقابلہ کریں۔ ریلوے کا خسارہ کم کریں، اپنی وزارت کی فضول خرچیاں ختم کریں، کرپٹ افسران کا ثبوتوں کے ساتھ محاسبہ کریں، ایماندار افسران کو ریوارڈ دیں، عوام کو ریلیف دیں اور ریلوے کو بطور ادارہ مضبوط کریں۔ پھر جب تک کوئی آپ سے بہتر منسٹر نہ آیا تو آپ کے ہی نام کا ڈنکا بجتا رہے گا۔
تاریخ میں زندہ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے کارکردگی۔ اگر وقتی طور پر خبروں میں زندہ رہنا ہے تو یہ کام اداکارہ میرا بھی بہت اچھی طرح کرلیتی ہے
!!! بقلم خود باباکوڈا
 

ربیع م

محفلین
ایک سوال ہے کہ خان صاحب نے ایک ایسے آدمی کو وزارت کیوں دی جو پی ٹی آئی کا بھی نہیں اور خود سے اپنے حلقے میں الیکشن بھی نہیں جیت سکتا اور اس وزارت کیلئے اس میں قابلیت بھی نہیں... وغيره وغیرہ
 

جاسم محمد

محفلین
ایک سوال ہے کہ خان صاحب نے ایک ایسے آدمی کو وزارت کیوں دی جو پی ٹی آئی کا بھی نہیں اور خود سے اپنے حلقے میں الیکشن بھی نہیں جیت سکتا اور اس وزارت کیلئے اس میں قابلیت بھی نہیں... وغيره وغیرہ
شاید 5 سالہ وفاداری کا صلہ دیا ہے۔ لیکن ایسے تو بہت سے لوگ ہیں جو 22 سال سے تحریک انصاف میں ہیں اور ان کو کوئی وزارت نہیں ملی۔ دال میں کچھ کالا ہے۔ یا ساری دال ہی کالی ہے۔
 
حنیف گل صاحب سے بھی عرض ہے کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو اس کا یہ حل نہیں کہ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے دو سال کی چھٹی پر تنخواہ وصول کرتے رہیں۔ اپنے حق کیلئے لڑتے رہیں، ساتھ کام بھی کرتے رہیں
آہم۔۔۔
یہ جو خان صاحب نے پچھلے دور حکومت کے 60 مہینوں میں 5، 7 دن حاضری لگا کر پوری پوری تنخواہیں اور مراعات لی ہیں کیا وہ عوام کے ٹیکسوں سے ادا نا ہوئیں تھیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
یہ جو خان صاحب نے پچھلے دور حکومت کے 60 مہینوں میں 5، 7 دن حاضری لگا کر پوری پوری تنخواہیں اور مراعات لی ہیں کیا وہ عوام کے ٹیکسوں سے ادا نا ہوئیں تھیں ؟
ہوئی تھیں۔ کپتان نے غلطی کی تھی۔ بار بار استعفی دیا، منظور نہ ہوا۔ اور تنخواہیں کھاتے رہے۔
 
Top