محمد شعیب خٹک
معطل
جرات دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری کا مخصوص رنگ معاملہ بندی ہے۔ جو دبستان دہلی کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ روایت ہے کہ شریف زادیوں سے آزادنہ میل ملاپ اور زنان خانوں میں بے جھجک جانے کے لیے خود کواندھا مشہور کردیا۔ بہر حال نابینا ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔
ان کے ہاں محبوب کی جوتصویر ابھرتی ہے وہ جیتی جاگتی اور ایسی چلبلی عورت کی تصویر ہے جوجنسیت کے بوجھ سے جلد جھک جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرات کی غزل کی عورت خود لکھنو ہی کی عورت ہے۔ زبان میں سادگی ہے اس لیے جنس کا بیان واضح اور دو ٹوک قسم کا ہے۔ شاید اسی لیے حسن عسکری انہیں مزے دار شاعر سمجھتے ہیں۔
کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرات کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کم بخت نے کیا مجھ پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
امشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل لوٹ لیا اس نے دکھا دست حنائی
کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا اور ابھرا ہوا سینہ
کیا گھات ہے، کیا گھات ہے، کیا گھات ہے واللہ
جرات کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
ایک دفعہ انشا جرات سے ملنے گئے ، وہ خیال سخن میں مگن تھے۔ انشاء نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع ہو گیا ہے، دوسرے کی فکر میں ہوں۔ انشاّ نے کہا کہ مجھے مصرع سنا۔ جرات نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تو گرہ لگا کر شعر اچک لوگے۔ خیر انشا نے بہت اصرار کیا تو اسے مصرع سنایا
اس زلف پہ پھبتی کہ شب دیجور کی سوجھی
انشاّ نے جھٹ سے گرہ لگایا ۔۔
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
مزے کی بات یہ ہے کہ جرات اندھا تھے
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
ان کے ہاں محبوب کی جوتصویر ابھرتی ہے وہ جیتی جاگتی اور ایسی چلبلی عورت کی تصویر ہے جوجنسیت کے بوجھ سے جلد جھک جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرات کی غزل کی عورت خود لکھنو ہی کی عورت ہے۔ زبان میں سادگی ہے اس لیے جنس کا بیان واضح اور دو ٹوک قسم کا ہے۔ شاید اسی لیے حسن عسکری انہیں مزے دار شاعر سمجھتے ہیں۔
کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرات کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کم بخت نے کیا مجھ پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
(اردولائبریری)
ایک اور غزلامشب کسی کاکل کی حکایات ہیں واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ
دل لوٹ لیا اس نے دکھا دست حنائی
کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے، کیا ہاتھ ہے واللہ
عالم ہے جوانی کا اور ابھرا ہوا سینہ
کیا گھات ہے، کیا گھات ہے، کیا گھات ہے واللہ
جرات کی غزل جس نے سنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ
ایک دفعہ انشا جرات سے ملنے گئے ، وہ خیال سخن میں مگن تھے۔ انشاء نے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع ہو گیا ہے، دوسرے کی فکر میں ہوں۔ انشاّ نے کہا کہ مجھے مصرع سنا۔ جرات نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تو گرہ لگا کر شعر اچک لوگے۔ خیر انشا نے بہت اصرار کیا تو اسے مصرع سنایا
اس زلف پہ پھبتی کہ شب دیجور کی سوجھی
انشاّ نے جھٹ سے گرہ لگایا ۔۔
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
مزے کی بات یہ ہے کہ جرات اندھا تھے
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی