ذوق ایسا بہترین شاعر اور ایک معمولی سپاہی شیخ محمد رمضان کا بیٹا !!
" رتبہ جیسے دنیا میں خدا دیتا ہے " وہ خاک سے اٹھ کر آفاق کی خبرلیتے ہیں ۔ شیخ محمد ابراھیم دہلی میں (ذی الحجہ) 1204ھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدا میں ذوق شوق( حافظ غلام رسول) کے پاس پڑھتے تھے اور ان ہی کی خدمت کی دین ہے کہ ذوق کو شعرو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔
ذوق نے حافظ غلام رسول شوق کو ابتدامیں چند ایک غزلیں دیکھائیں لیکن بعد میں شاہ نصیرکی شاگردی میں چلے گئے لیکن کسی وجہ سے شاہ صاحب کو غزلیں بتانا چھوڑ دیں اور اپنی اصلاح آپ کرنے لگے ۔
ذوق جب اکبر شاہ کے دربارسے وابستہ ہوئے تھے تو اس وقت مرزا ابوظر(بہادر شاہ ظفر) ولی عہد تھے۔ اکبر شاہ کی دیکھا دیکھی بہادر شاہ ظفر بھی اپنی غزلیں ذوق کو بتانے لگے ۔
ذوق نے اکبر شاہ کی شان میں ایک قصیدہ کہہ کر خلعت اور خاقانی ہند کا خطاب پایا ۔ اس کے بعد بہادر شاہ ظفرکی خدمت میں ایک قصیدہ گزارنے کے صلہ میں خان بہادر کا خطاب، ایک ہاتھی معہ حوضہ ( ہاتھی کی عماری ) نقرئی انعام میں پایا اوراستاد کہلانے لگے ۔
جمعرات 24 صفرالمظفر1371ء کو 17 دن بیمار رہ کر ذوق نے انتقال کیا
اور مرنے سے صرف تین گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
ذوق کا ایک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا شعر سنئے اور سوچئے کہ اگر اللہ نہ کرے وہاں بھی چین نہ پایا تو کیا ہوگا ۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کل گئے تھے جیسے تم بیمارہجراں چھوڑکر
چل بسا وہ آج ہستی کا ساماں چھوڑکر
گرچہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدرسخن
کون جائے ذوق پردلی کی گلیاں چھوڑ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکور تیری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
دیتا دل مضطر کو تیری کچھ تو نشانی
پر خط بھی تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا
ہم رونے پر آجائیں تو دریا ہی بہادیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
آتا ہے تو آجا کہ کوئی دم کی ہے فرصت
پھر دیکھئے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا
قسمت سے ہی لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہوں طاق مجھے کیا نہیں آتا
بشکریہ
قیصر سرمست
روزنامہ اعتماد
" رتبہ جیسے دنیا میں خدا دیتا ہے " وہ خاک سے اٹھ کر آفاق کی خبرلیتے ہیں ۔ شیخ محمد ابراھیم دہلی میں (ذی الحجہ) 1204ھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدا میں ذوق شوق( حافظ غلام رسول) کے پاس پڑھتے تھے اور ان ہی کی خدمت کی دین ہے کہ ذوق کو شعرو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔
ذوق نے حافظ غلام رسول شوق کو ابتدامیں چند ایک غزلیں دیکھائیں لیکن بعد میں شاہ نصیرکی شاگردی میں چلے گئے لیکن کسی وجہ سے شاہ صاحب کو غزلیں بتانا چھوڑ دیں اور اپنی اصلاح آپ کرنے لگے ۔
ذوق جب اکبر شاہ کے دربارسے وابستہ ہوئے تھے تو اس وقت مرزا ابوظر(بہادر شاہ ظفر) ولی عہد تھے۔ اکبر شاہ کی دیکھا دیکھی بہادر شاہ ظفر بھی اپنی غزلیں ذوق کو بتانے لگے ۔
ذوق نے اکبر شاہ کی شان میں ایک قصیدہ کہہ کر خلعت اور خاقانی ہند کا خطاب پایا ۔ اس کے بعد بہادر شاہ ظفرکی خدمت میں ایک قصیدہ گزارنے کے صلہ میں خان بہادر کا خطاب، ایک ہاتھی معہ حوضہ ( ہاتھی کی عماری ) نقرئی انعام میں پایا اوراستاد کہلانے لگے ۔
جمعرات 24 صفرالمظفر1371ء کو 17 دن بیمار رہ کر ذوق نے انتقال کیا
اور مرنے سے صرف تین گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
ذوق کا ایک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا شعر سنئے اور سوچئے کہ اگر اللہ نہ کرے وہاں بھی چین نہ پایا تو کیا ہوگا ۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کل گئے تھے جیسے تم بیمارہجراں چھوڑکر
چل بسا وہ آج ہستی کا ساماں چھوڑکر
گرچہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدرسخن
کون جائے ذوق پردلی کی گلیاں چھوڑ کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکور تیری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
دیتا دل مضطر کو تیری کچھ تو نشانی
پر خط بھی تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا
ہم رونے پر آجائیں تو دریا ہی بہادیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
آتا ہے تو آجا کہ کوئی دم کی ہے فرصت
پھر دیکھئے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا
قسمت سے ہی لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہوں طاق مجھے کیا نہیں آتا
بشکریہ
قیصر سرمست
روزنامہ اعتماد