شیریں نہ دہن ہو تو محبت کی دوا دو

ابن رضا

لائبریرین


شیریں نہ دَہَن ہو تو محبت کی دوا دو
تاثیر اگر کم ہو تو مقدار بڑھا دو

تازہ کرو شعلہء خودی پھر سے لہو میں
اس قوم کی سوئی ہوئی تقدیر جگا دو

شرمندۂ تعبیرہو پھر خوابِ اخوت
اُجڑے ہوئے گلشن میں نئے پھول کھلا دو

ہے صحت و تعلیم کا حق سب کا برابر
پھر حاکم و محکوم کے سب فرق مٹا دو

مظلوم کی فریاد پہ خاموش رہے جو
اُس ظلم کے ایوان کو تم آگ لگادو

اِس پیٹ کا دوزخ نہ بھرا ہے، نہ بھرے گا
مل بانٹ کے کھانے کا سبق سب کو سکھا دو

چھوڑو نہ کبھی ہاتھ سے تم دامنِ محنت
تعمیرِ وطن میں رضا دن رات لگا دو

 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
واہ بهائی مگر اتنا درس دینے کے بعد تعمیر وطن پر لگا دیا - خوب کہی صاحب !
توجہ فرمائی پر ممنون ہوں۔ احقر کا سارا درس تعمیرِ وطن پر ہی مرکوز ہے۔ناچیر آپ کا سوال سمجھنے سے قاصرہے۔بہتر ہو کہ مفصل اور بامثال توجہ دلائیں تاکہ کجی دور کی جاسکے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہے صحّت و تعلیم کا حق ایک برابر۔۔۔ہ۔ اور ۔ح ۔کو ذرا دور رہنا اچھا ہے۔ان کے مخارج۔ ے ۔کے گرنے سے ذرا لڑ رہے ہیں ۔
محکوم سے ، حاکم کےسبھی فرق مٹا دو ۔۔۔۔اسی طرح دو نوں ۔س۔ بھی پر امن ہو سکتے ہیں ۔
شعلہء کو آپ نے شعلائے ۔ باندھا ہے ۔ اسے کچھ احباب پسند نہیں کرتے ۔ مجھے البتہ ٹھیک ہی لگتا ہے اور کوئی خاص عیب محسوس نہیں ہوتا۔
شرمندۂ تعبیر کرو خوابِ اخوت۔یہاں کرنا کی بجائے ہونا محاورے کے اعتبار سے زیادہ مناسب لگتا (ذاتی خیال )۔ جیسے۔۔۔ شرمندۂ تعبیر ہو پھر خوابِ اخوت۔ وغیرہ
با قی عمومی لب و لہجہ ماشاءاللہ بہت شستہ و شائستہ لگا ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
 

الف عین

لائبریرین
عاطف کے مشورے صائب ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور
شیریں نہ دَہَن ہو تو محبت کی دوا دو
تاثیر اگر کم ہو تو مقدار بڑھا دو
۔۔’نہ‘ سے کیا مطلب اولیٰ مصرع میں؟ یوں ہو تو
گر شیریں دہن ہو

شعلائے کو میں درست نہیں سمجھتا

تعلیم کا ، صحت کا ہے حق ایک برابر
محکوم کے، حاکم سےسبھی فرق مٹا دو
۔۔پہلا مصرع مفہوم سے خارج ہے ، یوں کہا جا سکتا ہے
تعلیم کا ، صحت کا ہے حق سب کا برابر

مظلوم کی فریاد پہ خاموش رہے جو
اُس ظلم کے ایوان میں اِک حشر اُٹھا دو
۔۔مفہوم کے اعتبار سے عجیب سا ہے۔ جب ایوان ہی خاموش ہے تو کس سے کہا جا رہا ہے کہ حشر بپا کر دو!!
 

ابن رضا

لائبریرین
ہے صحّت و تعلیم کا حق ایک برابر۔۔۔ہ۔ اور ۔ح ۔کو ذرا دور رہنا اچھا ہے۔ان کے مخارج۔ ے ۔کے گرنے سے ذرا لڑ رہے ہیں ۔
متفق
تدوین: ہے صحت و تعلیم کا حق سب کا برابر
محکوم سے ، حاکم کےسبھی فرق مٹا دو ۔۔۔۔اسی طرح دو نوں ۔س۔ بھی پر امن ہو سکتے ہیں ۔
عیبِ تنافر موجود ہے۔ جو صوتی ثقالت کا باعث بن رہا ہے۔
تدوین : پھر حاکم و محکوم کے سب فرق مٹا دو
شعلہء کو آپ نے شعلائے ۔ باندھا ہے ۔ اسے کچھ احباب پسند نہیں کرتے ۔ مجھے البتہ ٹھیک ہی لگتا ہے اور کوئی خاص عیب محسوس نہیں ہوتا۔
میرے حساب سے یہ شعلہ ء ہے نہ کہ شعلائے
aa_zpsf96eefe4.jpg

شرمندۂ تعبیر کرو خوابِ اخوت۔یہاں کرنا کی بجائے ہونا محاورے کے اعتبار سے زیادہ مناسب لگتا (ذاتی خیال )۔ جیسے۔۔۔ شرمندۂ تعبیر ہو پھر خوابِ اخوت۔ وغیرہ
متفق
تدوین : شرمندۂ تعبیر ہو پھر خوابِ اخوت
با قی عمومی لب و لہجہ ماشاءاللہ بہت شستہ و شائستہ لگا ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
مفصل توجہ اور حوصلہ افزائی کے لیے سراپا سپاس ہوں سلامت رہیے۔ جزاکم اللہ خیرا
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
عاطف کے مشورے صائب ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور
شیریں نہ دَہَن ہو تو محبت کی دوا دو
تاثیر اگر کم ہو تو مقدار بڑھا دو
۔۔’نہ‘ سے کیا مطلب اولیٰ مصرع میں؟ یوں ہو تو
گر شیریں دہن ہو
استادِ محترم مطلع مصرع اولیٰ میں جس خیال کی ادائیگی مقصود تھی شاید بطریق احسن انجام نہیں پا سکی ۔ تاہم میں نثر میں وضاحت کی کوشش کرتا ہوں اگر تبدیلی کی ضرورت ہو تو ضرور آگاہ فرمائیے۔ دہن شیریں نہ ہو تو (پھر اسے) محبت کی دوا (دینی چاہیے) گویا بد گوئی کا مقابلہ شائستہ زبان سے کرنا چاہیے۔
اگر مجوزہ تبدیلی(گر شیریں دہن ہو تو محبت کی دوا دو) کر دی جاتی ہے تو پھر دوا کی حاجت ہی نہیں رہتی ۔

شعلائے کو میں درست نہیں سمجھتا
جی بہتر ۔ متبادل پہ غور کرتا ہوں

تعلیم کا ، صحت کا ہے حق ایک برابر
محکوم کے، حاکم سےسبھی فرق مٹا دو
۔۔پہلا مصرع مفہوم سے خارج ہے ، یوں کہا جا سکتا ہے
تعلیم کا ، صحت کا ہے حق سب کا برابر
صد فی صد متفق
مظلوم کی فریاد پہ خاموش رہے جو
اُس ظلم کے ایوان میں اِک حشر اُٹھا دو
۔۔مفہوم کے اعتبار سے عجیب سا ہے۔ جب ایوان ہی خاموش ہے تو کس سے کہا جا رہا ہے کہ حشر بپا کر دو!!
جی عمدہ نکتہ آفرینی ہے
تدوین: اُس ظلم کے ایوان کو تم آگ لگا دو

تنقید و اصلاح پر سراپا سپاس ہوں۔ سلامت رہیے۔جزاکم اللہ خیرا
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ کےسوفٹ ویئر کی الیکٹرانک تقطیع نے بھی شعلہء کو شعلائے ہی انٹرپریٹ کیا ہے اور صحیح کیا ہے۔ یعنی : ==-:
مزید یہ کہ میں سمجھ نہیں سکا بات کیونکہ اگر ===کرتا یعنی آخری ہجہ کوتاہ کی بجائے بلند ہوتا تو اسے درست نہیں گردانہ جاتا پر یہاں تو ایسا نہیں؟؟؟ بحر کے مطابق میں نے آخری ہجے کو کوتاہ ہی باندھا ہے
 
شعلہ = فعلن = 22
شعلۂ = فاعلن = 212 ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ فاعِلُ = 112
جبکہ آپ نے اسے مفعول(122) باندھا ہے جو کہ "شعلائے" کا وزن ہوتا ہے اور "شعلۂ" کو "شعلائے" باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مزید یہ کہ میں سمجھ نہیں سکا بات کیونکہ اگر ===کرتا یعنی آخری ہجہ کوتاہ کی بجائے بلند ہوتا تو اسے درست نہیں گردانہ جاتا پر یہاں تو ایسا نہیں؟؟؟ بحر کے مطابق میں نے آخری ہجے کو کوتاہ ہی باندھا ہے
میرا مطلب ہے کہ اگر یہ" شعلہء ِ "ہوتا تو فاعلن(=-=) کے وزن پر ہوتا۔یہاں " شعلائے "در اصل " مفعول" (یہاں فاعیل ) کے مطابق آرہا ہے۔مجھے اس لیے ایسا لگ رہا ہے۔
ہاہا میرا نہ کہیں. سید ذیشان بھائی برا مان جائیں گے :p
ہمارے ذیشا ن بھائی تو ناراض ہونے والے نہیں بہت بڑے دل والے ہیں۔اور سلجھے ہوے بھی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
شعلہ = فعلن = 22
شعلۂ = فاعلن = 212 ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ فاعِلُ = 112
جبکہ آپ نے اسے مفعول(122) باندھا ہے جو کہ "شعلائے" کا وزن ہوتا ہے اور "شعلۂ" کو "شعلائے" باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔
بجا فرمایا
جزاکم اللہ خیرا ۔ سلامت رہیے
 
شعلہ = فعلن = 22
شعلۂ = فاعلن = 212 ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ فاعِلُ = 112
جبکہ آپ نے اسے مفعول(122) باندھا ہے جو کہ "شعلائے" کا وزن ہوتا ہے اور "شعلۂ" کو "شعلائے" باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔
بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔
بجا فرمایا
جزاکم اللہ خیرا ۔ سلامت رہیے
لیجیے ، حوالہ بھی مل گیا۔ :)
نعرۂ مسانہ بھی کیجے بلند
اور بصیرت کی نظر بھی چاہیے
 
Top