شیر اور گدھ

شیر اور گدھ۔۔

مشاعرہ کا نام سُنتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں، شوق تھا اور وہ بھی جنون کی حد تک۔ کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ دل میں قومی زبان کی محبت جاگی تھی اور تب سے ہی سیکھنے کا عمل جاری تھا، اساتذہ کی تلاش میں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی۔ اسی دشت نوردی کے دوران پروفیسر ڈاکٹر جناب خاکوانی سے ملاقات ہوئی، اُنہی کے طفیل ادبی حلقوں میں متعارف ہوا تھا میں ورنہ شائد اب بھی کہیں بھٹک رہا ہوتا۔
ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے پر میں ہڑبڑا کر اُٹھا تھا اور پھر خاکوانی صاحب کا نام ڈسپلے پر دیکھتے ہی جگائے جانے کی کُلفت کافور ہو گئی اور اُس کی جگہ ایک خوشگوار سی مسکُراہٹ نے لے لی۔ آداب و تسلیمات کے بعد حسب توقع مشاعرہ میں جانے کا مژدہ سُنا اور مشاعرہ کی بھی تنقیدی نشست تھی، یعنی اپنے لکھے ٹوٹے پھوٹے کلام پر اساتذہ کے تبصرہ سُننے کا موقع اور وہ بھی وہاں آئے معروف شعرا سے۔ اس سے بہتر سیکھنے کا موقع بھلا کہاں مل سکتا تھا، اللہ دے اور بندہ لے، یہ نعرہ لگایا اور چھلانگ لگا کر بستر سے باتھ روم میں جا گھُسا
عادت بُری تھی بیٹھے بیٹھے تصورات میں گُم ہو جانے کی لیکن کیا کیا جائے کہ عادت تھی۔ اکثر ایسا ہو جاتا تھا کہ میں بیٹھے بیٹھے جانے خواب و خیال کی کن وادیوں میں نکل جایا کرتا۔ خاکوانی صاحب کے انتظار میں یہی ہوا ۔ خاکوانی صاحب خود شاعر نہیں تھے لیکن ایک ناقد کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ابھی ایک گزشتہ نشست میں ہی وہاں پر موجود کئی اعلیٰ شخصیات نے اُنہیں ایک بہترین ناقد قرار دے کر زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔
واپسی پر میں نے مبارکباد دی تو فرمایا کہ تُم نے شیروانی والے صاحب کو دیکھا، پتہ ہے وہ کون تھے؟ میں نے سوال در سوال کیا کہ وہ جو آپ کی بہت زیادہ تعریف کر رہے تھے؟ کہنے لگے ہاں وہ نئے پاکستانی سفیر ہیں۔ میں نے اور زیادہ مرعوب ہوتے ہوئے ایک بار پھر مبارک سلامت کی صدا بُلند کی۔ کہنے لگے بےکار ہے یہ پزیرائی۔ میں نے حیران سی شکل بنا لی۔ وہ فوراّ ہی بھانپ گئے اور ایک قصہ بیان کیا کہ ایک نائی کو بادشاہ نے اُس کے کام سے خوش ہو کر خلعت عطا کی اور تعریفی سند بھی ۔ وہ گھر آیا تو اداس تھا ، بیوی نے استسفار کیا تو بتایا کہ بادشاہ نے خلعت اور سند عطا کی ہے۔ بیوی بولی کہ تُمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ کہنے لگا اگر یہی تعریف کسی بڑے نائی نے کی ہوتی تو مجھے حقیقت میں خوشی ہوتی۔
ٹرن ٹرن ٹرن ٹرن۔ گھنٹی کی آواز نے مجھے خواب کی دنیا سے باہر لا پھینکا۔ لگ رہا تھا کہ کوئی کافی دیر سے بیل بجا رہا تھا اسی لیے بٹن سے اب ہاتھ اُٹھا نہیں رہا تھا ۔ دروازے پر وہ موجود تھے ذرا سی ناگواری کی جھلک دکھائی دی جو فورا ہی معدوم ہو گئی اور کہا چلو۔
میں اُن کے بائیں جانب سمٹ کر بیٹھ گیا اور گاڑی اُس ہوٹل کی جانب فراٹے بھرنے لگی جہاں مشاعرہ منعقد ہونا تھا۔ خاکوانی صاحب کو وہاں صدارت کے فرائض انجام دینا تھے۔ حسب معمول سامعین اور منتظمین ندارد۔ خاکوانی صاحب نے وقت کی پابندی پر ایک سیر حاصل لیکچر بدمزہ ٹنکچر کی طرح مجھے پلا دیا کہ وہاں اور کوئی میسر تھا ہی نہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا ، سُنا۔ پھر ہم دونوں باقی لوگوں کا انتظار کرنے لگے۔
۔
شیر کا بچہ اپنے پہلے شکار کی ضیافت اُڑا کر درخت کے نیچے جا لیٹا۔ بچے کچھے شکار کے ارد گرد گدھ جمع ہونا شروع ہو گئے، شیر کو اُن کی قطعاٰ فکر نہ تھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتا قیلولہ کرتا رہا۔
،، میں نے اس شیر کے بڑے بھائی کا کیا شکار کئی مرتبہ کھایا ہے، کیا بات ہے اُس کے شکار کی۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی ماہر سرجن نے کاٹ چھانٹ کی ہو۔ بچا ہوا گوشت ہمیشہ بہت اچھی حالت میں کھانے کو ملتا ہے ۔ اب اس گوشت کو دیکھو،،۔ ایک بوڑھا گدھ اپنے اردگرد نوجوان گدھوں کو بتا رہا تھا ،، ایسا لگتا ہے کہ کسی اناڑی نے شکار کیا ہے، یہ شکار بھلا ہمارے کھانے لائق ہے؟ ،، ایک بڑا نوالہ نوچتے ہوئے گدھ نے کہا تھا۔
،، مجھے تو بہت مزہ آ رہا ہے،، ایک کم عمر گدھ بولا۔ بوڑھے گدھ نے اُسے ڈانٹتے ہوے چپ رہنے کو کہا۔،، اب یہی دیکھو کہ کسی ایک جگہ سے کوشت نہیں کھایا ، جگہ جگہ سے گوشت خراب کیا ہوا ہے۔ جبکہ اس کا بھائی کسی ایک طرف سے کھا کر باقی ہمارے لئے چھوڑ دیتا ہے،،
شیر یہ ساری باتیں نیم غنودگی کے عالم میں سُن رہا تھا، اور حیران بھی ہو رہا تھا۔
ایک دوسرے بوڑھے گدھ نے پہلے والے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیر بھی شروع شروع میں ایسا ہی کیا کرتا تھا جب اُس کے دانت اتنے تیز نہیں تھے۔ پہلے گدھ نے اُسے ٹھونگا دے مارا جس پر بات بڑھ گئی۔ اور اتنی بڑھی کہ اُنہیں ثالثی کے لئے قریبی درخت پر بیٹھے الو کے پاس لے آئی۔
الو نے اپنی روایتی ذہانت اور فطانت کا مظاہرہ کیا اور کسی ماہر جھگڑا رفع کرانے والے کی طرح پوچھا کہ پہلے مجھے وجہہ اختلاف کی تفصیل بتاؤ۔ دونوں نے بتایا کہ اُنہیں کس طرح کا شکار پسند تھا اور وجہ تنازعہ شکار جو اب فقط پنجر کی حالت میں سامنے پڑا تھا، جب اُنہیں کھانے کو ملا تو وہ کیسا تھا۔
الو کچھ دیر اپنا سر پنجوں سے کھجاتا ہوا سوچتا رہا اور پھر چونچ ہلاتے ہوئے یوں گویا ہوا۔ ،، ایک تو تُم لوگ اوروں کا کیا شکار کھاتے ہو اُس پر باتیں بھی کرتے ہو۔ بے شک کہ شکار کے کچھ ضابطے ہیں جیسا کہ کیا شکار بھوک کے وقت کیا گیا یا بلا وجہ؟ کیا شکاری نے شکار کو زمین پر نرمی سے گرا لیا؟ اور یہ کہ وہ اُسے کتنی سرعت سے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا؟ مگر قطع نظر ان ضوابط کے یہ شکاری کی صابدید ہے کہ وہ اپنے شکار کے بخیے کیسے اُدھیڑتا ہے۔ تمہیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ بخیے پُرانے طریقے سے اُدھیڑے ہیں یا نیا کوئی طریقہ اختیار کیا ہے اور کون سا شکاری کیسے اپنے شکار کا استعمال کرتا ہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے اس شیر کا تو یہ بھی ایک نہ ایک دن بہتر شکار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا
دونوں گدھ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے وہاں سے ہٹے شکار کے پاس آئے اور ہڈیوں سے بچا کچھا گوشت اُدھیڑنے لگے۔ کچھ توقف کے بعد ایک بولا کہ یہ الو بھی بالکُل الو کا پٹھا ہی ہے ۔ آخر ہمیں شیروں کو شکار کرتا دیکھتے ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب ہم اُن کے درجات کا تعین اُن کی شکاری لیاقت کے مطابق کر سکتے ہیں۔
شیر کا بچہ اس سے زیادہ برداشت نہ کر سکا اور ایک جانب یہ سوچتا ہوا چل پڑا کہ اگلا شکار وہ اس سے کم وقت میں اور بہت بہتر انداز میں کرے گا
کوئی چیز اتنے زور سے میری پسلیوں میں دھنس رہی تھی کہ میں ہڑبڑا کر اُٹھا تھا، وہ خاکوانی صاحب کی کہنی تھی۔ ،، اب اُٹھ بھی جاؤ، کتنی بُری بات ہے کے سوئے چلے جا رہے ہو، سب سے جونیر تمہیں ہو یہاں اور تمہیں ہی سب سے پہلے دعوت دی جائے گی کلام سُنانے کی۔ لائے ہو نا؟
؛؛جی ہاں؛؛ میں نے جواب دیا ہی تھا کہ اسٹیج سیکرٹری نے میرا نام پُکارا۔ میں کانپتے بدن کے ساتھ ڈائس تک گیا اور پھر غزل ایسے پڑھنا شروع کی کہ بس ختم ہو اور بھاگ جاؤں۔ مطلع پر ہی سامنے بیٹھے خاکوانی صاحب نے ناگواری سے سر نفی میں ہلایا اور فرمایا، یہ کیا ہے، غزل تو اب کہاں کی کہاں پہنچ چُکی ہے۔ خیالات میں جدت اور تنوع ہونا چاہئے۔
درست ہے، ساتھ بیٹھی ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت نے کہا جو ایمبیسی سے تشریف لائے تھے اور شاعری کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے۔ پُرانے زمانے کے خیالات ہیں
آگے پڑھو، خاکوانی صاحب بولے
ایک نحیف و نزار سے شاعر گویا ہوئے،؛؛ جناب خاکوانی صاحب مطلع تو اچھا ہوا ہے، خیالات پُرانے بھی ہوں مگر وزن میں ہے اور پہلی کاوش اتنی بُری بھی نہیں۔
خاکوانی صاحب نے اُنہیں گھور کر دیکھا اور وہ اپنی کُرسی پر مزید سمٹ کر بیٹھ گئے۔ میں نے فر فر غزل نمٹا دی، جان چھٹی سو لاکھوں پائے۔ پھر تو تنقید کے نام پر جو میری دُرگت بنی ہے، مانو زمین پھٹتی اور میں گڑ جاتا تو بہتر تھا۔ مقطع کو لے کر ایک دو موجود شعرا نے واہ واہ کی کوشش بھی کی تھی مگر ایمبیسی والے صاحب کی دھاڑ میں ظاہر ہے کہ اُنہیں دبنا ہی تھا اور وہ دب بھی گئے۔
دیگر شعرا بھی آتے رہے اور حسب مراتب خاکوانی صاحب اور مہمان خصوصی کی جھاڑ یا تعریف سُن کر جاتے رہے
پھر وہ وقت بھی آیا جب اسٹیج سیکرٹری نے خاکوانی صاحب کا نام پکارا اور دعوت خطاب دتے ہوئے اُن کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان الطویل ہو گیا، نہ جانے کون کون سے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔
خاکوانی صاحب تشریف لائے اور آتے ہی مجھ سمیت دیگر سامعین کے سر پر گویا بم دے مارا
؛؛علامہ اقبال کی قدرومنزلت جو شاعری کی بدولت ہے ، اُن کا اصل مقام اس سے کہیں کم تر ہے۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں کی تصویر بنا میں اُنہیں دیکھنے لگا۔ فرمانے لگے کہ وہ اور کچھ دوسرے ناقدین اس پر کام کر رہے ہیں کہ شعرا کے مقام اور مرتبے کا از سر نو تعین کیا جائے اور یہ کام کلاسیکی دور سے شروع ہوجانا چاہئے تھا؛؛۔ مجھ سمیت تمام شعرا پہلو پر پہلو بدل رہے تھے۔ ایک صاحب رہ نہ سکے اور بول پڑے کہ آپ کو کیا حق ہے ایسا کہنے کا، تو فرمایا کہ کلام سُن سُن کر ہم اب اس قابل ہیں کہ شعرا کی درجہ بندی کر سکیں۔ خدا خُدا کر کے خطاب ختم ہوا اور ہم باہر آئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگلی غزل میں کیا کیا ہونا چاہئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اُنہوں نے مجھے ٹہکا دیتے ہوئے دریافت کیا کہ؛؛ منہ لٹکائے ہوئے کیوں بیٹھے ہو، کیا ناراض ہو جو میں نے تُمہاری شاعری پر تنقید کی ہے؟ ارے بھئی ویسے وہ مقطع تو مجھے بھی پسند آیا، اب تو خوش ہو جاؤ ابھی بھی منہ لٹکا ہوا ہے؛؛۔ میں نے مروت کے مارے دانت نکال دئے ، اب اُنہیں کیا کہتا کہ آپ نائی تو نہیں ہیں نا —
 
Top