شیر و شاعری

anwarjamal

محفلین
،،شیر اور شاعری ،،

پیارے بچو ؛ ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک جنگل میں ایک نوجوان شیر اپنے روز مرہ کے معمولات سے تنگ آکر شہر کی طرف چل پڑا تاکہ کوئی نئی سرگرمی تلاش کی جائے ،، اس کے ہمراہ اس کے بچپن کا دوست میاں مٹھو تھا( ایک طوطا جو شہر میں کافی عرصے تک رہنے کے باعث شہر کے تمام راستوں اور دیگر تفصیلات سے واقف تھا )

اب آگے سنو ؛ شہر میں داخل ہوتے ہی انہیں ایک طرف سے ،بہت خوب ،واہ ،واہ ،کیا کہنے ،، کی آوازيں آئيں ،،، شیر نے پوچھا ،،
،،طوطے میاں یہ کیسی آوازيں ہیں ؟

حضور ؛ وہ سامنے انو بھائی پارک میں مشاعرہ ہو رہا ھے ،،، لوگ کھل کر داد دے رہے ہیں ،، یہ سب وہی آوازيں ہیں ،، طوطے نے وضاحت کی ،،،

وہ دونوں کشاں کشاں مشاعرے والی جگہ چاپہنچے ،،،

کافی دیر تک مشاعرے کی کاروائی کا بغور جائزہ لینے کے بعد شیر کو احساس ہوا کہ شاعر کی عزت تو کسی شیر سے بھی زیادہ ھے ،،
اس نے یہی بات طوطے سے کہی ،،

طوطا بولا،،حضور تو آپ بھی شاعر بن جائيں ،آپ کی بھی عزت ہو جائے گی ،،

مگر یار ،،، شیر مایوسی سے بولا ،مجھے تو شاعری کی الف ،ب کا بھی پتہ نہیں ،

توکیا ہوا حضور ؛ طوطے نے ہمت بندھائی ،، ہزاروں شاعر ایسے ہیں جو شاعری کی الف ب تک نہیں جانتے مگر شاعر بنے پھرتے ہیں ،،

اچھا ؛ شیر کی بانچھیں کھل گئيں ،، چلو یہ بتاؤ شعر کیسے کہا جاتا ھے ،،؟

میاں مٹھو بولا،حضور بس جو منہ میں آتا ھے بک دیں ،،، آجکل یہی رحجان دیکھنے میں آرہا ھے ،،

شیر نے سر اٹھا کر دیکھا اسے اپنے سامنے ایک پان سگریٹ کی دکان نظر آئی ،، تبھی اس کے ذہن میں دو جملے پیدا ہوئے اور اس نے جھٹ طوطے کو دے سنائے ،،،

شہر کے پان میں نہیں کھاتا
گوشت کے پارچوں کو کھاتا ہوں

واہ واہ حضور کیا کہنے ،آپ تو فی البدیہہ شاعر ہیں ،،، اب تو آپ آسانی سے فیس بک بھی جوائن کر سکتے ہیں جہاں تقریبا ہر روز ہی کہیں نہ کہیں فی البدیہہ مشاعرہ ہوتا رہتا ھے اور تین چار سو شعر کہہ کر پھینک دینا معمولی بات ھے ،،

میاں مٹھو کی باتیں شیر کے دل کو لگيں ،،اب وہ روز کوئی نہ کوئی غزل لکھ مارتا ،، اس کی ڈھٹائی اتنی بڑھی کہ ہر راہ چلتے کو روک کر اپنے شعر سنانا شروع کردیتا ،،،
گو کہ لوگوں کا دل کرتا تھا کہ واہ واہ کی بجائے ،،دور فٹے منہ ،، کہہ کر اپنا راستہ لیں ،،مگر ایک شیر کے آگے کس کی مجال تھی کہ ،چوں ، بھی کرتا ،،،

اب آگے سنو ،،،
ایک دفعہ کیا ہوا کہ اسے ایک اصلی شاعر ٹکرا گیا ،،، یہ ایک بڑے میاں تھے جن کے پاؤں قبر میں لٹکے ہوئے تھے ،،،لیکن ان کی شاعری میں اب بھی کسی نوجوان حسینہ ، اس کے اشارۂ ابرو ، زلفیں ، لب و رخسار اور شب _ وصل کا ذکر ملتا تھا ،، خير ؛ تھے وہ جینوئن شاعر اور عروض بھی جانتے تھے ،،
انہوں نے شیر کی اول فول شاعری نہایت تحمل سے سنی ،،پھر کچھ دیر سوچا اور ٹھہر ٹھہر کر فرمایا

بیٹے ؛ برا مت ماننا تمہیں اصلاح کی ضرورت ھے ،، کسی اچھے استاد کو پکڑو اور ان سے سیکھو ،، شاعری کرنا کوئی مذاق بات نہیں ،، یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گئے ،،،
ان کے جانے کے بعد شیر نے جو وقتی طور پر کسی سوچ میں پڑ چکا تھا اپنا سر اٹھایا ،، اور کہا ،،

کمینہ ؛ میری اصلاح کرنے چلا تھا ،،،ميں تو قدرتی شاعر ہوں بھلا مجھے اصلاح لینے کی کیا ضرورت ،، سب جلتے ہیں مجھ سے ،،،

شیر اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے مشہور ہوتا چلا گیا ،، یہاں تک کہ لوگ اسے محفلوں میں بھی بلانے لگے ،،

ایک دن وہ آرٹس کونسل میں طوطے کے ساتھ جا دھمکا ،،، اسے کسی نے بتایا تھا کہ یہاں بہت بڑے بڑے شاعر اور فنکار آتے ہیں ،اگر ملک گير سطح پر مشہور ہونا ھے تو یہاں کے بڑے بڑے مگر مچھوں کی چاپلوسی لازمی شرط ھے ،،

اس وقت کانفرنس روم میں حلقہ ارباب ذوق کے زیر اہتمام ایک تنقیدی نشت جاری تھی ،،

شیر کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا ،،کہ یہاں شاعر تو خاموش ھے مگر دوسرے لوگ بڑھ بڑھ کر بول رہے ہیں ،،،

یا حیرت ؛ یہ میں کہاں آگیا ہوں ،،، آج تک تو شاعر کو ہی بولتے سنا تھا ،،دوسرے لوگ تو چپ بیٹھتے ہیں ،،، وہ بڑبڑایا ،، اور باہر نکل گیا ،،،

طوطا جو ساری کاروائ جانتا تھا ،کہنے لگا ، حضور گھبرائيں نہیں ،، یہ تنقیدی نشست ھے ،،،

شیر کو اس میں بھی دلچسپی محسوس ہوئی ، کہنے لگا ،، میں بھی اپنی غزل تنقید کیلیئے پیش کروں گا ،، اور طوطے کے لاکھ سمجھانے پر بھی اپنی ضد پر اڑا رہا ،، کیوں کہ اسے زعم تھا کہ وہ اس صدی کا سب سے بڑا شاعر ھے ،، اور تنقید کرنے والوں کے منہ بند کر سکتا ھے ،،،

تو پیارے بچو ؛ تنقیدی پروگرام میں شیر بڑی تیاری سے آیا اور اپنی زندگی کی سب سے خوبصورت غزل پڑھی ،،

اس کی غزل سن کر کانفرنس روم میں تھوڑی دیر کیلیئے تو خاموشی چھا گئی ،، شیر بہت خوش ہوا ،،،

یہ کیا بکواس ھے ،،، اچانک سکوت ٹوٹا اور ایک شخص نے تنقید شروع کردی ،، یہ غزل ھے یا غزل کے نام پر دھبا ،،

دوسرا شخص ؛ یہ انتہائی گھٹیا کلام ھے اور اس میں وزن کی ہزاروں غلطیاں ہیں ،،

تیسرا شخص ؛ غزل میں ایک لفظ ،،گوشت ،،کی تکرار ھے ،، جبکہ آجکل کی مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے صرف سبزيوں کا ذکر کرنا چاہئيئے ،،،

شیر غصے سے لال پیلا ہوگیا ،، اس کا دل چاہا کہ ہال میں موجود ہر شخص کو کچا چبا جائے ،، لیکن وہ وعدہ کر کے آیا تھا کہ تنقید کے دوران خاموش رھے گا ،،

وہ اپنی کرسی پر پہلو بدلتا رہا ،، چوتھے شخص کی تنقید پر اس کی آنکھوں سے چمک رخصت ہوگئی ، اور مونچھیں نیچے لٹک گئیں ،،،
پانچویں شخص کی تنقید پر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،،،

چھٹے شخص کی تنقید پر اسے احساس ہوا کہ وہ شیر نہیں بلکہ کوئی حقیر چوہا ھے ،،،

اجلاس کی کاروائی ختم ہوتے ہی شیر پنجے جھاڑ کر باہر کی طرف بھاگا ،،

طوطے نے پوچھا ،،حضور ؛ کیسی رہی نشست ؟

شیر دھاڑ کر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے منہ سے محض ممیانے کی آواز آئی ،،

وہ بکری بن چکا تھا ،،

تحریر ؛ انور جمال انور
 

شمشاد

لائبریرین
ماشاء اللہ، بہت ہی اچھی تحریر ہے۔

اگر ایسے ہی شیر بکریاں بنتے رہیں تو گوشت کی قلت خاصی حد تک کم ہو سکتی ہے۔
 
Top