ایک شیر کے بچے کو دنیا دیکھنے کا شوق ہوا ۔ اس نے اپنے باپ سے اجازت چاہی تو شیر نے اسے یہ کہہ کر رخصت کیا ، "میرے پیارے بیٹے ! انسان ایک بہت خطرناک اور چالاک مخلوق ہے ، اس سے بچ کر رہنا ۔"
شیر کے بچے نے سوچا، "ابّا کے خیالات بہت پرانے ہیں ، خیر میں خود دیکھ لوں گا کہ انسان کیا چیز ہے اور کتنا خطرناک ہے ۔" یہ سوچ کر وہ اپنے سفر پر نکل پڑا ۔ وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ اسے ایک لحیم شحیم ہاتھی ملا۔ "کہیں یہ انسان تو نہیں" ، شیر کے بچے نے سوچا ۔ اس نے ہاتھی سے سوال کیا "جناب ! کیا آپ انسان ہیں ؟" ہاتھی نے جواب دیا "نہیں ، انسان تو بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ہم ہاتھی اتنے طاقتور جانور ہیں ، مگر وہ ہم کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور ہم پر سواری کرتے ہیں ۔" شیر کا بچہ آگے بڑھ گیا ۔ چلتے چلتے اسے ایک اونٹ نظر آیا ، "کیسا لمبا تڑنگا اور عجیب و غریب جانور ہے!" شیر کے بچے نے سوچا ، اس نے اونٹ سے پوچھا ،
"کیا آپ انسان ہیں؟"
"ارے بھئی ، یہ انسان کا نام کیوں لے رہے ہو؟" اونٹ نے گھبرا کر کہا ، "اگر کسی انسان نے مجھے دیکھ لیا تو میری ناک میں نکیل ڈال کر مجھ پر بھاری سامان لاد دے گا ۔"
اوہ ! یہ ڈرپوک جانور ! شیر کے بچے نے سوچا اور ناک چڑھاتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ کچھ دور اسے ایک بیل ملا جو اطمینان سے گھاس چر رہا تھا ۔ اس نے بیل سے اپنا سوال دہرایا ۔ "جناب کیا آپ انسان ہیں؟"
انسان کا نام سنتے ہی بیل پھرکی کی طرح گھوم گیا ۔ "کہاں ہے انسان؟ کہاں ؟ کہاں؟" اس نے گھبراہٹ سے پوچھا ۔ "وہ تو مجھے بھی نہیں معلوم" شیر کے بچے نے جواب دیا ۔
"تو پھر تم نے انسان کا نام کیوں لیا؟" بیل غصّے سے بولا۔ "تمہیں معلوم ہے کہ اگر میں انسان کے ہاتھ لگ گیا تو میرا کیا حشر ہو گیا؟" وہ مجھ سے سارا دن دُھوپ میں ہل چلوائے گا اور جب میں مر جاؤں گا تو میری کھال سے اپنی جوتیاں بنوائے گا۔" غصّے اور پریشانی سے بیل کا سانس پُھول رہا تھا ۔
"بیوقوف جانور معلوم ہوتا ہے۔" شیر کے بچے نے سوچا اور آگے بڑھ گیا ۔