حسان خان
لائبریرین
پاکستان میں شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار شیعہ برادری نے انتخابی عمل میں سرگرمی سے حصہ لے کر ان سیاسی قوتوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے جو فرقہ واریت اور شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔
وہ کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن یا کراچی کے عباس ٹاؤن کے دھماکے ہوں یا پھر کراچی میں ہی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ پاکستان میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر شیعوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
شیعوں کی جانب سے ان واقعات کے خلاف پرامن احتجاج بھی کیا ہے اور شیعہ رہنما پاکستان میں ایسی کارروائیوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام کچھ سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی شعبے کے سربراہ ناصر شیرازی سے جب دریافت کیا گیا کہ کیا وہ کسی سیاسی جماعت کو ان واقعات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’جب سو ڈیڑھ سو انسانوں کے اعلانیہ قاتل اور مذہبی رہنماؤں کے اعلانیہ قاتل ملک بھر میں آزاد گھومتے پھرتے رہتے ہیں تو آپ کسی ایک صوبے کی حکومت یا سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ملک اسحاق کو نمونے کے طور پر لیں تو اگر پنجاب میں نواز لیگ پر الزام دیں کہ ان کی وجہ سے ملک اسحاق کو سیاسی راہ ملی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی حکومت اس پر ایکشن نہیں لے سکتی تھی۔ ان سب باتوں کے مدنظر شیعہ برادری میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں بعض نے اعلانیہ اور بعض نے غیر اعلانیہ شدت پسندی کی حمایت کی ہے‘۔
حال ہی میں جھنگ سے کالعدم سپاہِ صحابہ کے بڑے مخالف سیاسی رہنما شیخ وقاص اکرم کی ن لیگ میں شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اسے ایک سیاسی خود کشی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی شخص جو شدت پسندوں کی حمایت چھوڑ کر ہماری جانب آئے تو اس کے لیے دروازے کھلے ہیں لیکن اگر کوئی ہم میں سے ان قوتوں کے ساتھ مل جائے جیسا کہ شیخ وقاص اکرم نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر کے کیا تو اس کے لیے ہمارے جانب سے تعاون کے دروازے بند ہو جائیں گے جبکہ ہمارے مؤقف میں تبدیلی نہیں ہو گی‘۔
ناصر شیرازی نے کہا کہ ’شیعہ اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھنے والے تکفیری گروہ کی حمایت کرنے والے سیاسی نمائندوں کی پارلیمان تک رسائی کی راہ میں دیوار بنیں گے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں شیعہ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور ان انتخابات میں یہ ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے۔عام طور پر پاکستان میں ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 35 سے 40 فیصد ہے لیکن کوشش کی جائے گی کہ نوے فیصد تک ووٹرز باہر نکلیں تاکہ ان کا ووٹ مؤثر ثابت ہو۔‘
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شیعہ برادری اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثر ڈال سکتی ہے؟
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن اس خیال سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق شیعہ برادری کا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے لہذا وہ الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت سی جماعتوں اور خاص طور پر مسلم لیگ ن سے ناراض ہیں جس کے بارے میں یہ افواہیں ہیں کہ اس کے کالعدم تنظموں سے تعلقات ہیں لیکن اس ناراضگی کے باوجود مختلف حلقوں میں ان کے ووٹ بینک کے بکھرے ہونے سے وہ کوئی خاص انتخابات پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں ڈال سکتے‘۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلم لیگ ن پر کالعدم تنظیموں سے تعلق اور چند مبینہ شدت پسند تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات لگ رہے ہیں تو کیا مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات میں شیعہ ووٹروں کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا؟
اس ضمن میں سینیئر صحافی سعید عاصی کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں کے لیے ہر مکتبۂ فکر کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج تو ہے اور چونکہ رحمان ملک کی جانب سے مسلم لیگ ن پر بار بار یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی اور اس سے شیعہ برادری کی بدگمانی بڑھتی رہی تو یہ ان کا ووٹ حاصل کرنا ن لیگ کے لیے مشکل ہو گا‘۔
تجزیہ نگاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن یہ تو طے ہے کہ حالیہ واقعات نے شیعہ برادری کو یکجا کر دیا ہے لیکن اس یکجہتی کے نتائج اُن کے حق میں کتنا جاتے ہیں یہ توانتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکےگا۔
ربط
وہ کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن یا کراچی کے عباس ٹاؤن کے دھماکے ہوں یا پھر کراچی میں ہی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ پاکستان میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر شیعوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
شیعوں کی جانب سے ان واقعات کے خلاف پرامن احتجاج بھی کیا ہے اور شیعہ رہنما پاکستان میں ایسی کارروائیوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام کچھ سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی شعبے کے سربراہ ناصر شیرازی سے جب دریافت کیا گیا کہ کیا وہ کسی سیاسی جماعت کو ان واقعات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’جب سو ڈیڑھ سو انسانوں کے اعلانیہ قاتل اور مذہبی رہنماؤں کے اعلانیہ قاتل ملک بھر میں آزاد گھومتے پھرتے رہتے ہیں تو آپ کسی ایک صوبے کی حکومت یا سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ملک اسحاق کو نمونے کے طور پر لیں تو اگر پنجاب میں نواز لیگ پر الزام دیں کہ ان کی وجہ سے ملک اسحاق کو سیاسی راہ ملی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی حکومت اس پر ایکشن نہیں لے سکتی تھی۔ ان سب باتوں کے مدنظر شیعہ برادری میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں بعض نے اعلانیہ اور بعض نے غیر اعلانیہ شدت پسندی کی حمایت کی ہے‘۔
حال ہی میں جھنگ سے کالعدم سپاہِ صحابہ کے بڑے مخالف سیاسی رہنما شیخ وقاص اکرم کی ن لیگ میں شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اسے ایک سیاسی خود کشی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی شخص جو شدت پسندوں کی حمایت چھوڑ کر ہماری جانب آئے تو اس کے لیے دروازے کھلے ہیں لیکن اگر کوئی ہم میں سے ان قوتوں کے ساتھ مل جائے جیسا کہ شیخ وقاص اکرم نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر کے کیا تو اس کے لیے ہمارے جانب سے تعاون کے دروازے بند ہو جائیں گے جبکہ ہمارے مؤقف میں تبدیلی نہیں ہو گی‘۔
ناصر شیرازی نے کہا کہ ’شیعہ اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھنے والے تکفیری گروہ کی حمایت کرنے والے سیاسی نمائندوں کی پارلیمان تک رسائی کی راہ میں دیوار بنیں گے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں شیعہ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور ان انتخابات میں یہ ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے۔عام طور پر پاکستان میں ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 35 سے 40 فیصد ہے لیکن کوشش کی جائے گی کہ نوے فیصد تک ووٹرز باہر نکلیں تاکہ ان کا ووٹ مؤثر ثابت ہو۔‘
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شیعہ برادری اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثر ڈال سکتی ہے؟
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن اس خیال سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق شیعہ برادری کا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے لہذا وہ الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت سی جماعتوں اور خاص طور پر مسلم لیگ ن سے ناراض ہیں جس کے بارے میں یہ افواہیں ہیں کہ اس کے کالعدم تنظموں سے تعلقات ہیں لیکن اس ناراضگی کے باوجود مختلف حلقوں میں ان کے ووٹ بینک کے بکھرے ہونے سے وہ کوئی خاص انتخابات پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں ڈال سکتے‘۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلم لیگ ن پر کالعدم تنظیموں سے تعلق اور چند مبینہ شدت پسند تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات لگ رہے ہیں تو کیا مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات میں شیعہ ووٹروں کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا؟
اس ضمن میں سینیئر صحافی سعید عاصی کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں کے لیے ہر مکتبۂ فکر کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج تو ہے اور چونکہ رحمان ملک کی جانب سے مسلم لیگ ن پر بار بار یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی اور اس سے شیعہ برادری کی بدگمانی بڑھتی رہی تو یہ ان کا ووٹ حاصل کرنا ن لیگ کے لیے مشکل ہو گا‘۔
تجزیہ نگاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن یہ تو طے ہے کہ حالیہ واقعات نے شیعہ برادری کو یکجا کر دیا ہے لیکن اس یکجہتی کے نتائج اُن کے حق میں کتنا جاتے ہیں یہ توانتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکےگا۔
ربط