شیعہ ووٹ نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟ (بی بی سی اردو)

حسان خان

لائبریرین
پاکستان میں شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار شیعہ برادری نے انتخابی عمل میں سرگرمی سے حصہ لے کر ان سیاسی قوتوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے جو فرقہ واریت اور شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔
وہ کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن یا کراچی کے عباس ٹاؤن کے دھماکے ہوں یا پھر کراچی میں ہی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ پاکستان میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر شیعوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
شیعوں کی جانب سے ان واقعات کے خلاف پرامن احتجاج بھی کیا ہے اور شیعہ رہنما پاکستان میں ایسی کارروائیوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام کچھ سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی شعبے کے سربراہ ناصر شیرازی سے جب دریافت کیا گیا کہ کیا وہ کسی سیاسی جماعت کو ان واقعات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’جب سو ڈیڑھ سو انسانوں کے اعلانیہ قاتل اور مذہبی رہنماؤں کے اعلانیہ قاتل ملک بھر میں آزاد گھومتے پھرتے رہتے ہیں تو آپ کسی ایک صوبے کی حکومت یا سیاسی جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ملک اسحاق کو نمونے کے طور پر لیں تو اگر پنجاب میں نواز لیگ پر الزام دیں کہ ان کی وجہ سے ملک اسحاق کو سیاسی راہ ملی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی حکومت اس پر ایکشن نہیں لے سکتی تھی۔ ان سب باتوں کے مدنظر شیعہ برادری میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں بعض نے اعلانیہ اور بعض نے غیر اعلانیہ شدت پسندی کی حمایت کی ہے‘۔
حال ہی میں جھنگ سے کالعدم سپاہِ صحابہ کے بڑے مخالف سیاسی رہنما شیخ وقاص اکرم کی ن لیگ میں شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اسے ایک سیاسی خود کشی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا کوئی شخص جو شدت پسندوں کی حمایت چھوڑ کر ہماری جانب آئے تو اس کے لیے دروازے کھلے ہیں لیکن اگر کوئی ہم میں سے ان قوتوں کے ساتھ مل جائے جیسا کہ شیخ وقاص اکرم نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر کے کیا تو اس کے لیے ہمارے جانب سے تعاون کے دروازے بند ہو جائیں گے جبکہ ہمارے مؤقف میں تبدیلی نہیں ہو گی‘۔
ناصر شیرازی نے کہا کہ ’شیعہ اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھنے والے تکفیری گروہ کی حمایت کرنے والے سیاسی نمائندوں کی پارلیمان تک رسائی کی راہ میں دیوار بنیں گے‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان میں شیعہ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور ان انتخابات میں یہ ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے۔عام طور پر پاکستان میں ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح 35 سے 40 فیصد ہے لیکن کوشش کی جائے گی کہ نوے فیصد تک ووٹرز باہر نکلیں تاکہ ان کا ووٹ مؤثر ثابت ہو۔‘
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شیعہ برادری اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثر ڈال سکتی ہے؟
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن اس خیال سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق شیعہ برادری کا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے لہذا وہ الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت سی جماعتوں اور خاص طور پر مسلم لیگ ن سے ناراض ہیں جس کے بارے میں یہ افواہیں ہیں کہ اس کے کالعدم تنظموں سے تعلقات ہیں لیکن اس ناراضگی کے باوجود مختلف حلقوں میں ان کے ووٹ بینک کے بکھرے ہونے سے وہ کوئی خاص انتخابات پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں ڈال سکتے‘۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلم لیگ ن پر کالعدم تنظیموں سے تعلق اور چند مبینہ شدت پسند تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات لگ رہے ہیں تو کیا مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات میں شیعہ ووٹروں کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج ہوگا؟
اس ضمن میں سینیئر صحافی سعید عاصی کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں کے لیے ہر مکتبۂ فکر کا ووٹ حاصل کرنا ایک چیلنج تو ہے اور چونکہ رحمان ملک کی جانب سے مسلم لیگ ن پر بار بار یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی اور اس سے شیعہ برادری کی بدگمانی بڑھتی رہی تو یہ ان کا ووٹ حاصل کرنا ن لیگ کے لیے مشکل ہو گا‘۔
تجزیہ نگاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن یہ تو طے ہے کہ حالیہ واقعات نے شیعہ برادری کو یکجا کر دیا ہے لیکن اس یکجہتی کے نتائج اُن کے حق میں کتنا جاتے ہیں یہ توانتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکےگا۔

ربط
 

عسکری

معطل
اچھی بات ہے ہر اس بندے کو جو دہشت گردی کی سپورٹ کرتا ہے جینے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے اسمبلی تو دور کی بات ہے
 

حسینی

محفلین
مجھے امید ہے انشاء اللہ اس دفعہ کوئی تکفیری اور دہشت گردوں کا مددگار اسمبلی میں نہیں پہنچے گا۔
اس حوالے سے تمام محب وطن پاکستانیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔
دو شیعہ پارٹیوں مجلس وحدت مسلمین اور تحریک جعفریہ نے اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان بھی حاصل کرلیے ہیں
اور ان دو پارٹیوں کا سیاسی اتحاد بھی عمل میں آنے کا قوی امکان ہے۔
 

ساجد

محفلین
میں اس بات پر ہمیشہ مطمئن رہا کرتا تھا کہ ایران ، خلیجی اور عرب ممالک کی طرح پاکستانی سیاست اور حکومت میں مذہبی فرقہ بندی کا وجود نہیں ہے لیکن اب لگنے لگا ہے کہ پاکستان بھی اس الیکشن کے بعد اس لعنت کا شکار ہو جائے گا اور فرقوں کے نام پہ سیاست اور حکومت کی جائے گی۔
ہم اب اس طرف بڑھنے لگے ہیں جہاں ایک عام آدمی ریاست میں مذہب کے مقام کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے لگے گا۔ اور یہ مذہب کا قصور نہیں بلکہ فرقہ بازی کا شاخسانہ ہو گا۔
 

یوسف-2

محفلین
مجھے امید ہے انشاء اللہ اس دفعہ کوئی تکفیری اور دہشت گردوں کا مددگار اسمبلی میں نہیں پہنچے گا۔
اس حوالے سے تمام محب وطن پاکستانیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔
دو شیعہ پارٹیوں مجلس وحدت مسلمین اور تحریک جعفریہ نے اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان بھی حاصل کرلیے ہیں
اور ان دو پارٹیوں کا سیاسی اتحاد بھی عمل میں آنے کا قوی امکان ہے۔
یہ تو ایک اچھی خبر ہے۔ اگر شیعہ برادری کو واقعتاً برسر اقتدار جماعتوں (پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، نون قاف اور ایم کیو ایم، اے این پی) سے یہ شکایت ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ملک بھر میں شیعہ برادری کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا گیا تو انہیں ان جماعتوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ اگلے الیکشن میں ان کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے۔ اور شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو ان جماعتوں کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ اور جو شیعہ ایسا کرے اسے شیعہ برادری کا غدار قرار دے کر اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔
لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتباہ کے باوجود کے ایک مومن ایک سوراخ سے کبھی دوبارہ نہیں ڈسا جاتا، شیعہ برادری ایک بار پھر حسب سابق پیپلز پارٹی، نون و قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے نہ صرف یہ کہ اپنے افراد کو الیکشن میں کھڑا کرے گی بلکہ انہیں جماعتوں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب بھی کرائے گی۔ اللہ کرے کہ میرا یہ خیال غلط ثابت ہوجائے۔:)
 

متلاشی

محفلین
مجھے امید ہے انشاء اللہ اس دفعہ کوئی تکفیری اور دہشت گردوں کا مددگار اسمبلی میں نہیں پہنچے گا۔
اس حوالے سے تمام محب وطن پاکستانیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔
دو شیعہ پارٹیوں مجلس وحدت مسلمین اور تحریک جعفریہ نے اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان بھی حاصل کرلیے ہیں
اور ان دو پارٹیوں کا سیاسی اتحاد بھی عمل میں آنے کا قوی امکان ہے۔
ہاہ ہاہ۔۔۔۔۔! یہی تو دو سب سے بڑی تکفیری اور دہشت گرد جماعتیں ہیں۔۔۔۔!
 

ساجد

محفلین
یہ تو ایک اچھی خبر ہے۔ اگر شیعہ برادری کو واقعتاً برسر اقتدار جماعتوں (پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، نون قاف اور ایم کیو ایم، اے این پی) سے یہ شکایت ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ملک بھر میں شیعہ برادری کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا گیا تو انہیں ان جماعتوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ اگلے الیکشن میں ان کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے۔ اور شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کو ان جماعتوں کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ اور جو شیعہ ایسا کرے اسے شیعہ برادری کا غدار قرار دے کر اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔
لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتباہ کے باوجود کے ایک مومن ایک سوراخ سے کبھی دوبارہ نہیں ڈسا جاتا، شیعہ برادری ایک بار پھر حسب سابق پیپلز پارٹی، نون و قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے نہ صرف یہ کہ اپنے افراد کو الیکشن میں کھڑا کرے گی بلکہ انہیں جماعتوں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب بھی کرائے گی۔ اللہ کرے کہ میرا یہ خیال غلط ثابت ہوجائے۔:)
یوسف بھائی ، آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ یہ فرقہ بند جماعتیں کیا بے وقوف ہیں جو آپ کی بات مان کر اپنی اپنی "طاقت" سے محروم ہو جائیں۔:)
میں یہاں سبھی سے ایک سوال کرتا ہوں کہ تمام کی تمام مذہبی فرقے کی تنظیموں کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے ذخائر سے کسی کو انکار ہے تو یہاں آ کر دعوی کرے۔ اور یہ ذخائر مساجد و مدارس میں بھی رکھے جاتے ہیں اگر موجودہ جماعتوں سیاسی جماعتوں میں ان کی سرایت نہ ہو تو یہ ذخائر کبھی بھی جمع ہوتے نہ "محفوظ" رہتے۔ اس لئے اپنے "اثاثوں" کی حفاظت کرنے کے لئے آپ کی تجویز پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔
 
میں اس بات پر ہمیشہ مطمئن رہا کرتا تھا کہ ایران ، خلیجی اور عرب ممالک کی طرح پاکستانی سیاست اور حکومت میں مذہبی فرقہ بندی کا وجود نہیں ہے لیکن اب لگنے لگا ہے کہ پاکستان بھی اس الیکشن کے بعد اس لعنت کا شکار ہو جائے گا اور فرقوں کے نام پہ سیاست اور حکومت کی جائے گی۔
ہم اب اس طرف بڑھنے لگے ہیں جہاں ایک عام آدمی ریاست میں مذہب کے مقام کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے لگے گا۔ اور یہ مذہب کا قصور نہیں بلکہ فرقہ بازی کا شاخسانہ ہو گا۔
ساجد بھائی ویسے اسطرح کی باتیں پہلے بھی سننے میں آتی تھیں ، کچھ سیاسی جماعتیں یا تحاریک پہلے بھی تھیں جو خالصتاً اور علانیہ فرقہ یا مسلک کی بنیاد پر قائم ہوئیں اور باقائدہ انتخابات میں حصہ لیا۔۔ سپاہ صحابہ ، سنی تحریک ، جمعیت اہلحدیث اور تحریک نفازِ فقہ جعفریہ وغیرہ اور کچھ جماعتیں ایسی ہیں جو اعلانیہ کسی فرقہ یا مسلک کی بات نہیں کرتیں لیکن انکی سیاست کا محور یہی چیز ہوتی ہے جیسے جمعیت علما اسلام (ف) ،(س) ، جمعیت علما پاکستان وغیرہ ۔۔ لیکن یہ جماعتیں کبھی قومی سطح پر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپائیں لیکن جو بات باعث تشویش ہے وہ یہ ہے کہ اب مسلکی یا فرقہ کی بنیاد پر سیاست کرنے والے اب ملکی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی پارٹیز پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ ناعاقبت اندیش "رہنما" بھی اس بات کو بڑھا رہے ہیں ۔ اور اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو آگے اللہ ہی حافظ ہے۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
جو دانشور اس بات پر معترض ہوں کہ پاکستان میں شیعہ برادری یا دیگر اقلیتی برادریاں اپنی مذہبی شناخت کے پیشِ نظر کیوں رائے دہی کرتی ہیں، تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ رویہ تو دنیا بھر کے ممالک کی اقلیتوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ جن ممالک میں بنیادی سماجی فرق مذہب یا فرقوں کی بنیاد پر ہوتا ہے وہاں اقلیتیں یوں ہی اپنی مذہبی یا مسلکی شاخت کی بنا پر گروپ بندی کر کے ایک یونٹ کی شکل میں ووٹ دالنے کو ترجیح دیتی ہیں مثلا ہمارا پڑوسی بھارت اور شمالی آئرلینڈ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اور جن ممالک میں لوگوں کے بیچ بنیادی فرق نسلی یا لسانی بنیادوں پر ہوتا ہے، وہاں یہی رویہ اقلیتی لسانی گروہ اپناتے ہیں، مثال کے طور پر مقدونیہ کے البانوی اور بلغاریہ کے ترک۔
 

حسان خان

لائبریرین
دو شیعہ پارٹیوں مجلس وحدت مسلمین اور تحریک جعفریہ نے اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان بھی حاصل کرلیے ہیں

یہ مولوی بھی پاکستان کی مظلوم شیعہ برادری کو لالی پاپ تھمانے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔
 
جو دانشور اس بات پر معترض ہوں کہ پاکستان میں شیعہ برادری یا دیگر اقلیتی برادریاں اپنی مذہبی شناخت کے پیشِ نظر کیوں رائے دہی کرتی ہیں، تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ رویہ تو دنیا بھر کے ممالک کی اقلیتوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ جن ممالک میں بنیادی سماجی فرق مذہب یا فرقوں کی بنیاد پر ہوتا ہے وہاں اقلیتیں یوں ہی اپنی مذہبی یا مسلکی شاخت کی بنا پر گروپ بندی کر کے ایک یونٹ کی شکل میں ووٹ دالنے کو ترجیح دیتی ہیں مثلا ہمارا پڑوسی بھارت اور شمالی آئرلینڈ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اور جن ممالک میں لوگوں کے بیچ بنیادی فرق نسلی یا لسانی بنیادوں پر ہوتا ہے، وہاں یہی رویہ اقلیتی لسانی گروہ اپناتے ہیں، مثال کے طور پر مقدونیہ کے البانوی اور بلغاریہ کے ترک۔
میرے خیال میں یہاں بات ووٹ ڈالنے کی یا اقلیتی نفسیات کی نہیں ہو رہی بلکہ کسی برادری، فرقہ، گروہ یا لسانی گروہ کا بڑی سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی ہو رہی ہے۔۔۔۔ میرا ایک خیال اور بھی ہے کہ اہل تشیع فقہ یا فرقہ سے برادری کب سے ہو گئی؟
 

حسان خان

لائبریرین
اُکسانے اور بھڑکانے والے بھی تو یہی مولوی ہیں۔۔۔
لیکن شیعہ "اِن مولویوں" کی وجہ سے بے گناہ قتل نہیں ہو رہے، بلکہ "دوسرے مولویوں" کی وجہ سے قتل ہو رہے ہیں۔
خیر میں تو مولوی بیزار شخص ہوں، اس میں شیعہ یا سنی کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس لیے تمام شیعہ مسلمانوں سے اپنی پوری جذباتی اور قلبی وابستگی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے شہری حقوق کے تحفظ کے لیے مولویوں کے گروہ سے دور رہیں، بلکہ اس کے بجائے پڑھے لکھے دنیاوی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے شیعہ نمائندوں کو آگے لائیں۔ کیونکہ جتنا بہتر وہ اپنی برادری کے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں، مولویوں میں اُس کی سکت نہیں۔
 

حسینی

محفلین
بلکہ اس کے بجائے پڑھے لکھے دنیاوی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے شیعہ نمائندوں کو آگے لائیں۔ کیونکہ جتنا بہتر وہ اپنی برادری کے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں، مولویوں میں اُس کی سکت نہیں۔

حسان بھائی!
آپ کے یہ پڑھے لکھے دنیااااوی نمائندے کیا پچھلے دسیوں سالوں سے ان اسمبلیوں میں نہیں ہیں؟؟
ان لوگوں نے ہمارے لیے کیا کام کیے ہیں۔۔۔۔ شیعہ نسل کشی پر اک بیان تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔۔۔ آپ کن لوگوں کی بات کرتے ہیں؟؟
کتنے شیعہ نمائندے تھے پارلیمنٹ میں لیکن ہمارے لیے کیا کیا؟؟ یہ لوگ تو سیکیولر جماعتوں میں ہیں اور کسی کا قائد زرداری ہے تو کسی کا نواز۔
باقی بات مولویوں کی تو سارے مولوی بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔ شاید آپ کا واسطہ برے مولیوں سے پڑا ہو۔۔۔ ورنہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں،
 

حسینی

محفلین
ہاہ ہاہ۔۔۔ ۔۔! یہی تو دو سب سے بڑی تکفیری اور دہشت گرد جماعتیں ہیں۔۔۔ ۔!

آپ کی نظر میں تو سارے شیعہ ہی دہشت گرد اور کافر ہیں۔۔۔ اب اس کا کوئی حل نہیں ہے۔۔۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔
لیکن اللہ کا شکر ہے ہم کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے۔۔۔ اور نہ کسی مسلمان کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
مذہبی بنیاد پر بننے والی پارٹیوں جیسے کہ جماعت اسلامی، جے یو ائی، جے یو ایف، سپاہ صحابہ کو ووٹ کم ہی پڑتا ہے، اب ایک شیعہ مذہبی جماعت بھی آ جائے گی تو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ جب مذہب کو سیاست میں جگہ دے ہی دی ہے تو یہ سب تو ہونا تھا، جلد یا بدیر!
 

صرف علی

محفلین
ہاہ ہاہ۔۔۔ ۔۔! یہی تو دو سب سے بڑی تکفیری اور دہشت گرد جماعتیں ہیں۔۔۔ ۔!
السلام علیکم
امید کر رہا تھا کے مدیر کچھ بولئے خیر ۔
اب متلاشی جی کا کیا کیا جائے اصل میں یہ وہابیوں کے اندر کی خامیاں ہیں کیوں کہ اگر وہ دوسروں کو کافر نہ بولے تو ان کی دال روٹی نہیں گلےگی بھائی سعودیہ ان کو اسی بات کے تو پیسے دیتا ہے ۔ویسے وہابی حضرات تقیہ میں کیوں رہتے ہیں کبھی اعلانا نہیں کہتے ہم وہابی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
لیکن شیعہ "اِن مولویوں" کی وجہ سے بے گناہ قتل نہیں ہو رہے، بلکہ "دوسرے مولویوں" کی وجہ سے قتل ہو رہے ہیں۔
خیر میں تو مولوی بیزار شخص ہوں، اس میں شیعہ یا سنی کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس لیے تمام شیعہ مسلمانوں سے اپنی پوری جذباتی اور قلبی وابستگی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے شہری حقوق کے تحفظ کے لیے مولویوں کے گروہ سے دور رہیں، بلکہ اس کے بجائے پڑھے لکھے دنیاوی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے شیعہ نمائندوں کو آگے لائیں۔ کیونکہ جتنا بہتر وہ اپنی برادری کے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں، مولویوں میں اُس کی سکت نہیں۔
یہ خام خیالی ہے آپکی دونوں جانب آگ برابر لگی ہوئ ہے۔۔۔ میں اس بارے میں مزید کچھ لکھنا نہیں چاہتا میرا ذاتی خیال ہے کہ اس بحث کو صرف سیاسی رہنا چاہیے فقہی اور دوسری طرف نہیں نکلنا چاہیے۔۔۔
 
السلام علیکم
امید کر رہا تھا کے مدیر کچھ بولئے خیر ۔
اب متلاشی جی کا کیا کیا جائے اصل میں یہ وہابیوں کے اندر کی خامیاں ہیں کیوں کہ اگر وہ دوسروں کو کافر نہ بولے تو ان کی دال روٹی نہیں گلےگی بھائی سعودیہ ان کو اسی بات کے تو پیسے دیتا ہے ۔ویسے وہابی حضرات تقیہ میں کیوں رہتے ہیں کبھی اعلانا نہیں کہتے ہم وہابی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بھائی سعودیہ کسے پیسے دے رہا ہے اور کیسے دے رہا ہے ذرا ہمیں بھی تو بتائیں وہ لائن کس بینک کے آگے لگتی ہے؟ اس بحث کو مسلکی اور فقہی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔بہتر یہ ہوگا کہ ہم سیاسی نتائج پر بحث کریں۔۔
 

صرف علی

محفلین
ہم بھی سیای گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر کچھ لوگ اپنے اندر کی ۔۔۔۔ کو ظاہر کررہے ہیں
معذرت کے ساتھ
 
Top