طارق شاہ
محفلین
غزل
شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا
چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا
اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا
غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا
چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا
اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا
ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے !
اِس بُجھے دِل میں کسے خاک بسائے رکھنا
دیکھنا گر نہیں مُمکن تو تخیل سے اُنھیں
اپنی وِیران سی آنکھوں میں سجائے رکھنا
جان لے لیتا ہے یاد آنے پہ اب بھی اُن کا
بات کرتے ہُوئے نظروں کو جُھکائے رکھنا
کھویا ہم نے عدم اِظہارِ محبّت سے اُنھیں
حیف! ہر کام کا ، وہ کل پہ اُٹھائے رکھنا
کِس سے کمبخت نے سیکھاہے خُدا جانے خلشؔ
خواہشیں دِل کی بہرطور دبائے رکھنا
شفیق خلؔش