صادق باجوہ :::::: کشِش جو ہوتی نہاں حرف ِاعتبار میں ہے :::::: Sadiq Bajwa

طارق شاہ

محفلین


غزل
کشِش جو ہوتی نہاں حرف ِاعتبار میں ہے
اُسےسمجھنا بَھلا کِس کے اِختیار میں ہے

دلِ و دماغ معطّر تو کرگئی، لیکن!
بَلا کا درد چُھپا مشکِ خوشگوار میں ہے

یہ راز کب سے نہاں ہے، سمجھ نہ آیا کبھی
عجب قرار و سُکوں چشمِ انتظا ر میں ہے

بھٹکتی ،سر کو پٹختی ہُوئی صَدائے غم
بتاؤں کیسے، کہ وہ بھی مِرے حِصار میں ہے

بجھے بجھے سے کنول بھی کِھلے کِھلے سے لگے
یہ کیسا سِرِّ نہاں حُسنِ نَو بہار میں ہے

کوئی بھی اُس کے مُقابِل ٹھہر نہیں سکتا
جَھلکتا عکسِ محبّت جو چشمِ یار میں ہے

پِھر اُٹھ رہے ہیں قدم ، خود ہی جانبِ منزل !
نہ جانے کب سے کوئی میرے انتظار میں ہے

اُسی سے حشر بپا ہو بھی سکتا ہے، صادقؔ!
وہ ایک آہ ، جو مظلُوم کی پُکار میں ہے

صادقؔ باجوہ

میری لینڈ، امریکہ
****


*بزمِ یارانِ سُخن شمالی امریکہ
(میٹروپولیٹن ایریا، واشنگٹن ڈی سی)
کے افتتاحی مشاعرہ جوبروز ہفتہ 24 دسمبر 2016 کو انانڈیل ورجینیا میں، جناب باقرؔ زیدی صاحب کی صدارت و سرپرستی میں منعقد و اختتام پذیر ہُوا، میں جناب صادق باجوہ صاحب نے بالا غزل پیش کی
۔
*باجوہ صاحب نَو تشکیل کردہ بزم کے بُنیادی رُکن ہیں​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
دل و دماغ معطّر تو کرگئی، لیکن!
بَلا کا درد چُھپا مشکِ خوشگوار میں ہے

کیا کہنے بہت خوب :) بہت شکریہ صادق صاحب کے خوبصورت کلام سے متعارف کروانے کےلیے :)
 

طارق شاہ

محفلین
بہت نوازش آپ کے اِظہارِ خیال اور پزیرائیِ انتخاب پر
کہ اِس سے شیئر کرنا مُسرّت و طمانیت کا باعث ہُوا :)
بہت شاد رہیے :)
 
Top