الف عین
لائبریرین
مرے اجداد کیسے تھے
کہاں سے آئے تھے
میں نے کسی سے
آج تک پوچھا
نہ پوچھوں گا
بس
اتنا یاد ہے مجھ کو
وہ ان میں سے ہی کوئی تھے
اٹھاّرہ سو ستاّون نے
جن کے پاؤں میں
سیسہ اتارا تھا
انھیں
برفاب انسانوں سے نفرت تھی
٭
وہ کتنی سیدھی سادی عورتیں تھیں
جن کے اجلے آنچلوں میں
روز
چمپا اور چمیلی
کھلتی رہتی تھی
وہ ساری خوشبوئیں
اب کون جانے
کون دنیا
کس سمندر میں
بسی ہیں
(سنو!
تم کو سمندر سے
کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟
ڈرو مت
ہماری چار باہیں
چار پتواریں ہیں
سمندر
کچھ نہ اپنا کر سکے گا)
٭
یہ کیسا اک ستارہ ہے
جسے چھوتے ہی
میرے جسم کی
رگ رگ میں
جیسے
پھول کھل اٹھتے ہیں
سنہری تتلیوں کے
بکھرے بکھرے رنگ
رہ جاتے ہیں
٭
یہ بچےّ کون ہیں؟
جو تتلیاں چھونے کی خواہش میں
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
دوڑتے۔۔
گرتے ہیں
تتلی مسکراتی ہے۔
کہ اس کی سمت
ننھے ہاتھ پھیلے ہیں
انھہیں ہاتھوں میں ہیں
کتنے ستارے
کتنے سورج ہیں
٭
وہ بچہّ کھو گیا ہے
ذرا ڈھونڈھو
کہیں وہ تیلیوں کے تخت پر
راجا بنا بیٹھا ہو۔۔
روپہلے تاش کے پتوّںّ کے گھر میں
بس گیا ہو
ننھے ننھے کاغذوں پر
ہولڈر کی روشنا ئی سے
کتابیں چھاپتا ہو
نہ جانے اب کہاں
اس کے انوکھے سے کھلونے ہیں
کہاں وہ خوبصورت ڈایری ہے
جس میں اس نے
پیارے پیارے گیت لکھےّ تھے
وہ بچہّ کھو گیا ہے
اس کو ڈھونڈھو
ّمگر وہ بچہّ اب کافی بڑا ہوگا
٭
مرے چاروں طرف کردار ہیں
میں ان میں
اس بچےّ کو ڈھونڈھوں گا
کہاں سے آئے تھے
میں نے کسی سے
آج تک پوچھا
نہ پوچھوں گا
بس
اتنا یاد ہے مجھ کو
وہ ان میں سے ہی کوئی تھے
اٹھاّرہ سو ستاّون نے
جن کے پاؤں میں
سیسہ اتارا تھا
انھیں
برفاب انسانوں سے نفرت تھی
٭
وہ کتنی سیدھی سادی عورتیں تھیں
جن کے اجلے آنچلوں میں
روز
چمپا اور چمیلی
کھلتی رہتی تھی
وہ ساری خوشبوئیں
اب کون جانے
کون دنیا
کس سمندر میں
بسی ہیں
(سنو!
تم کو سمندر سے
کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟
ڈرو مت
ہماری چار باہیں
چار پتواریں ہیں
سمندر
کچھ نہ اپنا کر سکے گا)
٭
یہ کیسا اک ستارہ ہے
جسے چھوتے ہی
میرے جسم کی
رگ رگ میں
جیسے
پھول کھل اٹھتے ہیں
سنہری تتلیوں کے
بکھرے بکھرے رنگ
رہ جاتے ہیں
٭
یہ بچےّ کون ہیں؟
جو تتلیاں چھونے کی خواہش میں
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
دوڑتے۔۔
گرتے ہیں
تتلی مسکراتی ہے۔
کہ اس کی سمت
ننھے ہاتھ پھیلے ہیں
انھہیں ہاتھوں میں ہیں
کتنے ستارے
کتنے سورج ہیں
٭
وہ بچہّ کھو گیا ہے
ذرا ڈھونڈھو
کہیں وہ تیلیوں کے تخت پر
راجا بنا بیٹھا ہو۔۔
روپہلے تاش کے پتوّںّ کے گھر میں
بس گیا ہو
ننھے ننھے کاغذوں پر
ہولڈر کی روشنا ئی سے
کتابیں چھاپتا ہو
نہ جانے اب کہاں
اس کے انوکھے سے کھلونے ہیں
کہاں وہ خوبصورت ڈایری ہے
جس میں اس نے
پیارے پیارے گیت لکھےّ تھے
وہ بچہّ کھو گیا ہے
اس کو ڈھونڈھو
ّمگر وہ بچہّ اب کافی بڑا ہوگا
٭
مرے چاروں طرف کردار ہیں
میں ان میں
اس بچےّ کو ڈھونڈھوں گا