صاد۔۲ گذشتہ سے پیوستہ

الف عین

لائبریرین
مرے اجداد کیسے تھے
کہاں سے آئے تھے
میں نے کسی سے
آج تک پوچھا
نہ پوچھوں گا
بس
اتنا یاد ہے مجھ کو
وہ ان میں سے ہی کوئی تھے
اٹھاّرہ سو ستاّون نے
جن کے پاؤں میں
سیسہ اتارا تھا
انھیں
برفاب انسانوں سے نفرت تھی
٭
وہ کتنی سیدھی سادی عورتیں تھیں
جن کے اجلے آنچلوں میں
روز
چمپا اور چمیلی
کھلتی رہتی تھی
وہ ساری خوشبوئیں
اب کون جانے
کون دنیا
کس سمندر میں
بسی ہیں
(سنو!
تم کو سمندر سے
کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟
ڈرو مت
ہماری چار باہیں
چار پتواریں ہیں
سمندر
کچھ نہ اپنا کر سکے گا)
٭
یہ کیسا اک ستارہ ہے
جسے چھوتے ہی
میرے جسم کی
رگ رگ میں
جیسے
پھول کھل اٹھتے ہیں
سنہری تتلیوں کے
بکھرے بکھرے رنگ
رہ جاتے ہیں
٭
یہ بچےّ کون ہیں؟
جو تتلیاں چھونے کی خواہش میں
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
دوڑتے۔۔
گرتے ہیں
تتلی مسکراتی ہے۔
کہ اس کی سمت
ننھے ہاتھ پھیلے ہیں
انھہیں ہاتھوں میں ہیں
کتنے ستارے
کتنے سورج ہیں
٭
وہ بچہّ کھو گیا ہے
ذرا ڈھونڈھو
کہیں وہ تیلیوں کے تخت پر
راجا بنا بیٹھا ہو۔۔
روپہلے تاش کے پتوّںّ کے گھر میں
بس گیا ہو
ننھے ننھے کاغذوں پر
ہولڈر کی روشنا ئی سے
کتابیں چھاپتا ہو
نہ جانے اب کہاں
اس کے انوکھے سے کھلونے ہیں
کہاں وہ خوبصورت ڈایری ہے
جس میں اس نے
پیارے پیارے گیت لکھےّ تھے
وہ بچہّ کھو گیا ہے
اس کو ڈھونڈھو
ّمگر وہ بچہّ اب کافی بڑا ہوگا
٭
مرے چاروں طرف کردار ہیں
میں ان میں
اس بچےّ کو ڈھونڈھوں گا
 

الف عین

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ

مرے چاروں طرف کردار ہیں
میں ان میں
اس بچےّ کو ڈھونڈھوں گا
مرے چاروں طرف
کردار مجھ کو گھیرتے ہی جا رہے ہیں
اٗترتے آ رہے ہیں
موہنی سرگم سے۔۔۔۔
ایزل سے۔۔۔۔
کتابوں کے صفحوں سے۔۔۔۔۔
بِمل رائے،
گرو دت،
رے کی فلموں سے
وہ ان میں ہی کہیں ہوگا
٭
بہت کردار ہیں۔۔۔
سنو یہ کون ہے؟
سارنگ کی دھن
گا رہا ہے
تال روپک پر
یہ سارنگی پہ کس کا زمزمہ ہے
پہاڑی راگ گاتی بانسری
کس کی ہے
یہ موسیقار تینوں۔۔
کس کی ایزل سے
اٗتر کر آ گئے ہیں۔
پکاسو
ونسی
اور گجرال
کس کی بھیرویں میں بہہ رہے ہیں
٭
ارے یہ قرۃالحیدر کے افسانوں کا سناّٹا
یہاں
اس شہرِ ممنوعہ میں کیسے آ گیا ہے؟
یہاں تو ایک برگِ نے ابھی تک تھا
یہ جنگل میں دھنک کیسی ہے؟
یہ ننھےجگنؤوں کی کیسی دنیا ہے
جہاں میرے صنم خانے ملیں گے
جہاں مش رومس میں
پریوں کی بستی ہے
وہیں آ نگن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ
اک آگ کے دریا کے بیچوں بیچ گمٗ صم ٗ ہے
دوسری جانب
کو ئی بوڑھا
سمندر کے مقابل ہے
اور ادھر
دوسری جانب
خدا کی بستیوں میں
پا بجولاں کتنی نسلوں کی اداسی ہے
٭
یہ لڑکی کون ہے
دیکھو
کسی کرپان نے
معصوم چہرہ
یہ کہہ کر غرب سے
مشرق کو موڑا ہے
’ادھر کیا دیکھتی ہے۔۔۔
کون ہے تیرا؟‘
یہ کس کا دل سویرے کا
سنہرا جام ہوتا ہے
یہ چاروں سمت میرے
چیونٹیوں کی ننھی ننھی فوج کیسی ہے
یہ راتیں درد کا کیسا شجر ہیں؟
مدھو شالا میں کیسے آ گیا یہ رات کا تنہا مسافر
(رکو سولینسٹن!
میں دیکھ لوں صورت تمھاری)
وہ لڑکا کھو گیا ہے
کہیں
یہ وہ معصوم لڑکا تو نہیں
جو کہتا ہے
’میں زندہ ہوں‘
اور اس جنگل سے اس کا کچھ نہیں رشتہ
جہاں ماؤں کی گودوں میں کبھی بچےٓ نہیں ہنستے
٭
یہ سب کردار تو
اک اجلے بادل کے مسافر ہیں
نگر اس کے تو دونوں پیر
دھرتی پر تھے
وہ ان میں نہ ہوگا
 

الف عین

لائبریرین
٭
یہاں چوبیس دروازے ہیں
تم
ہر ایک دروازے پہ دستک دو
کہیں کو ئی نہیں ہے
ارے! لیکن یہاں یہ آخری دروازہ وا کہوں ہے؟
ارے!
اس میں یہ اتنے سارے
نیلے پیلے غباّرے
کہاں سے
کس نے لا کر رکھ دئے ہیں؟
٭
ارے!
یہ میرے چاروں سمت
پیتل کی سنہری تھالیاں کیوں ناچتی ہیں
کس کی پوجا ہے
جو اتنی لڑکیاں
ہزاروں پھول گیندے کے
دئے
سیندور
تھامے جا رہی ہیں
یہ پیپل ایسے کتنے منظروں کا
آشنا ہے
مجھے بتلاؤ
وہ بچہّ
دئےکی طرح
کس تھالی میں جلتا ہے
دئے کی یہ لویں ہیں
یا صلیبیں
عبادت گاہ میں
جو سرنگوں ہوں گی
یہ سجدے
سب کے ماتھے پر
ہمیشہ کے لئے
ایک اک نشانی چھوڑ جا ئیں گے
پھر اس کے بعد
سب سورج
ہزاروں سال جیسی
ایک لمبی رات کےآتے ہی
اپنی ہر کہانی چھوڑ جا ئیں گے
(اٗسے بھی شوق تھا
ہر رات
ماں سے اک کہانی روز سننے کا)
یہ ماں بھی
کتنا میٹھا شبد ہے
جیسے حلاوت کا سمندر ہے
(سنو
تم کو
سمندر سے کہیں ڈر تو نہیں لگتا؟)
یہ ماں
بیوی
بہن
کتنے رسیلے شبد ہیں
ان کے رنگیں آنچلوں میں
اپنے
دوجے
آنسؤوں کا عطر ہے
٭
یہ ماں ہے
جس کی دو آنکھیں سمندر
کہ جس میں
ننھی ننھی کشتیاں
اکثر ابھرتی ڈوبتی ہیں
بہن ہے
ایک پل لڑتی ہے
اگلے پل میں من جاتی ہے
سہانی بانسری کی دھن پہ اکثر گیت گاتی ہے
تمھارے
اور میرے
پیار کے نغمے
’کلی بن کے
صبا بن کے
وفا کے باغ میں
مہکا کریں گے‘
یہ تم ہو
جس سے میرا
اک سہانے شبد کا
اگلا تعلقّ ہے
یہ ماں بیوی بہن کتنے رسیلے شبد ہیں!!
٭
ہماری ما ئیں بھی
کتنی پیاری ہیں
مہرباں ہیں
جو چاہتی ہیں
کہ کو ئی دیوار
درمیاں میں نہ آئے اپنے
چلو
کہ ہم
اپنی اپنی ماؤں کے آنچلوں کو
نہ ہو بہار اں
خزاں کے پھولوں سے ہی سجا دیں
چلو
کہ ہم
ان کے پاک دامن
ہزار ہا جگنؤوں سے بھر دیں
چلو
کہ ہم
ان کے
اجلے ہاتھوں کو
چوم لیں
جو کہ پاک ہیں
مثلِ سنگِ اسود
٭
تمھاری میری بہنیں
کتنی پیاری
مہرباں ہیں
تمھاری بہنیں
مرے خطوں کی
سدا ہی رہتی ہیں منتظر
دل چسپی سے پڑھتی ہیں
مری بہنیں
جو لڑتی ہیں
کہ تم سے آج تک وہ مل نہیں پا ئیں
یہ بہنیں کتنی بھولی ہیں
ان آنکھوں کے جگنو بھی
ہمارے پیار سے روشن ہیں
ان کے آنچلوں میں
کتنی کلیاں ہیں
جو اس جذبے کی خوشبو سے
مہکتی ہیں
یہ جذبہ سارے جذبوں سے بڑا ہے
خدا کے نام کے بعد۔
 

الف عین

لائبریرین
اگلی قسط

یہ جذبہ سارے جذبوں سے بڑا ہے
خدا کے نام کے بعد۔
٭
خدا
جو مہرباں ہے
نوری کرنوں سےبنے دھاگے میں
کچھ گڑیاں پروئے
اندھیرے کی سیہ چادر کے پیچھے
کالے دھاگوں کو
عجب انداز سے
حرکت دیا کرتا ہے
یہ کس کی انگلیاں ہیں
بوڑھی
اور چمکیلی
تورانی
رحیم
٭
ایسے ہی دن تھے، کچھ ایسی شام تھی
وہ مگر کچھ اور ہنستی شام تھی
بہہ رہا تھا زرد سورج کا جہاز
مانجھیوں کے گیت گاتی شام تھی
صبح سے تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں
وہ مگر کیسی سلگتی شام تھی
گرم الاؤ میں سلگتی سردیاں
دھیمے دھیمے ہیر گاتی شام تھی
گھیر لیتے تھے طلا ئی دایرے
پانیوں میں بہتی بہتی شام تھی
عرشے پر ہلتے ہوئے دو ہاتھ تھے
ساحلوں کی بھیگی بھیگی شام تھی
کتنی راتوں تک ہمیں یاد آئے گی
اپنی وہ پہلی سہانی شام تھی
چاندی چاندی رات کو یاد آئے گی
سونا سونا سی رنگیلی شام تھی
مندروں میں جاوداں سی ہو گئی
دویہّ پیتل کی سنہری شام تھی
اک طرف راتوں کا لشکر تھا عظیم
اک طرف تنہا نہتیّ شام تھی
شاخ سے ہر سرخ پتیّ گر گئی
پھر سہی بوجھل سی پیلی شام تھی
سولھویں زینے پہ سورج تھا عبید
جنوری کی اک سلونی شام تھی
٭
ایسی اک بستی ہے اس ندی کے پار
اس ندی کے پار
ٹھنڈا پانی انگلیاں دیکھیں بہاؤ
بہکے بہکے پانی میں ڈولے گی ناؤ
لہروں کے بھنور، دریا کا منجھدار
اس ندی کے پار
تاروں بھرے آنگن میں کو ئی مسکائے
سانوری سی رنگت دیوار اجرائے
رنگوں کے دھبوّں سے سجی دیوار
اس ندی کے پار
اجلے اجلے کاغذ کو کالا کروں
یوں ہی کویتا ئیں میں کب تک بنوٗں
جانے کون کوِتا کا دیکھوں میں دوار
اس ندی کے پار
نیلا نیلا آکاش چپ چاپ ہے
جانے کون سیتا کا یہ شراپ ہے
دھانی کھنکتے ہاتھوں میں تلوار
اس ندی کے ہار
کیسی یہ پتنگ جس کی ڈور یہ نہیں
کیسی یہ ڈور جس کا چھور ہی نہیں
پیار ایسی ناؤ کہ نہیں ہے پتوار
اس ندی کے پار
برف کی سی سڑکیں، سنہری مکان
نیلے نیلے سورج، گلابی آسمان
سپنوں کی ڈولی، نین کے کہار
اس ندی کے پار
٭
 

الف عین

لائبریرین
صاد۔ اگلی قسط

اداس پھول کی خوشبو
سنہری دھوپ کا گھاؤ
اداس آنکھیں سمندر
ملول سانسیں ہوا
فضا میں نیلا سمندر
ہوا میں سرخ شراب
سلگتے پھول پہ
شبنم کے گیت جیسا بہاؤ
ہتھیلیوں پہ مہکتا ہو
جیسے سرخ رچاؤ
سفید کشتی
لہکتی بہکتے پانی میں
اداس دل میں سمندر کی گہری خاموشی
کنارِ آب پہ
راتوں کو
مانجھیوں کے الاؤ
بجھا دو مشعلیں
اور خواب ناک اندھیرے میں
مرے اجانے سے مانجھی
وہ لوک گیت سناؤ
جو ایسے وقت مٰیں
سورج کی یاد میں راتیں
چمکتے پیالوں میں
پانی بجا کے گاتی ہیں؎
٭
اپنے ملنے کے آخری لمحے
جیسے جنتّ بھی تھے
جہنمّ بھی
اپنے ملنے کے آخری لمحے
پھول جیسے خزاں میں کھل جا ئیں
دھوپ میں جیسے بارشیں ہو جا ئیں
٭
عجب تماشہ تھے اپنے ملنے کے آخری پل
ہمارے ملنے کی تھی خوشی بھی
غمِ جدا ئی بھی
ریل کی پٹریوں کے پیچھے
چھپا ہوا تھا
عجیب یہ سانحہ ہوا تھا
٭
سنہری جنتیں
اور جنتوں میں ہم
اپنے دل میں
گنگناتی چاہتیں
چاہتوں کے رنگ سے رنگیں فضا
اور فضاؤں میں کئی سرگوشیاں
سرگوشیوں میں پیار
۔۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔
پھر جانے کیا۔۔۔۔
چاہتوں کو روندتے
ریل کے انجن کی
بھاری گڑگڑاہٹ
اور پھر
لب پر جدا ئی گیت
اور پھر
لب پر جد ائی گیت۔۔۔۔
٭
 

الف عین

لائبریرین
تمہیں نثری نظم لگ رہی ہے یہ؟ میاں یہ تجربہ ہے کہ ایک ہی بحر میں طویل آزاد نظم میں مختلف بحروں کی چھوٹی چھوٹی نظموں کے پیوند لگا دئے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے بھی مستقل نظمیں کہی جا سکتی ہیں اور دو ایک اسی طرح شائع بھی ہوئی ہیں۔ یہ 24 سال کی عمر کی تھی، یہاں چوبیس دروازے ہیں)، اور پہلے تو یہ کوشش تھی کہ1974 ہی مصرع ہوں،جب یہ نظم کہی گئی تھی۔ اب معلوم نہیں کہ کچھ ترمیمات کے بعد کتنے مصرع بچے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تمہیں نثری نظم لگ رہی ہے یہ؟ میاں یہ تجربہ ہے کہ ایک ہی بحر میں طویل آزاد نظم میں مختلف بحروں کی چھوٹی چھوٹی نظموں کے پیوند لگا دئے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے بھی مستقل نظمیں کہی جا سکتی ہیں اور دو ایک اسی طرح شائع بھی ہوئی ہیں۔ یہ 24 سال کی عمر کی تھی، یہاں چوبیس دروازے ہیں)، اور پہلے تو یہ کوشش تھی کہ1974 ہی مصرع ہوں،جب یہ نظم کہی گئی تھی۔ اب معلوم نہیں کہ کچھ ترمیمات کے بعد کتنے مصرع بچے ہیں۔

معافی چاہتا ہوں، اپنی کم علمی کے باعث ایسا لکھ دیا تھا۔
ایک بات تو پکی ہے نظم بہت کمال ہے، اتنی طویل اور اتنی پیاری نظمیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
1974 مصرعے پورے کس طرح ہو جاتے ہیں؟
احمد ندیم قاسمی صاحب کی بھی چند نظموں کا عنوان 25 الفاظ تھا، اور ہر نثری نظم کے اتنے ہی الفاظ تھے،
یہ کیسے ممکن ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
آزاد نظم میں تو آزادی ہوتی ہے نا، تین چار مصرعوں کو ملا کر ایک طویل مصرع بنا دیا جائے یا ایک طویل مصرع کو تین چار ٹکڑوں میں توڑ کر تین چار مصرع برامد کر لئے جائیں۔ یاد نہیں کہ اس فائنل شکل میں کتنے مصرعے تھے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آزاد نظم میں تو آزادی ہوتی ہے نا، تین چار مصرعوں کو ملا کر ایک طویل مصرع بنا دیا جائے یا ایک طویل مصرع کو تین چار ٹکڑوں میں توڑ کر تین چار مصرع برامد کر لئے جائیں۔ یاد نہیں کہ اس فائنل شکل میں کتنے مصرعے تھے

اگر چند دن تک موقع ملا تو مصرع میں گنوں گا۔
 
Top