صاد۔ طویل نظم کی باقی ماندہ قسطیں

الف عین

لائبریرین
کچھ ایسا لگا
جیسے
ماتھے پر ہاتھ رکھے
ہم آکاش کی طرف دیکھ رہے تھے
کہ ایک ستارہ
ٹوٹ لر
افق کے پار
شفق کے پار
کھو گیا
مگر ایسا دوسروں کو لگا ہوگا
مجھے تو ایسا لگا
جیسے
وہ ستارہ
میری مٹھیّ میں آ گیا
٭
کبھی ایسا بھی ہوگا
اک ستارہ
ہتھیلی سے مری
ٹکرائے گا
نس نس میں
کلیاں سی چٹکتی جا ئیں گی
خزاں کے موسموں کی
حکمرانی ختم ہو گی
ہر طرف ہوں گی بہاریں
سدا ہوں گی بہاریں
صدا ہوں گی بہاریں
بہاریں
شامہّ ہوں گی
بہاریں
لامسہ ہوں گی
بہاریں
ذا ئقہ ہوں گی
بہاریں
باصرہ ہوں گی
بہاریں
باصرہ ہوں گی
(ذرا دیکھو تو
حرف و صوت کا
کیسا تماشہ ہے۔
کہاں آ کر تمھارا نام بکھرا ہے)
تمھارا نام
اس جنگل کے پیڑوں کی
ہر اک ڈالی کی ہریالی ہے
کسی سونے جزیرے میں
کھجوروں کے درختوں کا سہانا پن ہے
تمھارے نام میں روشن
کئی شاموں کی سرخی ہے
(’مجھے ان نیلی آنکھوں نے بتایا
تمھارا نام پانی پر لکھا ہے‘)
٭
 

الف عین

لائبریرین
اور اب
جب ہم
اپنے ہی پیار کی دھوپ میں
جل بجھ رہے ہیں
خدا بھی اپنی جنتوں میں خوش ہے
اور اس کے بندے
بڑے جوتوں کی جوڑیں
پہنے پہنے
تتلیوں کے پیچھےدوڑتےہیں
مرا جی چاہتا ہے
کہ میں اس باغ کے سارے درختوں پر
سمندر کے ساحل کے
ہر پام کے پیڑ پر
ایک حرف
بس ایک ہی حرف
’صاد‘
لکھ دوں
کہ
یہ
تمھارا
نام
بھی
ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھ رہا تھا کہ کافی مواد اور ہوگا۔ بہر حال اب تو ایک الگ تانے بانے میں پوسٹ کر ہی دیا ہے۔
 
Top