الف عین
لائبریرین
مری جتنی حِسیں ہیں
ان میں حسِ باصرہ ہی کیوں قوی ہے
کہ جو آکاش پر بکھرے ستاروں میں،
مثلثّ ۔ دایرے۔ مکعب۔ مربعّ
دیکھتی ہے
جو
ان بنجر زمینوں میں
سنہری بالیوں کے سبز پتےّ
دیکھ لیتی ہے
کہ جن کے بیج
ابھی ڈالے گئے ہیں
یہ میری کیسی حسِّ باصرہ ہے!!
چلو
جب اک اجانی رہگزر کی جستجو ہو گی
زبانیں اپنی
ساری اجنبی ہو جاٗ ئیں گی سب
اس دم
زبانِ باصرہ میں گفتگو ہوگی
٭
سنو
میں دیر سے
لیٹا ہوا ہوں
ستارے
مجھ کو چاروں سمت
اتر کر
گھیر لیتے ہیں
ستارے۔۔۔
میری آنکھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں کے قلم میں
ستارے۔۔۔
میرے سارے ہی بدن میں ناچتے ہیں
نہ جانے کون سی دھن ہے
مسلسل بج رہی ہے
مسلسل رقص میں ہیں
یہ ستارے
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
تب سارے ستارے
مرے بستر پہ
میری ہی طرح سے
لیٹ جاتے ہیں
٭
یہ راتیں رو رہی ہیں
یہ راتیں
کیسی ننھی بچیاّں ہیں
سب کو سوتی جاگتی
ایک ایک گڑیا دو
تو شاید
مسکرا دیں
ستارے ان کے نازک پیر
سہلا دیں
تو شاید
ننھے منےّ قہقہے بکھریں
٭
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
اور سارے ستاروں کو
پکڑنا چاہتا ہوں
(ذرا دیکھو تو۔۔۔
میرے ہاتھ میں
یہ ننھے ننھے داغ
کیسے ہیں؟
ستاروں نے
ہتھیلی پر
تمھارا نام تو لکھاّ نہیں شاید۔۔۔!!!
قریب آؤ۔۔۔۔
تو میں مٹھیّ میں جکڑے
ہر ستارے سے
تمھیں ملواؤں
یہ سارے میرے ساتھی ہیں
مرے بچپن کے
میرے ساتھ کھیلے ہیں
مرے ہی ساتھ
پیدا بھی ہوئے تھے
سنا تھا
دوسرے تارے
اذانِ فجر سنتے ہی
چلے جاتے ہیں سونے
لیکن یہ ستارے
اذاں سنتے ہی
میرے جسم میں اترے ہیں
میرے اندروں،
ہر طرف بکھرے ہوے ہیں
چلو
میں ان ستاروں سے
تمھیں ملواؤں
ان میں حسِ باصرہ ہی کیوں قوی ہے
کہ جو آکاش پر بکھرے ستاروں میں،
مثلثّ ۔ دایرے۔ مکعب۔ مربعّ
دیکھتی ہے
جو
ان بنجر زمینوں میں
سنہری بالیوں کے سبز پتےّ
دیکھ لیتی ہے
کہ جن کے بیج
ابھی ڈالے گئے ہیں
یہ میری کیسی حسِّ باصرہ ہے!!
چلو
جب اک اجانی رہگزر کی جستجو ہو گی
زبانیں اپنی
ساری اجنبی ہو جاٗ ئیں گی سب
اس دم
زبانِ باصرہ میں گفتگو ہوگی
٭
سنو
میں دیر سے
لیٹا ہوا ہوں
ستارے
مجھ کو چاروں سمت
اتر کر
گھیر لیتے ہیں
ستارے۔۔۔
میری آنکھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں میں
ستارے۔۔۔
میرے ہاتھوں کے قلم میں
ستارے۔۔۔
میرے سارے ہی بدن میں ناچتے ہیں
نہ جانے کون سی دھن ہے
مسلسل بج رہی ہے
مسلسل رقص میں ہیں
یہ ستارے
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
تب سارے ستارے
مرے بستر پہ
میری ہی طرح سے
لیٹ جاتے ہیں
٭
یہ راتیں رو رہی ہیں
یہ راتیں
کیسی ننھی بچیاّں ہیں
سب کو سوتی جاگتی
ایک ایک گڑیا دو
تو شاید
مسکرا دیں
ستارے ان کے نازک پیر
سہلا دیں
تو شاید
ننھے منےّ قہقہے بکھریں
٭
میں بستر سے الگ ہٹتا ہوں
اور سارے ستاروں کو
پکڑنا چاہتا ہوں
(ذرا دیکھو تو۔۔۔
میرے ہاتھ میں
یہ ننھے ننھے داغ
کیسے ہیں؟
ستاروں نے
ہتھیلی پر
تمھارا نام تو لکھاّ نہیں شاید۔۔۔!!!
قریب آؤ۔۔۔۔
تو میں مٹھیّ میں جکڑے
ہر ستارے سے
تمھیں ملواؤں
یہ سارے میرے ساتھی ہیں
مرے بچپن کے
میرے ساتھ کھیلے ہیں
مرے ہی ساتھ
پیدا بھی ہوئے تھے
سنا تھا
دوسرے تارے
اذانِ فجر سنتے ہی
چلے جاتے ہیں سونے
لیکن یہ ستارے
اذاں سنتے ہی
میرے جسم میں اترے ہیں
میرے اندروں،
ہر طرف بکھرے ہوے ہیں
چلو
میں ان ستاروں سے
تمھیں ملواؤں