مکرمی بابا جی صاحب!
بہت اچھی غزل پوسٹ کی آپ نے، اس انتخاب کے لئے بہت سی داد قبول کیجئے
غزل مکمل نہیں تھی، سو مکمل غزل یہاں چسپاں کر رہاہوں
کچھ اغلاط کی بھی اس طرح درستگی ہو گئی
بہت شکریہ غزل پیش کرنے کا
بہت خوش رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
خواجہ حیدر علی آتش
صاف آئینے سے رُخسار ہے اُس دلبر کا
یہ خدا کا بنایا ہے، تو وہ اسکندر کا
چشمِ مستانہ کی گردش میں تصوّر ہے اجل
غفلت انجام ہے جب دَور چلے ساغر کا
دل پہ چوٹ اُس رخِ رنگیں کے نظارے سے لگی
پُھول سے صدمہ پہنچتا ہے مجھے پتھر کا
جوشِ وحشت ہے بے قطعِ تعلّق مقراض
سگِ دیوانہ کو پابند نہ دیکھا در کا
قلب ماہیتِ اربابِ صفا کھوتی ہے قدر
عدمِ آب سے ارزاں ہو بہا گوہر کا
عاشقوں سے طلبِ بوسہ کہاں جاتی ہے
مور سے ہو نہ سکے ترک کبھی شکّر کا
آفتِ جاں ہے فرومایہ کو طاقت ہونا
چوب کو تِیر کی مِلنا ہے قیامت پر کا
چرخ کے پار گزرجاتی ہے آہِ عاشق
سقف کو توڑتا ہے دُود مرے مِجمَر کا
نالۂ عاشقِ دل سوختہ ہے آفتِ جاں
بھڑکے خُوب آگ جہاں ڈھیر ہے خاکستر کا
دشمنِ ابرو سے زیادہ ہے وہ برگشتہ مژہ
زخمِ شمشیر سے ہے زخم غضب خنجر کا
عہدِ طفلی ہی سے ہے مشقِ تواضع لازم
حلقہ آسانی سے بن سکتا ہے چوبِ تر کا
خالِ رُخ سے تِرے ثابت ہُوا پیدا ہونا
موجِ سرچشمۂ خورشید سے بھی عنبر کا
کیا اثر ہو مِری آہوں سے بُتوں کے دل میں
صدمہ کھینچے نہ رگِ سنگ کبھی نشتر کا
آخرِکار کِیا ہے اُسے مستی نے خراب
ہوسکا ضبط نہ آدم سے مئے کوثر کا
جانے دے آتش اگر اہلِ جہاں تجھ سے پھرے
مرد پیچھا نہ کریں بھاگے ہوئے لشکر کا
خواجہ حیدر علی آتش