صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم - شور

کاشفی

محفلین
غزل
(شور)

صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم
نور میں دنوں کی پناہ ہو تم

ادھر افشاں اُدھر ہے رخسارہ
سو ستاروں میں ایک ماہ ہو تم

ہم سے تو عمر بھر حجاب رہا
پر رقیبوں سے روبراہ ہو تم

حشر میں دیکھئے ، ہو کیا انصاف
داد خواہ ہم ہیں عذر خواہ ہو تم

نیک اور بد سے ہے کجا نسبت
ہم گناہ گار ، بے گناہ ہو تم

ہم نے حق وفا میں جاں بھی دی
اور کیا چاہئے گواہ ہو تم

پڑھتے ہیں سب نماز دامن پر
عشق بازوں کی سجدہ گاہ ہو تم

کیوں نہ آنکھیں دکھاؤ عالم کو
شوخ دیدہ ہو خوش نگاہ ہو تم

شور سے اور تم سے کیا نسبت
وہ فقیر اور بادشاہ ہو تم
 

فاتح

لائبریرین
کیوں نہ آنکھیں دکھاؤ عالم کو
شوخ دیدہ ہو خوش نگاہ ہو تم

واہ واہ واہ۔ خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ مطلع میں پناہ کی بجائے پنا لکھا گیا ہے۔ اسے درست کر دیجیے۔
صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم
نور میں دنوں کی پنا ہو تم

 

کاشفی

محفلین
شکریہ کاشفی صاحب۔ عمدہ انتخاب ہے۔ مطلع میں پناہ کی بجائے پنا لکھا گیا ہے۔ اسے درست کر دیجیے۔
صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم
نور میں دنوں کی پنا ہو تم


بہت شکریہ جناب سخنور صاحب۔۔بہت بہت شکریہ۔۔خوش رہیں جیتے رہیں۔۔
 
Top