کاشفی
محفلین
غزل
(شور)
صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم
نور میں دنوں کی پناہ ہو تم
ادھر افشاں اُدھر ہے رخسارہ
سو ستاروں میں ایک ماہ ہو تم
ہم سے تو عمر بھر حجاب رہا
پر رقیبوں سے روبراہ ہو تم
حشر میں دیکھئے ، ہو کیا انصاف
داد خواہ ہم ہیں عذر خواہ ہو تم
نیک اور بد سے ہے کجا نسبت
ہم گناہ گار ، بے گناہ ہو تم
ہم نے حق وفا میں جاں بھی دی
اور کیا چاہئے گواہ ہو تم
پڑھتے ہیں سب نماز دامن پر
عشق بازوں کی سجدہ گاہ ہو تم
کیوں نہ آنکھیں دکھاؤ عالم کو
شوخ دیدہ ہو خوش نگاہ ہو تم
شور سے اور تم سے کیا نسبت
وہ فقیر اور بادشاہ ہو تم
(شور)
صبح خورشید، شب کو ماہ ہو تم
نور میں دنوں کی پناہ ہو تم
ادھر افشاں اُدھر ہے رخسارہ
سو ستاروں میں ایک ماہ ہو تم
ہم سے تو عمر بھر حجاب رہا
پر رقیبوں سے روبراہ ہو تم
حشر میں دیکھئے ، ہو کیا انصاف
داد خواہ ہم ہیں عذر خواہ ہو تم
نیک اور بد سے ہے کجا نسبت
ہم گناہ گار ، بے گناہ ہو تم
ہم نے حق وفا میں جاں بھی دی
اور کیا چاہئے گواہ ہو تم
پڑھتے ہیں سب نماز دامن پر
عشق بازوں کی سجدہ گاہ ہو تم
کیوں نہ آنکھیں دکھاؤ عالم کو
شوخ دیدہ ہو خوش نگاہ ہو تم
شور سے اور تم سے کیا نسبت
وہ فقیر اور بادشاہ ہو تم