La Alma
لائبریرین
صبح ِصادق
چند گھڑی کی بات تھی، ابھی بساط پر آخری دن اور آخری رات بچھی تھی، پھر بساطِ زندگی لپیٹ دی جانی تھی. داؤ پر لگانے کو میرے پاس کچھ نہیں بچا تھا. ایک انتظار تھا جو ادھ موا ، بے حال سا کسی ہمزاد کی طرح میرے پہلو سے لگا کھڑا تھا ....نجانے وہ کیوں میرے سنگ اس دن تک گھسٹتا چلا آیا تھا ...باقی ماندہ وحشتیں سمیٹنے ....شکست یقینی تھی ...سبھی کمال و ہنر ہاتھ ملتے رہ گئے ...آج دل کے داغ بہت روشن تھے ....سارے دکھ اور آزار صفحہِ حیات سے امڈ امڈ کر آتے ....اپنا نوشتئہِ تقدیر پڑھتے ......اور وہیں ڈھ جاتے.....یہ دن کتنا بارونق تھا ... بےکسی کے بازار میں ایک ہنگامہ برپا رہا ... غم و اندوہ کا ایک جمِ غفیر تھا جو چھٹنے میں نہیں آ رہا تھا ...اور اس پر یادوں کا بڑھتا ہوا ہجوم... دھیرے دھیرے دن کی سرخی سرمئی ہونے لگی ....زندگی کی آخری شام دہلیز پر کھڑی تھی ....افق کے پار غروب ہوتے سورج کے اشارے پر میں نے اپنے سامان پر نظر کی ...میرے پاس کچھ خاص نہیں تھا ....میرے ہاتھ میں کتابِ زندگی کا آخری باب کھلا تھا ....اور اس پر رقم ایک ادھوری داستان ...پاؤں سے لپٹی ایک منزل جو راہ میں ہی رہ گئی .....ایک اداس سی دھن جو کسی سماعت کی منتظر تھی ...لبوں پر ایک ان کہی بات ...ایک قول، ایک اقرار ...اور نظر میں کوئی مانوس سا لمحہ......دل کا درد مزید بڑھا ...حسرتیں آنکھ سے بہنے کو بیتاب تھیں ...میں نے سورج پر الوداعی نظر ڈالی ...واہ ری قسمت! یہ چمکا بھی تو کب جب زندگی آخری دموں پر تھی ....اور یہ چمکتا بھی کیسے ہر روزن تو میں نے خود ہی بند کر رکھا تھا ...پھر روشنی کیسے پہنچ پاتی
آفتابِ حیات کے ڈوبتے ہی رات نے میرا ہاتھ پکڑ کر میری کل متاع کے سنگ مجھے دشتِ ہجر میں اتار دیا ....وہ لمبی رات تھی ...لیکن شبِ غم سے نپٹنا مجھےخوب آتا تھا ....زندگی بھر یہی تو کیا تھا ....لیکن آج یادوں کی زنبیل سے عمرِ رفتہ کو نکال کر نہیں کھنگالنا تھا ...آج کی شب اس لمحے کو قصہ خواں کرنا تھا جو شریکِ داستان تھا ...جو درد کی لے کا ہم نوا تھا ....جو راہِ زیست کا انجان ہمسفر تھا ...جو ہر ان کہی کا راز دار تھا ....جس لمحے میں میرا اقرار چھپا تھا .....آج رات صرف اس پل کی گواہی سننا تھی ....یہ قصہ شب کے آخری پہر ، میرے چراغِ عمر کے گل ہو جانے تک جاری رہنا تھا ....میری زندگی کے آخری پل کے بعد ایک صبحِ نو تھی ....اس کے آفتاب کو جس دن پر طلوع ہونا تھا ، وہ روزِ محشر تھا ...جہاں اس لمحے پر مہر تصدیق ثبت ہونا تھی ...اسے نئی حیات ملنا تھی....میری زندگی کا یہی آخری پل ، میرا وقتِ صبحِ صادق تھا.