کاشفی
محفلین
صبر حسین علیہ السلام
(علامہ السید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی )
ظالم کی یہ روش کہ جفا پر جفا رہے
مظلوم کی ہے فکر وفا پر وفا رہے
لازم ہے حق کے سامنے یوں سر جھکا رہے
آجائے گر قضا بھی تو سجدہ ادا رہے
گر چاہتے ہو نسل کا سونا کھرا رہے
لازم ہے آل پاک سے بھی رابط رہے
ہے عاصیوں کو اس لئے الفت حسین علیہ السلام سے
فردوس کے لئے بھی کوئی راستہ رہے
غیر از حسین علیہ السلام کون ہے وہ جس کے واسطے
اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ناقہ بنا رہے
سمجھے گا کون اُس کے حدِ اقتدار کو
قبضہ میںجس کے زلف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم رہے
اس واسطے جھلانے لگے جھولا جبرئیل
زہرا سلام اللہ علیہا کے در پہ آنے کا رستہ کھلا رہے
گر چاہتا ہے ملک میں سردار کے قیام
رضواں کا ہے یہ فرض کہ درزی بنا رہے
پشت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ اس لئے بیٹھے رہے حسین علیہ السلام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ رکا رہے
صبر حسین علیہ السلام سارے زمانہ پہ چھا گیا
ظلم یزید جائے پنہ ڈھونڈتا رہے
اسلام کی بہار ہے دم سے حسین علیہ السلام کے
یارب گلِ ریاض مدینہ کھِلا رہے
شبیر علیہ السلام نے عطش کو بھی دریا بنا دیا
اب تشنہ لب زمانے کا ہر بے وفا رہے
لازم ہے یہ کہ ہوتا رہے ماتم حسین علیہ السلام
یعنی ضمیر نوعِ بشر جاگتا رہے
اسلام کو حیات ملی کربلا کے بعد
اسلام بھی رہے گا اگر کربلا رہے