حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا

عابدہ ، زاہدہ ، صالحہ ، عالمہ
یعنی ہر حکمِ رب کی تھیں یہ تابعہ

دخترِ قیس ، زوجہ اسامہ کی تھیں
نام تھا ان صحابیّہ کا فاطمہ

خوب صورت بھی تھیں ، خوب سیرت بھی تھیں
شب تہجد میں ، دن بھر رہیں صائمہ

کیں حدیثیں روایت انھوں نے بہت
ہیں یہ مشہور ”جسّاسہ کی راویہ“

سب صحابہ تھے مشعل ہمارے لیے
اور اسامہ! ہیں ہم صدقۂ جاریہ

 
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا

دینِ حق کے واسطے کیں ہجرتیں
پائی تھیں مال و وطن کی غربتیں

ابتدائی مومنوں میں سے یہ تھیں
یوں انھوں نے لی ہیں بے حد سبقتیں

جعفر و صدیق و حیدر سے ملیں
رفتہ رفتہ ازدواجی برکتیں

حضرتِ میمونہ ان کی بہن تھیں
قومِ ”خثعم“ سے تھیں ان کی نسبتیں

تھا اسامہ! نام اسماء آپ کا
پائی تھیں رب کی قسم! کیا قسمتیں!

 
آخری تدوین:
حضرت حبیبہ بنت ہاشم رضی اللہ عنہا

بڑی شان والی تھیں حضرت حبیبہ
مشقت کی عادی تھیں حضرت حبیبہ

بہت ہی زیادہ عبادت تھیں کرتی
خدا کی سوالی تھیں حضرت حبیبہ

علوم اور فنوں میں تھیں بے حد ہی ماہر
ذکاوت میں عالی تھیں حضرت حبیبہ

قدم دشمنوں کے اکھاڑے انھوں نے
بہادر سپاہی تھیں حضرت حبیبہ

محبت سے سرشار ہو ہو کے قرآن
بہت خوب پڑھتی تھیں حضرت حبیبہ

پھریں داعی بن کر یہ شمعِ ہدایت
غمِ دیں کی ماری تھیں حضرت حبیبہ

مگن منقبت میں ہے کس کی اسامہ!
ہر اک سے نرالی تھیں حضرت حبیبہ

 
حضرت خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا

نسب میں بھی تھیں برتر حضرتِ خنسا
شجاعت کی تھیں پیکر حضرتِ خنسا

تماضر ان کا اصلی نام ہے ، لیکن
لقب ان کا ہے اشہر حضرتِ ”خنسا“

رسولِ پاک سے تھیں یہ بڑی دس سال
تھیں یعنی کہ معمر حضرت خنسا

ہوئی تھی پہلی شادی عبدِ عزّٰی سے
تھیں صابر بیوہ ہوکر حضرتِ خنسا

بنے مرداس ان کے شوہرِ ثانی
رہیں ان سے بھی جڑ کر حضرتِ خنسا

ہوئے چار ان کے بیٹے اور اک بیٹی
مربّی ان کی مادر حضرتِ خنسا

بہت سے لائے اسلام ان کی دعوت سے
مبلغ بھی تھیں بڑھ کر حضرتِ خنسا

اسامہ! ان کے شعروں کا ہے اک دیوان
تھیں اک ماہر سخن ور حضرتِ خنسا

 
حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا

ہند بنتِ عتبہ ان کا نام تھا
اور سخاوت کرنا ان کا کام تھا

بیوی تھیں حضرت ابوسفیان کی
ان کا بیٹا رب کا اک انعام تھا

تھے ابوسفیان سردارِ قریش
اور کلیجے کا بھی قصہ عام تھا

دشمنِ اسلام تھے دونوں ، مگر
دونوں کی تقدیر میں اسلام تھا

پہلے قصے جو ہوئے تھے سو ہوئے
پُرسعادت دونوں کا انجام تھا

ولولے پیدا کیے یرموک میں
عزم ان کا تازہ صبح و شام تھا

شاعری کرتی تھیں یہ اے سَرسَرؔی!
کام یہ اہلِ عرَب میں عام تھا

 
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

حامل تھی ان کی زندگی بے حد سرور کی
کیوں کہ ملی تھی ان کو غلامی حضور کی

کس ملک میں تھیں اور کہاں یہ پہنچ گئیں
کیا کیا صعوبتیں ہیں انھوں نے عبور کی

دی شاہِ مصر نے شہِ عالَم کو ماریہ
یعنی کہ ابتدا تھی نبی کے ظہور کی

مصر و عرب میں آپ کی برکت سے ماریہ!
بنتی گئیں فضائیں ہدایت کے نور کی

سیریں بہن تھی ، حضرتِ حسان بہنوئی
امت گواہ جن کے ہے شعر و بحور کی

زینب کے انتقال سے غمگیں تھے مصطفیٰ
بیٹے سے ماریہ نے یہ تکلیف دور کی

یہ رتبہ اے اسامہ! کسی کو نہیں ملا
امِّ ولد تھیں ماریہ اپنے حضور کی

 
حضرت ارویٰ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا

بڑی جی دار تھیں خاتون ارویٰ
بہت غم خوار تھیں خاتون ارویٰ

گناہ و معصیت ، ظلم و ستم سے
رہی بے زار تھیں خاتون اروی

بھتیجے پر ہزاروں جان سے قربان
دیوانہ وار تھیں خاتون ارویٰ

غریبوں اور ناداروں کے حق میں
سدا دل دار تھیں خاتون ارویٰ

سہی ہجرت سگے بیٹے کی کیوں کہ
سراپا پیار تھیں خاتون ارویٰ

وصالِ مصطفی پر رنج و غم سے
بہت دو چار تھیں خاتون ارویٰ

اسامہ! مرثیہ لکھا نبی کا
کہ ذی اشعار تھیں خاتون اروی

 
حضرت ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا

ہے یہ شمعِ نورِ ہُدیٰ ام ہانی
رہا ہند یا فاطمہ نامِ نامی

ملی ان کو کیا خوب ہے رشتے داری
نبی تھے کزن اور علی ان کے بھائی

ہوئی ہے سعادت انھیں بھی یہ حاصل
انھوں نے نبی کا پیا جھوٹا پانی

دوا ضعف کی ان کی برکت سے ہم نے
”پڑھو تیسرا کلمہ سو بار“ پائی

بہادر تھیں حضرت علی کی طرح خوب
کئی بار بے حد شجاعت دکھائی

نبی سے یہ دریافت کرتی تھیں اکثر
کلامِ الٰہی کے لفظ و معانی

زمانہ ہے چاروں خلیفوں کا پایا
اسامہ ہے لکھتا اب ان کی مساعی

 
حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا

بھتیجا بنا ساقیِ جامِ کوثر
نبی ان کو کہتے تھے ماں کے برابر

اسد نامِ نامی تھا والد کے ان کا
تو بیٹے تھے ان کے علی شیر حیدر

ہوئیں موت کے بعد رشکِ صحابہ
محمدs کے کُرتے میں تکفین پاکر

بہو آپ کی دخترِ مصطفیٰ تھی
بہو ساس کا نام تھا ایک یکسر

نبی کو تھی ان سے بہت ہی محبت
نبی ان کے گھر آیا کرتے تھے اکثر

اسامہ! ہوئی ان کی برکت سے تیری
یہ اک عام سی نظم بھی خوب بہتر

 
حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا

بہت نیک تھیں حضرتِ امِّ معبد
تمیم آپ کے تھے خدائے مجازی

سخاوت ، شجاعت ، فصاحت ، بلاغت
تھا ان کی رگوں میں بھی خونِ حجازی

گھر ان کا تھا مکے مدینے کے مابین
ملی ان کو غربت میں بھی بے نیازی

ہے ان کی فصاحت ، بلاغت کی شاہد
یہ حلیہ مبارک کی تصویر سازی

یہ ہیں ان نجومِ ہدایت میں شامل
جو دن میں تھے صائم تو شب میں نمازی

لٹایا ہے ان سب نے دیں کے لیے سب
یا پاتے شہادت یا ہوتے تھے غازی

جو رہتے تھے زندہ تو جیت ان کی ہوتی
جو پاتے شہادت تو ان کی تھی بازی

کبھی جنگ میں تو کبھی رب کے آگے
وہاں سرفرازی ، یہاں دل گدازی

نبی ان کے مہماں بنے تھے اسامہ!
قبول ان کی کی رب نے مہماں نوازی

 
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا

شانِ کرم نرالی تھی ام حکیم کی
ذاتِ کریم عالی تھی ام حکیم کی

اسلام کر رہے تھے قبول ان کے رشتے دار
قسمت بدلنے والی تھی ام حکیم کی

اسلام دشمنی میں جو گزری وہ زندگی
اسلام نے بچالی تھی ام حکیم کی

دشمن کے سامنے بھی طبیعت تو دیکھیے
کیا خوب ہی جلالی تھی ام حکیم کی

میدانِ کارزار میں پُل پر ہوا نکاح
شادی بہت مثالی تھی ام حکیم کی

روشن اسامہ! شمع کی مانند زندگی
چمکیلی اور ہلالی تھی ام حکیم کی

 
حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا

ہمیشہ حق کا بنیں سہارا
لٹایا مال اپنا دیں پہ سارا

بہت سمجھ دار تھیں یہ خاتون
سمجھتیں حق کا ہر اک اشارہ

تھے حضرتِ حمزہ ان کے بھائی
کیا گیا جن کو پارہ پارہ

نبیِ اکرم کی یہ تھیں پھوپھی
بھتیجا ان کو تھا جاں سے پیارا

انھوں نے بیٹے کو تربیت سے
صفاتِ حسنیٰ سے تھا نکھارا

بہادری کے دکھائے جوہر
مقابل ان کا ہمیشہ ہارا

اسامہ! حضرت صفیّہ ہیں یہ
چمکتا اسلام کا ستارہ

 
آخری تدوین:
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا

بلا کی تھیں ذہیں امِّ عُمارہ
رہیں خندہ جبیں امِّ عُمارہ

کیا اسلام پر سب کچھ ہی قرباں
رہِ حق میں جمیں امِّ عُمارہ

سرِ میدان پانی زخمیوں کو
پلاتی ہی رہیں امِّ عُمارہ

سدا کفار کے چھکے چھڑائے
شجاعت سے لڑیں امِّ عُمارہ

مصائب کرتی تھیں برداشت ، ہمت
کبھی ہاری نہیں امِّ عُمارہ

اسامہ! نظم کا ہے یہ خلاصہ
سعادت مند تھیں امِّ عُمارہ

 
Top