صحافی: داعی یا دائی؟

یوسف-2

محفلین
ابھی کچھ دِن پہلے کی بات ہے۔ کوئی صحافی کسی گھریلو تقریب میں اعزہ واقارب کے ہاتھ لگ گیا۔ ہاتھ لگنا تھا کہ لوگ (اپنے) دانت نکال نکال کر اُس سے پوچھنے لگے:
’’میاں!صحافی ہو، کوئی اندر کی خبر سُناؤ!‘‘
اب صحافی بے چارہ کیا کرے؟ اندر کی خبر کہاں سے لائے؟ تاہم نہ لائے تو اُس کی صحافتی ساکھ ہی داؤ پر لگ جائے۔ پس ہر صحافی کوئی نہ کوئی اندر کی خبر لے ہی آتا ہے۔مگراندرکی خبر سے مراد صرف ’پیٹ کے اندر کی خبر‘ ہوتی ہے۔ وہی جسے ہمارے شعرا اپنی مشکل زبان میں ’’فی بطنِ شاعر‘‘یعنی: ’’شاعر کے پیٹ کے اندر‘‘( کی خبر) کہاکرتے ہیں۔
شعرجننے والے شاعروں کی طرح صحافیوں کو بھی لوگ ازقسمِ ’’دائی‘‘ وغیرہ سمجھا کرتے ہیں۔ ہر پندرہ منٹ یا آدھے گھنٹے بعد ایک نہ ایک نومولود خبر (Breaking News) گودمیں لے کر حاضر ہو جانے والوں (اور والیوں) کی بابت ظاہر ہے یہی خیال کیا جاسکتاہے کہ دائی سے بھلا پیٹ کون چھپا سکتا ہے؟ اور یہ خیال کچھ ایسا خام بھی نہیں۔ صحافی صاحبان تو بڑے بڑوں کے (اور پہاڑ جیسے) پیٹ میں گھس کر (گوکہ چوہے جیسی مگر)کوئی نہ کوئی خبر نکال ہی لاتے ہیں۔
پرصاحبو!کتنے افسوس کی بات ہے کہ اب ہمارے صحافی دائی ہوگئے ہیں۔ ممتاز عالم، استاد اور بین الاقوامی اِسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم تو صحافیوں کو ’’داعی‘‘ قرار دیاکرتے تھے۔ کہاکرتے تھے کہ ’’اِبلاغ‘‘ اور ’’تبلیغ‘‘ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ممکن ہی نہیں کہ کوئی صحافی مسلمان ہو اور اُس کے اِبلاغ میں تبلیغ کا پیدایشی مشن نہ پایاجاتا ہو۔مسلمان تو پیداہی تبلیغ کے لیے کیا گیا ہے۔ وہ برصغیر کے جن نامور مسلمان صحافیوں کے نام لیا کرتے تھے اُن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمدعلی جوہر،مولانا آزاد سبحانی، مولانا ظفرعلی خاں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اورمحمدصلاح الدین۔۔۔ وغیرہ وغیرہ کے نام شامل تھے۔
لیکن اگر اب لوگ صحافیوں کو ’دائی‘ سمجھتے ہیں تو بھی غلط نہیں سمجھتے۔ یہ ’’داعی اِلی الخیر‘‘ کی بجائے ’’دائی علی الخبر‘‘ قسم کے صحافی صاحبان تو دیگردائیوں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔ یہ دوسروں ہی کے بطن سے نہیں اکثر اپنے بطن سے بھی خبریں تولّد کروالاتے ہیں۔
کہاں گم ہوئے۔۔۔؟
دِن تاریخ اور سَن وسال تو کیا ہم صدی بھی نہیں بتا سکتے کہ ’’لیڈر‘‘ کب ایجادہوئے اور کس نے ایجاد کیے؟ مگر خیر اب یہ ایجاد ہو چکے ہیں اوراِن سے کسی فردِ بشر کو مفر نہیں۔ ’’مفر‘‘ شاید فرارہونے (کے حق) کو کہتے ہیں۔ فرارہونے کا حق بھی لیڈروں کو تو حاصل ہے، مگر اُن کو نہیں کہ ۔۔۔’ جن کے سرسے کھیل کر ہوتاہے سرداروں کانام‘ ۔۔۔ لیڈروں کے یہ ’’پلیڈر‘‘ بے چارے اگر فراربھی ہوں گے تو جائیں گے کہاں؟ بہت سے بہت اگر ایک لیڈر کو’یوسفِ بے کارواں‘ کرکے اُس کے پیچھے سے فراربھی ہوئے تو کسی دوسرے لیڈر کا پیچھاپکڑکے اُس کے حق میں نعرے مارتے نظرآئیں گے۔ اور کہاں جائیں گے؟ ان بِچاروں کی تقدیر میں تو صرف نعرے ہی مارنے لکھے ہیں۔لیڈری کی صنعت بھی بُتانِ آذری کی صنعت سے کچھ کم نہیں۔اقبالؔ کو گلہ ہی رہ گیا:
یہ بتانِ عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراشِ آذرانہ
مدرسہ سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اقبالؔ کی مُراد دینی مدارس سے تھی جہاں بقولِ لیڈرانِ کرام ’’دہشت گرد‘‘ تراشے جاتے ہیں۔اقبالؔ کی مُراد ’لادینی مدارس‘ سے تھی کہ جن کی بابت فرمایا:
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تِرا
کہاں سے آئے صدا لا اِلٰہ اِلا اﷲ
سو،اِنھی ’گھٹے ہوئے گلوں‘ والے اب گلاپھاڑ پھاڑ کرصدائے لااِلٰہ کے خلاف بھاشن دینے والے بن گئے ہیں۔اب یہی اس قوم کے معلم ہیں، یہی مصلح ہیں، یہی ملاح ہیں اور یہی ’’لیڈر‘‘۔۔۔ ’’لیڈر‘‘جو فقط اخبارات میں بیانات دیتے ہیں، ٹاک شوز میں گرجتے برستے ہیں، ٹی وی چینلز پر انٹرویو ز دیتے ہیں اور اپنے اوپر اعتماد کرنے والے سادہ لوح افرادِ قوم کو دھوکا۔سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بے غرض لوگ کیا ہوئے؟:
کہاں گم ہوئے وقت کی وسعتوں میں
چڑھے پانیوں میں اُتر جانے والے
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
ایک ہمیں ہی نہیں یہ شکوہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کو بھی تھا:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
مولانا کی زبان توکچھ زیادہ ہی معرب اور مفرس تھی۔کون سمجھتا؟ مگرآج تو ’’معرب‘‘ اور’’مفرس‘‘ جیسے الفاظ سمجھنے والا بھی اگرکوئی ملے گا تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے ملے گا۔مولانا الطاف حسین حالیؔ کے زمانے کی عربی وفارسی توکیا آج اس ملک میں اس ملک کی مروجہ زبان لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے والے بھی خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں ایک خاص اہتمام ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ جب تک آپ اپنی ’زخمی زبان‘ کی ’’ڈریسنگ‘‘(انگریزی الفاظ سے) نہ کرلیں لوگ ہونقوں کی طرح (اپنا) مُنھ کھولے کھڑے حیرت سے (آپ کا) مُنھ تکتے رہتے ہیں کہ یہ شخص:
بک رہا ’ہے‘ جنوں میں کیا کیا کچھ
مثلاً ذرا آپ صرف چند برس پہلے تک استعمال ہونے والے الفاظ کسی سے (بغیر کسی ’’ڈریسنگ‘‘ کے) بول کر دیکھ لیجیے کہ:
’’اُس کی بیوی تپ دق کا شکار ہوگئی ہے ۔۔۔ ہمیں جوہری توانائی کی مدد سے اپنی برقی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے ۔۔۔ یا ۔۔۔ بلدیہ عظمیٰ نے نظامتِ تعلیمات پر عائد محصول معاف کردیا۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
تو آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ سمجھے کچھ بھی نہیں۔شایدایسی ہی صورتِ حال دیکھ کر مرزاغالبؔ بھی خالقِ لفظ وبیان سے فقط یہ طعن آمیز دُعامانگ کرایک کنارے ہوگئے تھے:
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
مگرہمارے ایک شاعر کے لیے تو یہ صورتِ حال دردِ شکم کاسبب بھی بن گئی۔سو اُنہیں جب کہیں سے کچھ اِفاقہ نہ ہوا تو قبرستان جاکر اپنا کلام پڑھ آئے:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہلِ قبور! ایک غزل لکھی ہے
(ابو نثر کا کالم، نئی بات 28 ستمبر 2013ء)
 
Top