لاریب مرزا
محفلین
ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیے
صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیے
آنکھوں میں امڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیے
کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
روشن ترائیوں سے اترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیے
امجد ان اشکبار زمانوں کے واسطے
اک ساعتِ بہار کا نذرانہ چاہیے
صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیے
آنکھوں میں امڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیے
کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
روشن ترائیوں سے اترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیے
امجد ان اشکبار زمانوں کے واسطے
اک ساعتِ بہار کا نذرانہ چاہیے