حاتم راجپوت
لائبریرین
امریکہ کا مشہور ڈاکٹر ،دیپک چوپڑا اپنے قیمتی مشوروں سے لوگوں کو زندگی بسر کرنے کے ڈھنگ سکھاتا ہے۔اس کا قول ہے:’’آپ اپنی سوچ،رویّوں،طرز حیات اور کھانے پینے کی عادات کو مثبت رخ دے کر عمر کے 30تا 40 برس بڑھا سکتے ہیں۔‘‘ درج بالا قول سولہ آنے سچ ہے۔انسان اگر اچھی سوچ رکھے، صحت بخش غذا کھائے،متحرک رہے اور نیند پوری لے،تو تندرستی کی لازوال دولت پا سکتا ہے۔تاہم صحت پانے کے چکر میں روزمرہ معمولات انجام دیتے بہت سے لوگ ایسے عمل بھی اپنا لیتے ہیں جو فائدہ کم،نقصان زیادہ پہنچاتے ہیں۔ذیل میں انہی اعمال کا تذکرہ پیش ہے اور انھیں درست طریقے سے اپنانے کا سلیقہ بھی! دانت برش کرنا بچوں بڑوں میں یہ نظریہ مقبول ہو چکا کہ ہر کھانے کے بعد دانت برش کرنے چاہئیں تاکہ وہ جراثیم سے پاک رہ سکیں۔مسئلہ یہ ہے،بہت سی غذائیں ہمارے دانتوں پہ تیزابی اثرات مرتب کرتی ہیں۔چناں چہ تیزاب کی موجودگی سے دانتوں کی حفاظت کرنے والا قدرتی مادے،اینمل کمزور پڑ جاتاہے۔ لہذا جب ہم کھانے کے فوراً بعد دانت برش کریں،تو کمزور ہوئے اینمل کا کچھ حصہ اتر سکتا ہے۔اور جب اینمل نہ رہے ،تو ہمارے دانت بھربھرے ہو کر بوسیدگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔اس خرابی سے بچنے کا طریق کار یہ ہے کہ کھانے کے بعد صرف کُلی کیجیے تاکہ دانتوں میں پھنسے غذائی ریشے باہر نکل جائیں۔جبکہ صرف رات اور صبح کو نرمی سے دانت صاف کریں۔ مزید براں جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے ، دانت صاف کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ برش کو دانتوں پہ گھمایا جائے۔یوں دانتوں اور مسوڑھوں سے چمٹے جراثیم دور ہو جاتے ہیں۔جبکہ دائیں بائیں یا اوپر نیچے برش کرنے سے نہ صرف جراثیم صحیح طرح صاف نہیں ہوتے، بلکہ مسوڑھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ایک وقت کا کھانا چھوڑنا کئی مرد وزن ناشتہ یا دوپہر کا کھانا یہ سوچ کر نہیں کھاتے کہ وہ اگلے وقت کھا لیں گے۔ایسے لوگ مصروف یا پھر کم کھا کر وزن کم کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ مگراس چلن میں خرابی یہ ہے کہ غذا نہ ملے،تو نہ صرف ہماری بھوک بڑھتی ہے،بلکہ ہمارا جسم بے چینی کا بھی اظہار کرتا ہے۔اسی لیے انسان عموماً بعد ازاں ایک آدھ چپاتی زیادہ کھا جاتا اور یوں موٹاپے کو دعوت دیتا ہے۔ صحیح طریق یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ ناشتہ کیجیے اور دوپہر کا کھانا کھائیے۔یوں رات کو آپ دسترخوان پہ بیٹھے،تو ہرگز یہ تمنّا نہیں کریں گے کہ پلیٹ سالن سے بھر لیں۔ بوتل والا پانی پینا ہمارے ہاں بوتل والا(Bottled)پانی پینے کا رواج جڑ پکڑ چکا۔وجہ یہی کہ نلکے کے پانی کو جراثیم آلودہ اور گندا سمجھا جاتا ہے۔مگر بوتل والے پانی کا نقصان یہ ہے کہ اس میں فلورائڈ موجود نہیں ہوتا۔یہ قدرتی نمک ہمارے دانتوں کو شکست و ریخت سے بچاتا ہے۔اسی باعث ماہرین طب اب مشورہ دیتے ہیں کہ واٹر فلٹر سے نکلا پانی نوش کیجیے۔فلٹر پانی کو تمام جراثیم اور آلودگی سے پاک کر دیتا ہے،مگر اس میں موجود فلورائڈ ضائع نہیں کرتا ۔ ایروبک ورزش کرنا بہت سے لوگ ایروبک(Aerobics) ورزشوں مثلاً پیدل چلنے،سائیکل چلانے ،تیرنے یا دوڑنے کے ذریعے خود کو فٹ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔مگر اس نظام ِورزش کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا جسم جب ایروبک ورزشوں کا عادی ہو جائے،تو کم چکنائی جلانے لگتا ہے۔سو تب وہ سود مند نہیں رہتیں۔ اس خرابی سے بچنے کا گُر یہ ہے کہ ہفتے میں ایک دن صرف اناایروبک(Anaerobic)ورزشیں کیجیے۔ان میں وزن اٹھانے والی سبھی ایکسرسائزیں شامل ہیں۔یوں انسانی بدن ایروبک ورزش کا عادی نہیں بن پاتا اور وہ صحت پہ خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے ۔ ملٹی وٹامن گولیوں کا استعمال آج خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین و حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ فارمی غذائوں میں غذائیت (وٹامن و معدنیات)نہیں ہوتی۔سو وہ ملٹی وٹامن گولی تقریباً روزانہ کھا کر مطلوبہ غذائیت پانے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیق انکشاف کر چکی کہ فارمی اور دیسی غذائوں میں ذائقے کا فرق تو ہوتا ہے،غذائیت کے معاملے میں وہ تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔اسی لیے وٹامن والی گولیوں کا خصوصاً روزانہ استعمال نقصان دہ بھی بن سکتا ہے۔وجہ یہ کہ جب انسانی بدن میں بعض وٹامن یا معدنیات کثیر تعداد میں جمع ہو جائیں،تو وہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پہ وٹامن اے کی زیادتی شکم میں نشوونما پاتے بچے کو معذور بنا سکتی ہے۔وٹامن سی کی سطح بڑھ جائے،تو وہ معدے کا نظام تہ وبالا کر ڈالتا ہے۔وٹامن بی کی زیادتی سے ہمارے اعصاب پہ بُرا اثر پڑتا ہے۔ درج بالا خرابیوں کے باعث ہی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ مطلوبہ غذائیت ملٹی وٹامن گولیاں نہیں صحت بخش خوراک کھا کر حاصل کیجیے۔حتی کہ جسم میں کسی وٹامن یا معدن کی کمی ہو جائے،تو ایسی غذائیں کھائیے جن میں وہ بکثرت ملتا ہو۔مثلاً آپ میں کیلشیم کی کمی ہے،تو پالک کھائیے یا دودھ پیجئیے۔گولیاں کھانی ہی ہیں،تو صرف ڈاکٹر کے مشورے سے کھائیے۔ ٭…٭…٭
روزنامہ دنیا۔