محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
اس رومانوی اور سحر انگیز سرزمین سے تھرکول پروجیکٹ کی شکل میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا سورج طلوع ہورہا ہے ۔ چند ہی سالوں بعد نہ صرف سندھ، بلکہ پاکستانیوں کی قسمت میں ایک بہت بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ اگرچہ بزرگوں کے زمانے سے نیم کے درخت کی بڑی تعریفیں سنتے آئے ہیں، لیکن ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی نے اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسس میں نیم کے جو فوائد گنوائے ہیں، اس کے بعد سے ہمیں بھی نیم کے درخت کو قریب سے دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہوا، چاہے اس کے نیچے کوئی کھڑا ہو یا نہ ہو۔
گزشتہ ہفتے تھرجانےکااتفاق ہوا۔ہماری اصل منزل اور پڑائو ننگرپارکر تھا، اس لیے کراچی سے ٹھٹھہ، سجاول، بدین، مٹھی، اسلام کوٹ اور ویراواہ ہوتے ہوئے دن کے ڈھائی بجے سندھ ٹورازم کے نو تعمیر ریسٹ ہائوس ’’روپلو کوہلی ریزورٹ‘‘ میں ٹھہرے ۔ہمارے ذہن میں یہ تصور تھا کہ مٹھی کے بعد سے سارا علاقہ خشک ریگستان ملے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سارے راستے بہت بڑی تعداد میں نیم، ببول اور پیُروں کے درخت نظر آئے۔
پیروں میں نارنجی رنگ کا ایک میٹھا پھل لگتا ہے، جسے جانوروں کے ساتھ ساتھ انسان بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ان تینوں درختوں کی بڑی ادویاتی اہمیت ہے، ان پر ریسرچ کے بعد ان سے کئی کارآمد اور مفید ادویات تیار کی جاسکتی ہیں۔ سنتے تھے کہ تھر میں بجلی نہیں ہے، لیکن ہمیں مٹھی سے ننگرپارکر تک سڑک کے ساتھ ساتھ بجلی کے کھمبوں کی قطاریں نظر آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں کام ہوا ہے اور بجلی پہنچادی گئی ہے۔
اس ریزورٹ میں دس وی آئی پی کمرے اور دس نان اے سی کمرے ہیں، جو بہترین ٹائلوں اور پردوں سے مزین ہیں۔ ڈائننگ ہال اور میٹنگ ہال ہیں۔ کمروں میں بہترین صوفہ سیٹ، کارپٹ، فریج، ڈش ٹی وی، ٹھنڈے اور گرم پانی کی سہولتیں موجود ہیں۔
بجلی جانے کی صورت میں جنریٹر کا انتظام بھی ہے۔ مناسب داموںمیں کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ ریزورٹ ننگرپارکر شہر سے آٹھ کلومیٹرپہلے تعمیر کیا گیا ہے، اس کی تعمیر کا سہرا سندھ کے وزیر ثقافت و سیاحت اور آثار قدیمہ سردار علی شاہ اور ڈی جی ٹورازم روشن قناصرو کے سر ہے، جنہوں نے اس دور افتادہ اور ویران علاقے میں سیاحت کے فروغ کی خاطر یہ جدید ترین سہولتیں فراہم کیں۔ دوپہر کا کھانا کھانے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد ہم قابل دید مقامات دیکھنے کےلیے روانہ ہوئے۔
ہماری رہنمائی کےلیے سندھ ٹورازم کے اسسٹنٹ پرکاش اور مولا بخش ہمراہ تھے۔ ہم ننگرپارکر بازار سے گزرتے ہوئے، پاکستان کے آخری سرحدی شہر کاسبو پہنچے۔ تھر کی مقامی زبان سندھی نہیں، بلکہ ڈھاٹکی ہے، جو سندھی سے مختلف ہے، البتہ ویراواہ سے آگے ننگرپارکر اور کاسبو کی زبان پارکری ہے۔
کاسبو کی خاصی بڑی آبادی ہے اور یہاں سے بھارت کی سرحد صرف چھ کلومیٹر دُور ہے۔ کاسبو شہر لمبوتری شکل میں سرحد تک چلا گیا ہے۔یہاں رام پیر کا جین مندر بھی ہے، جس کے آس پاس کھلے مقامات پر ہمیں بہت سے مور ٹہلتے نظر آئے، جو ایک قابل دید منظر تھا۔ نہ صرف ننگرپارکر شہر، بلکہ مجموعی طور پر تھر میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔
نگرپارکر شہر کے ساتھ ساتھ کارونجھر چل رہا تھا۔ شہر کے درمیانی حصے سے جب اندر داخل ہوئے تو ایک اور تاریخی جین مندر دیکھا جو ایک ہزار سال پرانا ہے، اس کے بعد ہماری منزل سوردھرو کا تاریخی مقام تھا، جہاں پہنچنے کےلیے کارونجھر کے درمیان حصے میں اونچے نیچے مقامات سے گزرنا تھا۔ دونوں اطراف بلند کارونجھر تھا اور درمیان میں سے برساتی نالہ بہہ رہا تھا۔
گائیڈ پرکاش نے بتایا کہ کارونجھر کے اوپری حصے میں میٹھے پانی کے چشمے ہیں، جن سے پانی بہہ کر نیچے آتا ہے،جس سے مقامی آبادی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس جگہ محکمے نے دو باتھ روم، ایک اسٹور اور سیڑھیوں کا تھلہ تعمیر کیا ہے، تاکہ سیاحوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔سوردھرو کے علاقے میں تین الگ الگ مندر ہیں، واپسی کے سفر میں ہم نے کارونجھر کا باہر کی طرف سے نظارہ کیا، بعدازاں ریزورٹ واپس آگئے۔
دوسری صبح ہمیں بھوڈیسر کی چھ سو سالہ مسجد اور آٹھ سو سالہ جین مندر دیکھنا تھے، جن کی تعداد چار تھی۔ بھوڈیسر کی مسجد ننگرپارکر شہر جانے والی سڑک کے کنارے سے دو کلومیٹر اندر کی طرف ہے۔
جھوٹ، منافقت، مکاری اور چالبازی سے پاک تہذیب اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک ماحول۔ واپسی کے سفر میں ہمیں ماروی کی یادگار دیکھتے ہوئے کچھ دیر مٹھی شہر میں بھی ٹھہرنا تھا۔
ننگرپارکر اور اسلام کوٹ کے درمیان ہمیں بہت سے مقامات پر بہت خوبصورت سفید مٹی کے ذخائر نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ اس سے سرامکس کے برتن بنتے ہیں۔ اگر اس مٹی کو باقاعدہ صنعت کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس علاقے کی معیشت میں بہتری اور خوشحالی آسکتی ہے۔
ننگرپارکر میں قیام کے دوران ہمارے موبائل فونز میں سگنل نہیں آرہے تھے اور یہ بات سیاحت کےلیے آنے والوں کےلیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس علاقے میں بوسٹرز کی تعداد میں اضافہ کرکےاس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ سیاحت کے فروغ کےلیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
ایک اور بات دوران سفر محسوس ہوئی وہ یہ کہ کراچی سے مٹھی تک سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سنگ میل (مائل اسٹونز) باقاعدگی سے لگے ہوئے ہیں، لیکن مٹھی کے بعد، خاص طور سے اسلام کوٹ اور ننگرپارکر کے درمیان ایک بھی سنگ میل نظر نہیں آیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چونکہ سڑک زیرتعمیر ہے، اس لیے یہ نہیں لگائے گئے، چونکہ سڑک کی تعمیر میں تو خاصا وقت لگے گا، اس لیے کم سے کم عارضی طور پر سہی فاصلے معلوم کرنے کی کوئی صورت نکال لی جائے۔
اس یادگار کی تعمیر کا سہرا سابق وزیر ثقافت و سیاحت سسئی پلیجو اور سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی کے سر ہے۔ اگر ایسے مقامات کو ترقی دی جائے، ان کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو سندھ میں سیاحت کو بڑا فروغ حاصل ہوسکتا ہے، اس سفر کے دوران ایک بات یہ اچھی لگی کہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے محکموں نے اپنے اپنے دائرہ کار اور مقامات پر اہم اور ضروری معلومات و ہدایات پر مبنی سائن بورڈز نصب کئے ہیں، لیکن ان میں مزید بہتری لانے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کوٹ سے گزرکر مٹھی کے ماروی ریسٹ ہاؤس میں تھوڑی دیر کےلیے رکے اور دوپہر کا کھانا کھایا۔ آج کل اس ریسٹ ہاؤس میں دس کمروں کی توسیع ہورہی ہے، اس کے بعد سیاحوں کو بڑی سہولت ہوجائے گی۔ رات کی سیاہی پھیل رہی تھی اور ہم تھکے ماندے غنودگی کی حالت میں تھے کہ کانوں سے تھر کی غنائی آواز ٹکرائی۔
جادڑو پدھاڑو منے چھنی منی دیکھ لے
اے راستے سے جانے والے مسافر مجھے چھپ چھپ کر دیکھ لے
رضی الدین خان