صحرا میں ساحل چاہتا ہے غزل نمبر 102 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
فعْلن فعْلن فعْلن فَعِلن

صحرا میں ساحل چاہتا ہے
پاگل ہے یہ دِل چاہتا ہے

اک وقت کی روٹی مل جائے
بس اور کیا سائل چاہتا ہے

بے نُور کو آنکھوں کی چاہت
ہر راہی منزل چاہتا ہے

راتوں کا مسافر اے اللہ
اِک ماہِ کامل چاہتا ہے

یہ مفلس بس کچھ اور نہیں
اِک حاکم عادل چاہتا ہے

یہ شاعر غمِ معاش میں ہے
اچھا مستقبل چاہتا ہے

جینے کی دُعائیں ساتھ مرے
مجھے مارنا قاتل چاہتا ہے

کب دنیا عشق کے ساتھ رہی؟
کب حق کو باطل چاہتا ہے؟

اے دل کیوں عشق میں اُلجھا ہے؟
کیا اور مسائل چاہتا ہے؟

حاسد لوگوں کے رستے میں
دیواریں حائل چاہتا ہے

ہیں کام عذابوں کے اے دِل
رحمت ہو نازل چاہتا ہے

افسردہ ہے اِک پُھول بہت
آوازِ عنادل چاہتا ہے

شارؔق تُو بھی کہہ ڈال غزل
گر رنگِ محفل چاہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
صحرا میں ساحل چاہتا ہے
پاگل ہے یہ دِل چاہتا ہے
.. دوسرے مصرعے میں ردیف زائد لگتی ہے

یہ مفلس بس کچھ اور نہیں
اِک حاکم عادل چاہتا ہے
... مفلس ہی کیوں، یہ سمجھ میں نہیں آیا

یہ شاعر غمِ معاش میں ہے
اچھا مستقبل چاہتا ہے
..یہاں بھی شاعر ہی کیوں؟ . پہلے مصرع میں بھی ہے ردیف غلط مانی جا سکتی ہے

جینے کی دُعائیں ساتھ مرے
مجھے مارنا قاتل چاہتا ہے
.. پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہوتی،
جینے کی دعا ہے ساتھ مرے

اے دل کیوں عشق میں اُلجھا ہے؟
کیا اور مسائل چاہتا ہے؟
.. وہی پہلے مصرع میں" ہے"
کیوں عشق میں الجھا ہے اےدل

بباقی درست لگ رہی ہے غزل
 
Top