جاسم محمد
محفلین
صدارتی ریفرنس پر حکم کےخلاف جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور
حسیب بھٹی | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 26 اپريل 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر حکم کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور کر لی۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں 6، 4 کے تناسب سے منظور کیں۔
چھ جج صاحبان جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی محمد امین، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ تمام درخواستیں منظور کیں، اس لیے فاضل جج کی اپیل 5، 5 کے تناسب سے برابر رہی۔
اکثریتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کی جائیدادوں سے متعلق ایف بی آر سمیت تمام فورمزکی قانونی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی عدالتی فورم پر چیلنج نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔
عدالت نے اپنے حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجے کا فیصلہ سنایا تھا۔
درخواست پر سماعت
قبل ازیں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمٰن نے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے نہ کونسل کو کسی مواد کا جائزہ لینے سے روکا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ بھی صرف غیر معمولی حالات میں کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا کہ کیا آپ شکایت کنندہ ہیں؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ اور حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ پر اگر ہم آبزرویشن دیں تو کیا جوڈیشل کونسل پر اثر نہیں پڑے گا۔
وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ رولز کے مطابق سپریم کورٹ کو سوالات پوچھنے کا اختیار ہے، عدالت بعض حقائق کی پڑتال کے لیے بیان حلفی بھی مانگ سکتی ہے، سپریم کورٹ کے 3 سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں، جسٹس فائز عیسٰی جواب دیں تو تنازع حل ہوسکتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسٰی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں، معزز جج اورعدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
عدالتی استفسار پر عامر رحمٰن نے بتایا کہ کمر میں تکلیف کے باعث فروغ نسیم نے کل دلائل دینے کی استدعا کی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم کو کہیں تحریری دلائل جمع کرا دیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب کے لیے بہت کوشاں ہیں، دونوں ججز اپنے اور اپنی بیگمات کے اثاثے پبلک کریں۔
عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلہ کب سنائیں گے آدھے گھنٹے بعد بتائیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست اکثریتی فیصلے سے منظور کر لی۔
حسیب بھٹی | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 26 اپريل 2021
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو / سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر حکم کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور کر لی۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں 6، 4 کے تناسب سے منظور کیں۔
چھ جج صاحبان جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی محمد امین، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ تمام درخواستیں منظور کیں، اس لیے فاضل جج کی اپیل 5، 5 کے تناسب سے برابر رہی۔
اکثریتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کی جائیدادوں سے متعلق ایف بی آر سمیت تمام فورمزکی قانونی کارروائی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی عدالتی فورم پر چیلنج نہیں ہوسکتی۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔
عدالت نے اپنے حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجے کا فیصلہ سنایا تھا۔
درخواست پر سماعت
قبل ازیں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمٰن نے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے نہ کونسل کو کسی مواد کا جائزہ لینے سے روکا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ بھی صرف غیر معمولی حالات میں کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا کہ کیا آپ شکایت کنندہ ہیں؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ اور حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ پر اگر ہم آبزرویشن دیں تو کیا جوڈیشل کونسل پر اثر نہیں پڑے گا۔
وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ رولز کے مطابق سپریم کورٹ کو سوالات پوچھنے کا اختیار ہے، عدالت بعض حقائق کی پڑتال کے لیے بیان حلفی بھی مانگ سکتی ہے، سپریم کورٹ کے 3 سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں، جسٹس فائز عیسٰی جواب دیں تو تنازع حل ہوسکتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسٰی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں، معزز جج اورعدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
عدالتی استفسار پر عامر رحمٰن نے بتایا کہ کمر میں تکلیف کے باعث فروغ نسیم نے کل دلائل دینے کی استدعا کی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم کو کہیں تحریری دلائل جمع کرا دیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب کے لیے بہت کوشاں ہیں، دونوں ججز اپنے اور اپنی بیگمات کے اثاثے پبلک کریں۔
عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظرثانی کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے قرار دیا کہ فیصلہ کب سنائیں گے آدھے گھنٹے بعد بتائیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست اکثریتی فیصلے سے منظور کر لی۔