نور وجدان
لائبریرین
آواز کا کردار بُہت اہم ہے ، اس نے کہیں دو دلوں کو ملایا ہے تو کہیں اسی آواز کی بدولت ایسی تباہیاں مچائی گئیں ہیں کہ دل لرزتے لزرتے سہم سے جاتے ہیں جبکہ کہیں پر یہ تھم بھی جاتے ہیں، دل تھم گیا تو بندہ گیا. ... آواز کو اگر صدا سے معتبر کردیا جائے تو صدیاں یک بیک اک زمانہ بن جاتی ہیں اور کہیں پے زمانہ پلٹ کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی مستقبل کی اڑان بھرنے لگتا ہے. نغمہ ء گُل ہو کہ آہو، دونوں (صدا اور آواز) بصورتِ راگ، بہ آہنگ ساز باہم ہوں تو قیامت دلوں پر نزول ہوجاتی ہے۔ تان سین کے بارے میں سُنا تھا کہ راگ میں جادوئی، سحر کی بدولت پانی آگ ہوتا جاتا! تو سوچیے دلوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ یہ تو گائیک نے گایا سر و تال پر کہ حاضرین تو حاضرین، پتا، پتا، بوٹا، بوٹا جھوم اٹھا ...
آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے گا کوئی. یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ۔ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے
"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے! "
"میرا فن لاجواب! باکمال ایسا کہ جس جس نے یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی "حاش للہ" کہے اور ہو حسن کا رعب طاری ..... "
"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے تال میل ہوجاتے ہی کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...! بس یہ لفظ! ہائے، ان کی صدا نے مار ڈالا، چیر ڈالا! "
"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "
تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں. پوچھیے! جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے، نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار کو دریا کرتے رہے. میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے
آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے گا کوئی. یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ۔ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے
"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے! "
"میرا فن لاجواب! باکمال ایسا کہ جس جس نے یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی "حاش للہ" کہے اور ہو حسن کا رعب طاری ..... "
"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے تال میل ہوجاتے ہی کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...! بس یہ لفظ! ہائے، ان کی صدا نے مار ڈالا، چیر ڈالا! "
"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "
تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں. پوچھیے! جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے، نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار کو دریا کرتے رہے. میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے