صدر آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ محمد عادل منہاج

عادل

معطل
صدر آرہے ہیں محمد عادل منہاج

’فوری طور پر خون کا بندوبست کرنا ہوگا‘ڈاکٹر نے فکرمندی سے کہا
’میرا تو گروپ ہی دوسرا ہے ڈاکٹر صاحبآپ ہی کہیں سے بندوبست کریں‘فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں بولے
’ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون نہیں ہےآپ ایسا کریں بلڈ بنک چلے جائیں اور اپنا خون دے کر بی پلس کی دو بوتلیں لے آئیں‘ڈاکٹر بولا
’ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب میں جاتا ہوں‘ فرقان بیگ نے کہا
’بس جلدی کریں تا کہ آپریشن شروع کیا جا سکے‘ڈاکٹر نے کہا اور فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں تقریبا دوڑتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلےآج ہی انھیں دفتر میں اطلاع ملی تھی کہ ان کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہےوہ افراتفری کے عالم میں ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ بھائی کی حالت نازک ہےاس کا کافی خون بہ چکا تھا اور فوری آپریشن کرنا تھامگر ہسپتال میں بی پلس گروپ کا خون موجود نہیں تھااب وہ تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے بلڈ بنک کی طرف جا رہے تھےاچانک انھیں بریک لگانا پڑےسڑک پر گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی انھوں نے دیکھا کہ اشارہ کھلا تھا مگر پولیس والوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی ’نہ جانے کیا مسئلہ ہے؟‘وہ پریشانی کے عالم میں بڑبڑائےاور کار سے نیچے اترے اور ایک سارجنٹ کی طرف بڑھے ’یہ سڑک کیوں بند کر رکھی ہے‘انھوں نے پوچھا
’صدر صاحب آرہے ہیں ان کے گزرنے کے بعد سڑک کھلے گی‘سارجنٹ بولا اب فرقان بیگ کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگر انھیں تو فورا بلڈ بنک پہنچنا تھا ’کب تک گزریں گے صدر صاحب؟‘انھوں نے فکرمندانہ لہجے میں پوچھا
’پتہ نہیں صاحب ابھی تو ان کا جہاز بھی نہیں پہنچا‘وہ بولا
’اور سڑک ابھی سے بند کر دی ہےدیکھو بھئی مجھے فوری طور پر بلڈ بنک پہنچنا ہےمیرے بھائی کا آپریشن ہونا ہےمجھے اس کے لئے خون کا بندوبست کرنا ہے‘فرقان بیگ بولے
’میں کیا کرسکتا ہوں ہمیں تو یہی آرڈر ہےجب تک صدر صاحب نہ گزر جائیں سڑک بند رہے گی‘وہ بولا فرقان بیگ پریشانی کے عالم میں واپس مڑےان کی کار کے پیچھے بھی کئی گاڑیاں لگ چکی تھیںاب وہ واپس بھی نہیں مڑ سکتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد کو پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھیآج اس کا آخری پرچہ تھااور اسے پورے نو بجے یونیورسٹی پہنچنا تھاآج کل ویسے ہی حالات خراب تھےیونیورسٹی میں بھی رینجرز کا پہرہ تھا جو وقت کے بعد کسی کو اندر نہیں جانے دیتے تھےاس کا گھر بھی شہر سے کافی دور تھاجہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے خاصے مسائل تھےاس لیے وہ صبح سات بجے ہی گھر سے نکل جاتاآدھے گھنٹے کی واک کے بعد اسٹاپ پر پہنچتاوہاں بھی گاڑی ملنے میں خاصا وقت لگ جاتاتب کہیں جا کر وہ یونیورسٹی پہنچتااور آج تو اسے گھر سے نکلنے میں ہی ساڑھے سات بج گئے تھےوہ تقریبا دوڑتا ہوا بس اسٹاپ کی طرف جارہا تھا7:50 پر وہ اسٹاپ پر پہنچ گیاوہاں سواریوں کا کافی رش تھاصبح صبح سب اسکول کالج اور آفس جانے کے لیے جلدی میں ہوتے ہیںلہذا جونہی کوئی وین آتی سب اس پر ٹوٹ پڑتےایک دوسرے کو بے دردی سے دھکے دیتے اور خود پہلے گھسنے کی کوشش کرتےلائن لگانے کی کوئی زحمت نہ کرتاکیونکہ ایسے کام باشعور قومیں کرتی ہیںارشد نے گھڑی پر نظر ڈالی8:10 ہو چکے تھے ’یا اﷲ جلدی سے کوئی وین بھیج دے‘وہ بے چینی سے بڑبڑایا پھر ایک وین اور آتی نظر آئیاس نے بھی تہیہ کر لیا کہ اب اندر گھس کر رہے گاپھر وین کے رکنے سے بھی پہلے وہ اس کی طرف دوڑا اور دھکم پیل میں بالاخر اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیالوگ بھی دھڑادھڑ اندر گھس گئے
اس کا دم گھٹنے لگا مگر یہ تو روز کا معمول تھاوین چلی تو اس نے سکون کا سانس لیا اب وہ نو بجے تک یونیورسٹی پہنچ سکتا تھاوین اپنے راستے پر تھی کہ اچانک بریک لگے اور وین رک گئی پھر جب خاصی دیر تک وین نے چلنے کا نام نہ لیا تو سب سواریاں چلانے لگیں ’راستہ بند ہے بھائی پولیس نے سڑک بند کر رکھی ہے‘کنڈکٹر بولا اندر ٹھنسی ہوئی سواریاں باہر نکلنے لگیںارشد نے بھی باہر نکل کر دیکھا سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار لگی تھیاور آگے سڑک بلاک تھی ’آخر مسئلہ کیا ہے؟‘ایک صاحب بولے
’صدر صاحب آرہے ہیں‘ایک کار سے سر نکال کر ایک بزرگ بولے تو ارشد کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگراسے تو فورا یونیورسٹی پہنچنا تھااب وہ کیا کرتایہاں تو سب پھنسے ہوئے تھے
’یااﷲجلدی سے راستہ کھلوادے‘اس نے بے بسی سے دعا کی
۔۔۔۔۔۔۔
بشیر خاصا پریشان تھادو ہزار ماہوار کی نوکری اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ۔تنخواہ پہلے ختم ہو جاتی اور مہینہ بعد میںہر ماہ کے آخری پندرہ دن خاصی مشکل سے گزرتےاوپر سے ایک افتاد اور آپڑی تھی وہ جس دفتر میں چپڑاسی تھا وہ اس کے گھر سے 60کلومیٹر دور تھاپہلے وہ گاؤں سے پیدل مین روڈ تک جاتا وہاں سے تانگے میں بس اسٹاپ پہنچتا اور پھر بس پکڑ کر بری مشکل سے دفتر پہنچتااس سارے عمل میں دو گھنٹے لگتےاسی لیے وہ صبح چھے بجے گھر سے نکلتا تاکہ آٹھ بجے دفتر پہنچ سکےمگر پھر بھی کبھی تانگہ دیر سے ملتا تو کبھی بسیوں اسے پہنچنے میں دیر ہو جاتی جس پر اسے باس سے روز جھاڑ پڑتی اسے بشیر کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھیوہ تو بس بشیر کو وقت پر دفتر میں دیکھنا چاہتا تھاکیونکہ وہ خود اپنی پجیرو میں وقت پر دفتر پہنچ جاتا تھاکل ہی اسے باس نے دھمکی دی تھی کہ اگر آج بھی وہ لیٹ ہوا تو اس کی چھٹی کر دی جائے گیاسی لیے وہ پریشانی میں رات صحیح سے سو بھی نہ سکااور صبح ناشتہ کیے بغیر ہی نکل کھڑا ہواتانگہ وقت پر ملنے پر اس نے اﷲ کا شکر ادا کیامگر اسٹاپ پر پہنچ کر بس نے آنے کا نام نہ لیاخدا خدا کر کے آدھے گھنٹے بعد بس آئی جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی وہ بھی دوسروں کی طرح چھت پر چڑھ گیا اور دعا کرنے لگا کہ بس اسے جلد دفتر تک پہنچادےبس چلی جا رہی تھی کہ ایک چوک پر جا کر رک گئی بشیر نے دیکھا کہ سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار تھیاور آگے راستہ بند کیا ہوا تھا ’کیا بات ہےیہ سڑک کیوں بند ہے؟‘بشیر نے پریشانی کے عالم میں پوچھا
’صدر صاحب آرہے ہیں‘سڑک کے کنارے کھڑے ایک شخص نے جواب دیاتو بشیر کو یاد آیا کہ اس سڑک سے دائیں طرف جاکر ائرپورٹ آتا ہے اور جب بھی کوئی وی آئی پی شخصیت آتی ہے تو یہ سڑک بند کر دی جاتی ہےمگراسے تو فورا دفتر پہنچنا تھااب وہ کیا کرے یہاں تو سب پھنسے ہوئے تھےوہ دعا کرنے لگا کہ صدر صاحب جلدی سے آکر گزر جائیں تاکہ راستہ کھلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سڑک پر گاڑیوں کی طویل قطار تھی سب کے چہروں پر جھنجھلاہٹ غصہ اور پریشانی تھی ہر زبان پر ایک ہی دعا تھی کہ صدر صاحب جلدی سے گزریں تاکہ ان کا راستہ بھی صاف ہواور وہ اپنے پھنسے ہوئے کام کر سکیںکسی کو ہسپتال پہنچنا تھا کسی کو اسکول کالج کسی کو آفس تو کسی کو ریلوے اسٹیشن مگرفی لحال سب لوگ صرف ایک شخص کے رحم و کرم پر تھے کہ کسی طرح وہ خیر خیریت سے گھر پہنچ جائے باقی سب کی خیر ہےخدا خدا کر کے آسمان پر ایک طیارے کی آواز سنائی دی سب کی نگاہیں آسمان پر لگ گئیںشکر ہے کہ صدر صاحب پہنچےاب سب کو انتظار تھا کہ وہ طیارے سے اتریں اور اس سڑک سے جلدی سے گزر جائیںدس منٹ بعد سائرن کی آوازیں گونجیں اور موٹر سائیکلوں پر سوار کمانڈوز گزرنے لگےان کے بعد کئی سائرن بجاتی ہوئی کاریں گزریںوہ جائزہ لے رہے تھے کہ سڑک پر کوئی ذی روح تو موجود نہیںایک چڑیا نے کسی کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے عین سڑک کے درمیان سے پرواز کی تو کمانڈو نے غصے سے گھور کر اس کی طرف دیکھااس کا بس چلتا تو اسے بھون ڈالتا مگر چڑیا تیزی سے آگے نکل گئی پھر ایک مہیب سناٹا چھا گیاہر طرف سے کلیئر کا سگنل ملا تو صدر صاحب کی گاڑی آتی نظر آئی ان کے آگے پیچھے دو دو کاریں اور دائیں بائیں موٹر سائیکل تھےسڑک دور دور تک سنسان تھی صدر کی کار کو کہیں بریک نہیں لگ سکتےانھوں نے ایک اچٹتی نگاہ دور کھڑی گاڑیوں کی قطار پر ڈالی اور یوں گزرتے چلے گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہوشاہی سواری گزر چکی تھیاب کوئی خطرہ نہیں تھااس لیے راستہ کھول دیا گیاگاڑیاں یوں نکلیں جیسے برسوں کی قید کے بعد قیدی باہر نکلے ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے فرقان بیگ بلڈ بنک پہنچے اور اپنا خون دے کر دو بوتلیں حاصل کیںاسی تیز رفتاری سے وہ واپس ہسپتال پہنچے
’ڈاکٹر صاحب میں خون لے آیا ہوں‘فرقان بیگ تیزی سے بولے
’مجھے افسوس ہے بیگ صاحب اب اس کی ضرورت نہیں رہی آپ نے بہت دیر کر دی ‘ڈاکٹر نے سر جھکا کر جواب دیا اور بوجھل قدموں سے آگے بڑھ گیافرقان بیگ کے ہاتھوں سے بوتلیں چھوٹ کر نیچے گر پڑیں
ارشد جب یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچا تو دس بج رہے تھےوہ ایک گھنٹہ لیٹ ہو چکا تھارینجرز نے اسے اندر جانے سے منع کر دیا
’دیکھیں راستہ بند تھاورنہ میں نو بجے پہنچ جاتاپلیز مجھے جانے دیںمیرا آخری پرچہ ہے‘اس نے التجا کی
’بک بک نہ کروہمیں اجازت نہیں ہےیہاں سے ہٹ جاؤ ورنہ اندر کردیں گے‘سپاہی نے اسے گیٹ سے ایک طرف دھکا دیاارشد کی آنکھوں میں آنسو آگئےاس کے پورے سال کی محنت ضائع ہو گئی تھی اس کے سہانے سپنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکے تھے
’تم آج پھر لیٹ ہوکیشیئر سے اپنا حساب کتاب لو اور چلتے نظر آؤ‘بشیر کے باس نے کہا تو اس کے ہوش اڑ گئے
’صاحب میں وقت پر پہنچ جاتا مگر پولیس نے راستہ ہی بند کر رکھا تھا‘بشیر نے گڑگڑاتے ہوئے کہا ’میں اس کا ذمہ دار نہیںناؤ گٹ آؤٹ اور دوبارہ مجھے اپنی شکل نہ دکھانا‘باس دھاڑا اور بشیر کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا
۔۔۔۔۔۔
صدر صاحب کامیاب غیر ملکی دورے سے لوٹ چکے تھےاگلے دن کے اخبارات ان کے دورے کی کامیابی سے بھرے پڑے تھےمگر کسی بھی اخبار میں یہ خبر شایع نہ ہوئی کہ ان کی آمد کی وجہ سے راستہ بند ہونے کے باعث
ایک شخص زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا
ایک طالب علم کا سال برباد ہو گیا
اور ایک گھرانہ فاقوں کا شکار ہو گیا
ختم شد
 
Top