صدقے ہماری خلیفہ ایردوان سے محبت کے

جاسم محمد

محفلین
صدقے ہماری خلیفہ ایردوان سے محبت کے
عدنان خان کاکڑ





ترک لیرا ڈوب رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ترک معیشت ڈوب رہی ہے۔ کیونکہ ترکی بھی جنرل ضیا الحق کی طرح اپنے ہمسایہ ملک میں تزویراتی گہرائی اور اپنے ملک میں داخلی شورش کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ اوپر سے امریکہ سے بھی پنگا لے لیا ہے اور ایک امریکی پادری اینڈریو برنسن کو مسلمان عالم فتح اللہ گولن کا پیروکار قرار دے کر اس پر ترک حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگا کر پینتیس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی ہے۔ اللہ اللہ، پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے، اب مسیحی پادری بھی اسلامی انقلاب لانے کی جد و جہد کرنے لگے ہیں۔

بہرحال اس سزا کا ٹرمپ نے بہت برا منایا ہے۔ ترکی کو دق کرنے لگا ہے۔ صدر ایردوان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لیرا اپنی بہت زیادہ قدر کھو چکا ہے جس میں سے 25 فیصد تو پچھلے ایک ہفتے میں کم ہوئی ہے۔ لیرا اس وقت نہایت تیزی سے ایک بجھی ہوئی ہوائی کی مانند زمین پر گر رہا ہے۔

خلیفہ ایردوان نے ترکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ لیرا خریدیں اور جواب میں جماعت اسلامی کے مجاہدین نے لبیک کہی ہے اور ایک دوسرے کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سب صالحین سو سو لیرے خرید لیں تاکہ ترک کرنسی کو کچھ سہارا ملے۔

ہم طبیعت کے کچھ وہمی ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ جو نیک دل افراد ترک معیشت کو سہارا دینے کے لئے لیرے خریدنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ یہ تو بتا دیں کہ کیا ہم ترکی سے لیرے روپے کے بدلے خریدتے ہیں یا ڈالر کے بدلے۔

اگر روپے کے بدلے خریدتے ہیں تو لیرے کا ریٹ تو ڈالر یورو وغیرہ جیسی ہارڈ کرنسیوں کے مقابلے میں گرا ہے۔ یعنی ہمارے ان کو کمزور لیرے کے بدلے کمزور روپیہ دینے سے ان کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اگر ہم لیرے کے بدلے ڈالر دینے جا رہے ہیں تو صدقے ہماری خلیفہ ایردوان سے محبت کے۔ ہمارا روپیہ خود اس وقت ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہا ہے اور ڈالر کے ذخائر بہت کم ہو چکے ہیں۔ ہم غریبوں کے پاس تو کل پندرہ بیس ارب ڈالر کے فارن ریزرو ہوتے ہیں اور ترکی کے پاس 2013 میں ایک کھرب بارہ ارب ڈالر (یا عمرانی گنتی میں 112 ارب ڈالر) کے ذخائر تھے۔ ہم غریب تو یہ سوچ رہے ہیں کہ چین یا سعودی عرب سے بھیک مانگنے کے مشن پر نکلیں کہ بھیا ہمارے ڈالر ختم ہو چکے ہیں ہمیں بچا لو، یا پھر بین الاقوامی مہاجن آئی ایم ایف کے پاؤں پڑ جائیں کہ صاحب ہمیں آپ کی تمام شرائط منظور ہیں، تیل گیس مہنگا کرنے کو کہتے ہو تو وہ کرتے ہیں، غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کو روٹی کا ریٹ ڈبل کرنے کو کہتے ہو تو ہم راضی ہیں، بس ستائیس ارب ڈالر ہمیں اپنی شرائط پر دے دو کہ ہم اپنا ملک چلا لیں۔ ان ستائیس ارب میں سے بارہ ارب تو ہمیں فوراً درکار ہیں۔

بھیا پہلے اپنا گھر تو سنبھالو پھر ترکی کی فکر میں دبلے ہونا۔ ہمیں ڈالر دے کر ہمارا روپیہ لو۔ تم الٹا یہ فرمائش کر رہے ہو کہ ہم پاکستانی اپنے کمیاب ڈالر دے کر لیرے خرید لیں۔ بہرحال خلیفہ ایردوان کا یہ درد ہمارے جماعتی بھائیوں کو ہی زیادہ تڑپا رہا ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے۔

آپ کو مطالعہ پاکستان کی تحریک ترک موالات یاد ہو گی جب ہمارے جماعتی مائنڈ سیٹ کے لیڈروں نے ترک خلافت کے احیا کے لئے تحریک چلا کر یہ حکم لگایا تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اس لئے ہندوستان کے مسلمان اپنا گھر بار بیچیں اور افغانستان کے دارالاسلام کو ہجرت کر جائیں۔ ہزاروں سادہ دل مسلمانوں نے اونے پونے اپنا گھر بار بیچا اور سو صعوبتیں برداشت کر کے جب افغانستان کے دارالاسلام پہنچے تو ادھر کے بادشاہ نے غالباً ان ہندوستانی مسلمانوں کی مسلمانی میں کچھ کمی پا کر ان کو دھتکار دیا اور ان پر سرحد بند کر دی۔ وہ بچارے لٹ پٹ کر واپس پلٹے۔ بہت سے راہ میں مارے گئے۔

ہم حیران ہوتے تھے ان کوتاہ بین لیڈروں پر جو دوسرے ملک سے محبت میں اپنی قوم کا ایسا کباڑا کر بیٹھے تھے اور اس سے زیادہ ان کے پیروکاروں پر جو ان کی باتوں میں آ گئے۔ بھلا کوئی ایسے بھی کیا کرتا ہے کہ غیر ملک کی محبت میں اپنا گھر اجاڑ بیٹھے؟ کیا کوئی لیڈر ایسی حماقت کر سکتا ہے اور کیا اسے ایسے پیروکار نصیب ہو جاتے ہیں جو حماقت کو کرامت سمجھتے ہوں؟ ہمیں یقین نہیں آتا تھا۔

اب یہ لیرے خریدنے کی مہم دیکھ کر یقین آ گیا ہے کہ یہ جنس ابھی بھی ارزاں ہے۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ غالباً اسی دور میں اقبال نے فرمایا تھا کہ ”کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے“۔ بظاہر تو نہیں کیا اور یہ نوجوان ترک لیرے کی خاطر اپنے پاکستانی روپے کو لیروں لیر کرنے کے متمنی ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
اس وقت ترک لیرہ کی ڈالر کے مقابلے میں کیا قیمت ہے؟
اور 2001 میں کیا تھی؟
اور اس بحران کے نتیجے میں کتنی قیمت کم ہوئی ہے؟
 
عدنان کاکڑ نے اپنے انداز میں بات کو بگاڑ کر اپنی بھڑاس نکالی ہے۔
اول تو یہ جماعت کا آفیشل اعلان نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ جو لوگ لے رہے ہیں یا ترغیب دے رہے ہیں، وہ واضح طور پر یہ سمجھتے بھی ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں، کہ یہ اقدام ترکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے نہیں، بلکہ علامتی یکجہتی کے اظہار کے لیے ہے۔
 
Top