ذوالفقار نقوی
محفلین
صدیوں کے بعد ہوش میں جو آ رہا ہوں میں
لگتا ہے پہلے جرم کو دہرا رہا ہوں میں
پُر ہول وادیوں کا سفرہے بہت کٹھن
''لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں''
خالی ہیں دونوں ہاتھ اور دامن بھی تار تار
کیوں ایک مشتِ خاک پہ اِترا رہا ہوں میں
شوقِ وصالِ یار میں اک عمر کاٹ دی
اب بام و در سجے ہیں تو گھبرا رہا ہوں میں
شاید ورق ہے پڑھ لیا کوئی حیات کا
بن کر فقیہہ ِ شہر جو سمجھا رہا ہوں میں
ساحل پہ بیٹھا دیکھ کے موجوں کا اضطراب
اُلجھی ہوئی سب گتھیاں سلجھا رہا ہوں میں
ذوالفقار نقوی
لگتا ہے پہلے جرم کو دہرا رہا ہوں میں
پُر ہول وادیوں کا سفرہے بہت کٹھن
''لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں''
خالی ہیں دونوں ہاتھ اور دامن بھی تار تار
کیوں ایک مشتِ خاک پہ اِترا رہا ہوں میں
شوقِ وصالِ یار میں اک عمر کاٹ دی
اب بام و در سجے ہیں تو گھبرا رہا ہوں میں
شاید ورق ہے پڑھ لیا کوئی حیات کا
بن کر فقیہہ ِ شہر جو سمجھا رہا ہوں میں
ساحل پہ بیٹھا دیکھ کے موجوں کا اضطراب
اُلجھی ہوئی سب گتھیاں سلجھا رہا ہوں میں
ذوالفقار نقوی
مدیر کی آخری تدوین: