فرخ منظور
لائبریرین
صد شعر اقبال
فارسی
شارح
صوفی غلام مصطفی تبسم
مرتب: پروفیسر صوفی گلزار احمد
اقبال اکادمی پاکستان
کچھ صد اشعار فارسی کے بارے میں
اس سے قبل 1977ء میں استاذ مرحوم صوفی تبسم صاحب کے نشر کردہ علامہ اقبال مرحوم و مغفور کے سو شعر اور ان کی تشریحات اشاعت کی منزل سے گذر کر اہل علم و دانش سے شرف قبولیت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، اب ان کے فرزند ارجمند پروفیسر صوفی گلزار احمد صاحب نے علامہ اقبال کے فارسی کے ان صد اشعار اور ان کی تشریحات کو ترتیب دے کر شائع کرانے کا بیڑا اٹھایا ہے جنہیں صوفی صاحب مرحوم نے مختلف تاریخوں میں ریڈیو پاکستان سے نشر کیا تھا۔ یہ اہم خدمت اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے اپنے ذمہ لی ہے اور اسے پورے اہتمام سے انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان اشعار کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوفی تبسم صاحب نے علامہ اقبال کے ان اشعار کو نشر کرنے کے لئے منتخب کیا ہے جن سے جوان نسل میں ایک ولولہ تازہ اور جذبہ نو پیدا ہو۔ یہ نسل ان اشعار کی روشنی میں اپنی کردار سازی کر سکے اور عمل کا پیکر بن کر ایک سچی اور محب وطن قوم بن کر ابھرے۔ ان اشعار کے انتخاب سے صوفی صاحب مرحوم کی قومی و ملی لگن اور حب الوطنی کے جذبہ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
صوفی تبسم صاحب نے بلاشبہ اشعار کے انتخاب میں بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے کام لیا ہے۔ وہ ان اشعار کے ذریعہ نوجوانوں کی رہنمائی کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں ۔ صوفی صاحب کی یہ بھی خواہش معلوم ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ کبھی شکست سے دو چار نہ ہو بلکہ اس کا ہر قدم پاکستان کی ترقی اور عظمت کے لئے اٹھے اور وہ ایک ایسی قوم بن جائے جو اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکے۔
ان اشعار میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو علامہ کے بنیادی تصور خودی کو پیش کر کے انسان کو معرفت نفس کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے ذریعہ وہ نوجوانوں کو خود شناسی، خود اعتمادی، خود کاری اور جہد مسلسل و جستجو کی راہ دکھا کر باطل اور شر کی قوتوں سے ٹکرا کر حق اور خیر کو غالب آنے کا درس دیتے ہیں۔ وہ جوانوں کو کم حوصلگی اور پست ہمتی سے نکال کر ایک بلند مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو خطرات سے مقابلہ کر کے جرأت کا پیکر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا نہ صرف شرف انسانیت ہی ہے بلکہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل بھی ہے۔ وہ جہد مسلسل اور جستجو کو زندگی کا دوسرا نام سمجھتے ہیں۔
صوفی صاحب نے ان اشعار کا بھی انتخاب کیا جو انسان کو کسی کا دست نگر ہونے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ اس طرح نہ صرف اس کی انسانیت مجروح ہوتی ہے بلکہ وہ قعر مذلت میں گر پڑتا ہے۔ انسان کی قربانی ہی اسے عروج بخشتی ہے اور وہ دوسری اقوام میں اپنا لوہا منواتا ہے۔ نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے اور سچائی کا دامن تھامنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مثال بھی اشعار میں پیش کر دی ہے کہ انہوں نے حق کا علم بلند کر کے اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ جان دے دی لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن میں جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین بھی ہے اور تکالیف کو برداشت کر کے کامیابی سے ہمکنار ہو کر منزل کے قریب آنے کا ذکر بھی ہے کیونکہ راہ خار زار ہی میں زندگی کا مزا ہے۔ اونچی اڑان اور ستاروں پر کمند ڈالنے ہی میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ استقلال اور حوصلہ مندی نہ صرف زندگی کو کامیاب بناتی ہے بلکہ نوجوانوں کو تگ و دو اور آتش فشانی سے دو چار کر کے جہد مسلسل کی بھٹی میں تپا کر کندن بنا کر نکالتی ہے۔
صوفی صاحب نے علامہ کے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے خود شناسی کا درس ملتا ہے اور باطل سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ان معنوی خوبیوں کی تشریحات کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی خصوصیات اور خوبیوں کو بھی بڑے حسن اور سلیقہ سے اجاگر کر کے ہمیں فنی اور شعری محاسن سے بھی آگاہ کر دیا جو ان اشعار میں پیش کئے گئے ہیں۔
راقم الحروف نے بڑی محنت سے ان اشعار کے صحیح نقل ہونے کی طرف توجہ دی ہے نقل ہونے میں بعض اشعار میں غلطیاں رہ گئی تھیں انہیں درست کیا ہے۔ بعض جملوں میں الفاظ چھوٹ گئے تھے انہیں پورا کیا ہے۔ نقل کرنے والے صاحب سے بعض اشعار غلط نقل ہو گئے تھے انہیں صحیح کیا گیا ہے۔ یہ سب کام راقم الحروف نے کلیات فارسی کو سامنے رکھ کر پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر شعر کے بعد بریکٹ میں اس کی نشاندہی کر دی جائے کہ وہ شعر یا قطعہ علامہ اقبال کے کس مجموعہ فارسی سے لیا گیا ہے۔
مرتب پروفیسر صوفی گلزار صاحب نے اشعار کی ترتیب میں تاریخوں کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا بلکہ غالباً موضوع کے اعتبار سے اشعار کو ترتیب دیا ہے۔ بہر کیف حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ ہر اعتبار سے یہ صد اشعار فارسی اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب جیسے محقق و نقاد کی رہنمائی و سرپرستی کا بہتر نمونہ ثابت ہو سکتے اور اہل علم و دانشور ان سے استفادہ کر سکی۔
ڈاکٹر عبید اللہ خان
٭٭٭
عرض مرتب
زیر نظر کتاب صوفی تبسم مرحوم کی کتاب صد شعر اقبال کے سلسلے کی دوسری کڑی ہے، پہلی جلد صد شعر اقبال (اردو) علامہ اقبال کی نومبر1977ء کی صد سالہ تقریبات ولادت کے موقع پر مرکزی اردو بورڈ (اردو سائنس بورڈ) کی طرف سے شائع ہوئی تھی، اس اول جلد میں علامہ اقبال کے اردو اشعار کی تشریحات شامل ہیں، اب یہ دوسری جلد قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، اس میں علامہ اقبال کے فارسی اشعار کی تشریحات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس میں غزلوں کے اشعار کے علاوہ قطعات بھی شامل کئے گئے ہیں، یہ وہ شرحیں ہیں جو صوفی تبسم مرحوم ریڈیو پاکستان لاہور سے وقتاً فوقتاً نشر کرتے رہے ہیں یہ جلد میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں میرے برادر عزیز ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے جو صوفی صاحب کے بہت ہی قریبی شاگردوں میں سے ہیں، صوفی صاحب کی اقبالیات کے متعلق نگارشات کو شائع کرنے کا پر جوش اظہار کیا ہے، یہ دراصل اس محبت، خلوص اور عقیدت کا اظہار ہے جو وہ اپنے بزرگ استاد صوفی تبسم سے رکھتے ہیں، میں اس کار عظیم کے لئے ان کا بے حد ممنون ہوں۔
مجھے امید واثق ہے کہ اس دوسری جلد کے شائع ہو جانے کے بعد علامہ اقبال کے شائقین کافی حد تک اپنی تشنگی بجھا لیں گے جو وہ کافی عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ مجھے یہ بھی یقین کامل ہے کہ اس جلد کی اشاعت کے بعد علامہ اقبال پر کام کرنے والے محققین علامہ اقبال کی شاعری، پیغام، نظریات اور تصورات کے بارے میں آئندہ وسیع بنیادوں پر کام کر سکیں گے۔
میں اس کام کے سر انجام دینے میں اپنی بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمت اور توفیق عطا کرے کہ میں والد بزرگوار کی اقبالیات کے متعلق ان غیر مطبوعہ تخلیقات کو منظر عام پر لا سکوں جو قارئین کی نظر سے ابھی تک پوشیدہ ہیں۔
پروفیسر صوفی گلزار احمد
10اکتوبر1994ء
41گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
٭٭٭
(1)
بے تو از خواب عدم چشم کشودن نتواں
بے تو بودن نتواں، با تو نبودن نتواں
( یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔)
اقبال کا یہ شعر عجیب کیفیتوں کا حامل ہے۔ بظاہر بڑا سادہ لیکن پیچیدہ ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں سادگی اور پرکاری کے حسین امتزاج کی ایک حسین صورت ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ پھر اس شعر کو، بلکہ شعر کے دوسرے مصرعے کو ایک لفظی معمہ بھی بنا دیا ہے۔ بے تو بودن اور با تو نبودن، کے الفاظ عجب الجھن پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے ذرا سادہ ترجمہ سنئے۔ خدا سے خطاب ہے۔
اے خدا! تیرے بغیر ہم عدم سے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تیرے بغیر ہمارا وجود نا ممکن ہے اور تیرے ہوتے ہوئے ہمارا وجود نہ ہو یہ بھی نا ممکن ہے۔
دیکھا دوسرے مصرعے کے الفاظ کیسا گورکھ دھندا نظر آتے ہیں لیکن یہ کوئی لفظی شعبدہ بازی نہیں جیسا کہ ہمیں بعض قدیم اساتذہ کے شعروں میں نظر آتی ہے۔ لفظی شعبدہ بازی خوبصورت ضرور ہوتی ہے لیکن بے کیف اور بے جان ہوتی ہے۔
اقبال نے اس لفظی ہیر پھیر میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ اور اپنے ایک اہم نظریہ حیات کی وضاحت کر دی ہے۔
صوفیائے کرام کا نظریہ ہے کہ خدا نے انسان میں اپنی صفات الٰہیہ جبلی طور پر ودیعت کی ہیں انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان صفات الٰہیہ کو بروئے کار لائے اور ان کی تکمیل میں پیہم کوشاں رہے جوں جوں یہ صفات تکمیل پذیر ہوں گی انسان خدا کے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
یہاں تک اقبال ان بزرگو ں کا ہمنوا ہے لیکن اس آخری مقام پر آ کر وہ ان سے الگ ہو جاتا ہے۔
صوفیائ، انسانی ارتقا کی آخری منزل کو فنافی اللہ کا مقام قرار دیتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ اس کے نزدیک، انسان کا اخلاقی اور روحانی ارتقا برحق لیکن اس ارتقا میں انسان اپنی انا کو کہیں نہیں کھو دیتا۔ وہ اپنی خودی کو برقرار رکھتا ہے۔
چنانچہ شعر میں کہتا ہے۔
ٹھیک ہے کہ خدا ہمارا خالق ہے۔ اس کے بغیر ہم وجود میں نہیں آ سکتے ۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہم بھی نہ ہوں لیکن یہ بھی نا ممکن ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہوں اور اپنا وجود کھو بیٹھیں، اس سے ملیں اور ہم نہ رہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
اس کے وجود کے ساتھ ہمارا وجود سلامت رہے گا۔
جب کائنات معرض وجود نہیں آئی تھی، خدا موجود تھا اگر کائنات نہ بنتی تو پھر بھی اس کا وجود ہوتا لیکن درمیان میں انسان خلق ہوا اس کے وجود نے اس کائنات کی ہیئت بدل دی، اور یہ نکتہ منکشف ہوا کہ یہ سب کچھ اسی ہستی کی خاطر تھا۔
انسان کی آمد سے کیا کیا ہنگامے گرم ہوئے لیکن انہی ہنگاموں ہی میں تو انسان کی شان مضمر ہے۔
مرزا غالب نے اسی نکتے کو اپنے شوخ انداز میں یوں بیان کیا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
٭٭٭
(2)
نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را
گہر در سینہ دریا، خزف بر ساحل افتادہ است
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔)
کل زبور عجم کی ایک غزل کے مطلع کی تشریح کرتے کرتے آج کا شعر یاد آ گیا۔ یاد آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کل کے شعر میں چشم بینا کے الفاظ سے اس شعر کے الفاظ ابھر آئے۔ شاعر نے بات اتنے پیارے اور موثر انداز میں کہی ہے کہ انتخاب کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔ ذرا شعر دوبارہ سن لیجئے:
نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را
گہر در سینہ دریا، خزف برساحل افتادہ است
ترجمہ ہے: نہ جانے سمندر کی لہر کو یہ چشم بینا کس نے عطا کی کہ موتی تو بحر کے سینے میں پڑا ہے اور خزف ریزے، یعنی ٹھیکری اور کنکر وغیرہ کے ٹکڑے باہر ساحل پر گرے پڑے ہیں۔ شعر میں جو پتے کی بات بیان ہوئی ہے ادھر بعد میں آئیں گے، پہلے ذرا اس شعر کی منظر کشی کی طرف توجہ دیجئے اور دیکھئے، تصور کیجئے کہ ایک بحر ذخار آپ کے سامنے ہے۔ طوفان برپا ہے اور اتنا شدید ہے جیسے پانی میں ایک حشر بپا ہے۔ موجوں کے تلاطم سے چٹانیں لرزہ بر اندام ہیں اور وہیل مچھلیاں اور مگرمچھ تنکوں کی طرح ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اچھلے پڑتے ہیں۔ اس قیامت خیز سمے میں نیساں کے ایک قطرے کو دیکھئے کس طرح صدف میں مطمئن بیٹھا ہے۔ باہر کی صورت یہ ہے کہ بحر کی تہ سے کتنے کنکر اور خزف ریزے ابھر کر کنارے پر گرتے چلے جا رہے ہیں۔ بیچارگی کا عالم ہے اور بے بضاعتی، اور بے مائگی بھی۔
اقبال اس شعر میں گوہر آبدار اور خزف ریزے میں فرق واضح کرنا چاہتا ہے۔ کہاں موتی اور کہاں ٹھیکری۔ لیکن اس فرق کی وضاحت کا انداز کتنا پیارا ہے۔ یہ سب کچھ تو موجوں کے طوفان کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے سمندر میں ہلچل مچی ہے۔ لیکن شاعر کا تجاہل عارفانہ دیکھئے۔ کہتا ہے کہ نہ جانے موجوں کو یہ چشم بینا کیسے مل گئی کہ انہوں نے دنیا جہاں کی بے قیمت چیزوں کو کنارے لا پھینکا ہے اور گوہر کو صدف کے آغوش میں بٹھا دیا۔
یہ باریک بینی، یہ قدر شناسی، یہ جوہر کو پرکھنے کی استعداد سبحان اللہ ان بظاہر بے رہرو، بے مہار، لہروں میں کیسے آ گئی۔
اقبال نے اس شعر میں تو فقط اشارہ کیا کہ موتی موتی ہے اور ٹھیکری ٹھیکری، لیکن ایک اور شعر میں صاف صاف بتایا کہ ایسا کیوں ہے۔
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں
موتی میں تو خالی چمک دمک ہی تھی اور کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ جو گراں بہا بنا تو اس لئے کہ اس میں خودی کا احساس تھا اس نے اس جوہر گراں قدر کی حفاظت کی تو یہ مقام حاصل کیا۔
یہی حال انسان کا ہے۔ قدرت نے ہر انسان میں استعدادیں ودیعت کی ہیں جو انسان ان فطری عطیوں کی قدر کرتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے اور پھر ان کو بروئے کار لاتا ہے وہ موتی بنتا ہے ورنہ خزف ریزوں کی طرح کنارے پر گر کر خوار و پامال ہوتا ہے۔
٭٭٭
(3)
بگیر اے سارباں راہ درازے
مرا سوز جدائی تیز تر کن
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے)
شاعر کہتا ہے اے سارباں لمبا راستہ اختیار کر اور میری جدائی کی آگ کو اور بھی بھڑکا دے۔
قافلے کی باگ ڈور ساربان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جیسے چاہے اسے چلاتا ہے۔ کارواں کے منزل پر پہنچنے کی توقعات اسی سے وابستہ ہوتی ہیں کسی کا محبوب رخصت ہو رہا ہو تو سارباں سے کہا جاتا ہے۔
اے سارباں آہستہ راں کا رام جانم می رود
یعنی ذرا آہستہ چل، میرا آرام جاں رخصت ہو رہا ہے۔ دم بھر اور اسے دیکھ لوں۔ لیکن اقبال سفر کو کسی اور ہی زاویہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی طرح سفر کے تیزی سے کٹ جانے کا متمنی نہیں۔ دوسرے لوگ منزل کو قریب آتے دیکھتے ہیں تو ان کی آتش شوق اور بھی تیز ہو جاتی ہے لیکن اقبال اپنے اسی شعر میں اس کے برعکس بات کرتا ہے۔ وہ سارباں سے ایسی راہ اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو دور ہو اور اسے وہ را ہ دراز کہتا ہے اور اس کی توجیہہ وہ خود ہی کرتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کہتا ہے۔
مرا سوز جدائی تیز تر کن
یعنی میری آتش جدائی کو تیز تر کر دے
ظاہر ہے جب سارباں راہ دراز اختیار کرے گا تو رہرو منزل مقصود پہ دیر میں پہنچے گا۔ تاخیر ہو گی تو منزل پہ پہنچنے کا شوق بھی تیز ہو گا۔ اس شوق کی تیزی کو شاعر نے سوز جدائی سے تعبیر کیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے لیکن اقبال اس نکتے کو اپنے فلسفہ حیات سے وابستہ کرتا ہے کیونکہ وہ زندگی کو سفر سمجھتا ہے ایسا سفر جو کہیں ختم نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک سفر شوق کی یہ تیزی اور منزل پہ پہنچنے کے لئے انتہائی بے تابی، منزل مقصود پر پہنچ جانے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کاروان حیات چلتا رہے اور زندگی کی سرگرمیاں تازہ رہیں۔
اقبال کا موضوع ہی سفر حیات ہے کہ ہر دم جاری رہتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں مختلف پیرایوں میں اپنے جذبے کا اظہار کرتا ہے
کبھی کہتا ہے سفر بے کارواں ہونا چاہئے۔
کبھی کہتا ہے منزل سے زیادہ پر پیچ راستے زیادہ خوش آئند ہوتے ہیں۔
کبھی وہ ہمراہیوں سے کہتا ہے ۔ یہ سست رفتاری کیسی؟ تم ٹھہرے ہو تو ٹھہرو۔ میں آگے چل رہا ہوں۔
غرض اس کا مقصود زندگی کی تگ و دو کو جاری رکھنا ہے۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس شعر کے دو مصرعوں میں بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں مصرعے بڑے گہرے طور پر مربوط ہیں۔
جب منزل پر پہنچنے کے لئے دور کا راستہ اختیار کیا جائے تو منزل کی جدائی کا احساس تیز ہو گا اور جدائی کی آگ بھی تیز تر ہو گی۔
٭٭٭
( 4)
نجیبے کہ پا بر زمین سودہ است
ز مرغ سرا سفلہ تر بودہ است
( یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے۔ یہ شعر ’’پند بازبابچہ خویش‘‘ کے زیر عنوان نظم کا شعر ہے)
اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے:
وہ ہستی جو اپنے قدم زمین پر دھرتی پھرتی ہے کتنی ہی نجیب کیوں نہ ہو اس پرندے سے بھی زیادہ نیچ ہے جو زمین ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہ نظم اقبال کی خوبصورت نظموں میں سے ہے۔ علاوہ فنی حسن کے اس میں اس کے افکار کی صحیح عکاسی پائی جاتی ہے۔ شاہیں، باز، عقاب یہ تینوں آزاد پرندے ایسے ہیں جو شاعر کے تصور حیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس نظم میں ان پرندوں کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔
پرندوں کی دنیا وسیع و عریض فضا ہے جس میں وہ جہاں اور جدھر چاہیں پرواز کر لیتے ہیں۔ وہ پرندہ جو کسی قفس میں اسیر ہو، اپنی طبعی استعدادیں کھو بیٹھتا ہے اس کی قوت پرواز پنجرے کے چار تنکوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
اقبال اسے اسیر پرندے کی زندگی کو پست سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ اس بلند نسب انسان کی زندگی کو پست تر خیال کرتا ہے جس کی نظریں سطح ارضی سے اوپر نہیں اٹھتیں وہ حافظ کے اس شعر کا مصداق بن کر رہ جاتا ہے۔
ترا زکنگرۂ عرش می زنند صفیر
ندانمت کہ دریں دا مگہ چہ افتاد است
ستم کی بات ہے کہ انسان کو کنگرۂ عرش سے پکارا جا رہا ہے اور وہ اس دنیاوی جال میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آج کے شعر کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ذرا باز کی نصیحت کا خلاصہ سن لیجئے۔ باز اپنے بچے سے کہتا ہے۔
تمام باز ایک ہی جوہر سے ہیں۔ وہ ہیں تو مشت پر لیکن شیروں کا دل رکھتے ہیں۔ دیکھ بیٹا چکوروں جیسے ادنیٰ پرندوں کی صحبت سے بچنا اور ان کا شکار کرنے کے سوا ان سے کوئی سروکار نہ رکھنا۔ نازک بدنی تو بٹیرہ وغیرہ کا حصہ ہے۔ تجھے تنومند اور سخت کوش ہونا چاہئے۔ یاد رکھ تمہارے بزرگ کسی درخت پر آشیانہ بنانا اپنی کسر شان سمجھتے تھے۔ انہیں تو اس زمین سے دل لگانا تو درکنار دانہ چننا بھی گوارا نہیں تھا۔
آسمان کی پھیلی ہوئی وسعتیں ہماری خدا داد وراثت ہے، شاہباز تو چٹانوں میں گھومتے ہیں تاکہ ان کے پنجے ان سے ٹکرا کر تیز تر ہو جائیں۔
ان ساری تفصیلات کو پیش نظر رکھئے اور آج کے شعر کی خوبیوں پر غور کیجئے۔ شاعر نے نجیب کا لفظ استعمال کیا ہے جو نجابت سے مشتق ہے اور بڑا بلیغ اور پر معنی ہے۔ اس لفظ سے انسانی کردار اور شخصیت کی عظمت او رشرافت نمایاں ہوتی ہے۔
ایک عظیم ہستی اگر پست زندگی بسر کرے تو یہ بہت بڑی گراوٹ ہو گی جو قفس میں اسیر پرندے کی زندگی سے بھی پست ہے۔
٭٭٭
( 5)
من از غم ہانمی ترسم و لیکن
مدہ آں غم کہ شایان دلے نیست
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ کا ہے جو ’’حضور حق‘‘ کے عنوان کے تحت کلیات اقبال فارسی میں موجود ہے)
اقبال نے اس شعر میں ایک مرد غیور، ایک بلند ہمت انسان کا تصور پیش کیا ہے اور بڑے شاعرانہ اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور گہرے جذبے میں ڈوب کر بیان کیا ہے۔
شاعر نے اس شعر میں غم کے بارے میں دو اہم باتیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ غم کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ان مایوسیوںمیں ڈوب جائے اور مضمحل ہو کر رہ جائے۔ غم تو انسان کو ابھارتا ہے، دوسرے یہ کہ غم اور غم میں فرق ہوتا ہے۔
مرزا غالب اپنی فارسی کی ایک طویل مثنوی میں فلسفہ غم یوں پیش کرتے ہیں خدا سے خطاب کر کے کہتے ہیں، اے خدا تو نے مجھے دنیا میں بے پناہ غموں میں ڈال دیا لیکن میں ترا ممنون ہوں کہ ان غموں نے میری روح کو بیداری عطا کی۔ مجھے ہمت دی کہ میں انہیں سمیٹ لوں۔ میں نے ان غموں کو ایک حسین قالب میں ڈھال لیا، ایک فن بنا لیا اور اس فن کی بدولت مجھے ایک بڑی دولت نصیب ہوئی جس نے مجھے ابدی شہرت عطا کی۔ اقبال بھی غم کی ایسی ہی عظمت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک غم، کوئی ادنیٰ اور پست شے نہیں یہ روٹی کا غم نہیں کہ وہ یہ سوچے۔
چہ خورد بامداد فرزندم
غم ہو تو کوئی بلند غم ہو۔
غم نام ہے کسی ارفع اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کے لئے فکر مند ہونا اور اپنی کسی کوتاہی کے خیال سے پریشان ہونا۔ غم نام ہے وطن کا غم، ملت اور قوم کا غم، بلکہ بنی نوع انسان کا غم۔
اب ذرا دیکھئے کہ اقبال اس جذبے کو کس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتا ہے۔
من از غم ہا نمی ترسم و لیکن
مدہ آں غم کہ شایاں دلے نیست
اے خدا میں غموں اور دکھوں سے ڈرنے والا انسان نہیں ہوں، بلند ہمت انسان ہوں۔ ہر طرح کے دکھ برداشت کر سکتا ہوں اور مردانہ وار کر سکتا ہوں، ہاں اتنا ہے کہ غم ہو تو صحیح غم ہو۔ میرے شایان شان ہو۔
اقبال نے اس آخری بات کو کہ غم ہو تو میرے شایان شان ہو پر اکتفا نہیں کیا۔ا سے شعر کے قالب میں ڈھال کر، نیا روپ عطا کیا اور کہا
کہ کہیں ایسا غم نہ دینا جو ایک انسانی قلب کے شایان شان نہ ہو۔ فنکار آخر فنکار ہوت اہے اور پھر اقبال سا مفکر فنکار۔ کہ بات کرتا ہے کہ دو دھاری تلوار چلاتا ہے۔
فارسی کا معمولی ذوق رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ دلے میں یا سے مراد صرف ایک نہیں یعنی کسی ایک دل کے شایانش ان بلکہ ایک عظیم دل کے شایان شان۔
اردو کا شعر ہے۔
یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں
طبع سلیم سمجھتی ہے کہ یہاں ایک سے مقصود ایک عدد نہیں بلکہ ایک عظیم خانہ خراب مراد ہے۔ اسی طرح
شایان دلے سے اقبال کا اشارہ ایک عظیم انسان کے عظیم قلب کے عظیم حوصلے کی طرف ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ غم کے مدارج ہوتے ہیں۔ غم روزگار سے غم محبوب تک بڑا فاصلہ ہوتا ہے اور محبوب بھی کوئی اونچا محبوب۔
شاد عظیم آبادی کا سادہ سا شعر ہے لیکن کتنا خوبصورت
غم جہاں سے ہیں فارغ ستم کشان فراق
ترے ستائے ہوؤں کو فلک ستا نہ سکا
٭٭٭
( 6)
جہاں کو راست واز آئینہ دل غافل افتاد است
دلے چشمیکہ بینا شد، نگاہش بردل افتاد است
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ یہ اس حصہ کی 36 ویں غزل ہے۔)
سادہ اردو ترجمہ یہ ہے:
یہ دنیا اندھی ہے اور آئینہ دل سے غافل ہوئی ہے۔ لیکن جو آنکھ بینا ہے، اس کی نظرل دل ہی پر پڑتی ہے۔ دنیا کے لوگ ظاہر پرست ہوتے ہیں، ان کی نگاہیں بھی سطحی ہوتی ہیں۔ وہ وہیں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور انہی ظاہری معاملات کے مخمصوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ انسانی عقل حکمت کے نکتے حل کر کے حقیقت کا سراغ لگانا چاہتی ہے لیکن سراغ نہیں ملتا۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ حقیقت کی تلاش میں دماغ کو ٹٹولنے کی بجائے دل کو ٹٹولنا ضروری ہے۔
اقبال اس بنا پر کہتا ہے۔ جہاں کو راست، دنیا نابینا ہے، انسان آنکھیں تو کھولتا ہے لیکن دیکھتا کچھ نہیں۔ اس کی نظر دل پر نہیں پڑتی۔ اس بات سے غافل ہے کہ اس کے سینے میں دل ہے جو آئینے کی طرح درخشاں ہے۔ اس میں حقائق کا پرتو ہے۔ وہ آئینہ دل پر نظر ڈالے تو حقیقت کی جھلک دکھائی دے۔ کسی نے کہا
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
لیکن اقبال تو اس سے آگے بڑھتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ اے انسان تو کس شے کی تلاش میں ہے، تو اپنے آپ کو پہچان، غافل! اپنی خودی کو پہچان، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ تو خود بڑی حقیقت ہے تو نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو گویا حقیقت شناس ہو گیا کیونکہ تو ہی اس کائنات کا سب سے بڑا راز ہے۔
شیخ سعدی نے غزلیہ رنگ میں کیا خوبصورت شعر کہہ دیا۔
اے تماشا گاہ عالم روئے تو
تو کجا بہر تماشا می روی
دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر ٹکی ہوئی ہیں تو نظارے سے لذت اندوز ہونے کے لئے کہاں جا رہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ اے انسان! تو تو وہ گوہر ہے جس کی تابانی سے یہ جہاں روشن ہے۔ تجھے کس جہان حسن کی تلاش ہے۔
مرزا بیدل نے اسی نکتے کو تیور بدل کر نئے پیرائے میں بیان کیا۔
ستم است گر ہوست کشد کہ بسیر سرو سمن در آ
تو ز غنچہ کم ند میدۂ در دل کشا بچمن در آ
بڑے ستم کی بات ہے کہ ہوس تجھے سرو سمن کے نظارے کے لئے کشاں کشاں لئے پھرتی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ ذرا دل کا دروازہ کھول کے دیکھ کیسا چمن زار کھلا ہوا ہے۔
لیکن ساری دنیا اندھی نہیں ہوتی۔ ایسی آنکھ بھی ہے جو بینا ہوتی ہے اور اس کی نظر ادھر ادھر نہیں دل پر پڑتی ہے۔ اقبال اس بات کی تلقین کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انسان اس چمن زار کا مرکز ہے وہ گل سرسبد ہے۔ کائنات اور اس کی دلکشیاں اور رعنائیاں اسی کے لئے خلق کی گئی ہیں۔ اسی کی عظمت کا سروسامان ہے۔ وہ ان حسین وسائل سے اپنے کردار اور اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت کی تکمیل وجہ تخلیق کائنات ہے اور یہی فطرت کا عین منشا ہے کہ انسان اپنی اخلاقی اور روحانی پرورش اور تربیت کرتا چلا جائے۔ زندگی کی فلاح اسی میں پوشیدہ ہے۔
٭٭٭
( 7)
یوسف گم گشتہ را باز کشودم نقاب
تا بہ تنک مایگاں ذوق خریدن دہم
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم سے لیا گیا ہے۔ یہ اس حصہ کی 55ویں غزل کا شعر ہے۔)
اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ میں نے کھوئے ہوئے یوسف کا پھر سراغ لگا لیا، تاکہ کم مال رکھنے والوں میں بھی خریداری کا ذوق پیدا کر سکوں۔
بظاہر بات بڑی سادہ معلوم ہوتی ہے لیکن بڑی گہری ہے اور دور رس ہے۔ شاعر نے ایک طرف تو ایک عام واقعہ کو اپنے حکمت آموز انداز میں سمویا ہے اور دوسری طرف اسلوب بیان میں اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں جس سے یہ شعر ایک بلند پایہ ادبی پارہ بن گیا ہے۔
اس شعر میں حضرت یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس تاریخی تلمیح کی مختصر صورت یہ ہے کہ یوسف کو بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا پھر وہ وہاں سے نکال کر سوداگروں کے ہاتھ بیچ دئیے گئے اور وہاں سے بازار مصر میں جا کر ارزاں داموں فروخت ہوئے لیکن یوسف ایک گرانمایہ ہستی تھی۔ اپنے ذاتی جوہر سے کتنے مراحل طے کر کے کہاں سے کہاں پہنچے۔ ان کی زندگی کی یہ معراج ضرب المثل ہو گئی اور ادب میں ایک جنس نایاب کی علامت بن گئی۔
اقبال، یوسف گم گشتہ سے، ایک ایسی ہی جنس نایاب مراد لیتا ہے جسے مسلمان کھو بیٹھے ہیں اور اس جنس کے خریدنے کے لئے سرمایہ بھی نہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اس کم مائگی کے عام میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ چیز ہو بھی گراں قیمت لیکن سستے داموں مل جائے۔
اقبال اس یوسف گم گشتہ سے مسلمان کا قدیم جوش ایمان، دینداری اور پرہیز گاری، فردی اور اجتماعی اخوت اور اتحاد ملی عظمت اور وقار، غرض سب کچھ مراد لیتا ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو ہم سے چھن گئی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے کو کم حیثیت خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں، اتنے تنک مایہ ہیں کہ اس جنس گرانقدر خریدنے کے اہل نہیں۔ یہ ہماری کم مائگی کی دلیل نہیں بلکہ ہماری کم حوصلگی اور پست ہمتی کی نشانی ہے۔ جب کسی قوم میں یہ احساس کمتری پیدا ہو جائے تو اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی ہے۔
اقبال اپنے شعر میں صرف یہی نہیں کہتا وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مسلمانوں میں نہ صرف کم ہمتی آ گئی ہے بلکہ اپنے گذشتہ ملی وقار اور عظمت کو بھول بھی چکے ہیں جس سے اس کے دوبارہ حاصل کرنے کے امکانات اور بھی کم ہو چکے ہیں لیکن ان سب باتوں کی نشاندہی کرنے کے بعد وہ مایوس نہیں۔ اس نے ملت کو وہ پیام دیا ہے جس سے ان کا ایمان تازہ ہو جائے۔ اس جنس گرنمایہ کی اس طرح سراغ رسی کی ہے کہ وہ ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ سوال صرف حوصلہ پیدا کر کے اس کو خریدنے کا ہے۔ اقبال نے اپنے کلام سے مسلمانوں میں وہ ذوق پیدا کیا ہے کہ یہ گراں قدر دولت آسانی سے ہاتھ آ سکتی ہے۔
اقبال کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ شعر کے دو مصرعوں میں اتنی معنوی وسعتیں بھر دی ہیں،ا تنا اختصار ہے کہ اس سے زیادہ کا شاید تصور نہ ہو سکے۔ انداز بیان اتنا سادہ ہے کہ سہل ممتنع بن گیا ہے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا ہے۔
پھر اس کے ساتھ ساتھ جذبات کی ایک ہلکی سی لرزش شعر کے پڑھنے والے کے دل میں دوڑ جاتی ہے۔ سبحان اللہ!
٭٭٭
(
بے زور سیل کشتی آدم نمی رود
ہر دل ہزار عربدہ دارد بہ ناخدا
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی 71ویں غزل سے لیا گیا ہے)
اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے:
پانی کی رو کے زور کے بغیر انسان کی کشتی نہیں چلتی۔ ہر دل اپنے ناخدا سے ہزاروں انداز میں الجھ رہا ہے۔
کشتی آدم سے مراد خود انسان کی ذات ہے، جو زندگی کے سمندر میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ ناخدا، کشتی کے کھینچنے والے کو کہتے ہیں۔ تصور کیجئے، کشتی کو چلانے والی شے پانی کا بہاؤ ہے جسے اقبال نے سیل کہا ہے۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ہواؤں کا زور شامل ہوتا ہے۔ ناخدا صرف کشتی کو منزل مقصود کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر پانی میں بہاؤ نہ ہو تو کشتی کو چلانا کیسے ممکن ہے۔
سیل کے لفظ میں خالی پانی کے بہاؤ ہی کا مفہوم نہیں اس لفظ میں سمندر کا تلاطم، اس کا زور اور شدت طوفان بھی شامل ہیں۔
اقبال کے نزدیک انسان کی زندگی کی کشتی انسان کی شخصیت کے زور او ربل پر چلتی ہے۔ ناخدا کی سعی و کوشش صرف رہنمائی کرتی ہے۔ اصل میں سیل اور تلاطم بھی انسان کے کردار اور اس کی سعی عمل کے زور کا مظاہرہ ہے۔ قوت عمل ہی سے کشتی حیات چلتی ہے۔
اقبال کا شعر ہے
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اگر جدوجہد اور سعی و عمل کا زور شور نہ ہو تو زندگی ساکت و جامد ہو جاتی ہے۔ بحر کی موجوں میں اضطراب کا مفہوم یہی ہے کہ انسان میں امنگیں اور ولولے ہونے چاہئیں۔ انہی سے اس کی زندگی میں زور اور قوت آتی ہے۔
دوسری بات جو اقبال نے اس شعر میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ محض ناخدا ہی کا سہارا ڈھونڈنا اور اسی کو کشی کا زور خیال کر لینا غلط ہے۔ یہ تقلید پرستی ہے اور ایسی تقلیند پرستی کی روش انسان کی کوششوں کو سرد کر دیتی ہے۔
اقبال کہتا ہے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
گویا مسافر ے لئے ضروری ہے کہ وہ خود ہی راستہ تلاش کرے اور خود ہی اس راہ پر چلے۔ ہمت ہار کر بیٹھ نہ جائے کہ اب خضر ہی میری جگہ سفر بھی طے کرے گا۔
مرزا غالب نے بھی انسان کو کچھ اسی انداز میں خبردار کیا ہے۔ کہتا ہے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں راہبر ملے
پوری تندہی سے سرگرم عمل ہونے والا انسان اقبال کے نزدیک صحیح معنوں میں مسلمان ہے۔ وہ ایسے ہی انسان کی خودی کو بھی مسلمان کہتا ہے۔
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شیوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
٭٭٭
( 9)
زندگی از طوف دیگر رستن است
خویش را بیت الحرم دانستن است
( یہ شعر اسرار خودی سے ماخوذ ہے۔ جو اندرز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کہ برائے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است کے زیر عنوان آیا ہے)
یعنی زندگی دوسروں کے طواف کرنے سے نجات پا لینے اور اپنے آ پ کو کعبہ تسلیم کرنے کا نام ہے۔
اقبال کے اس شعر کو پڑھتے ہی ذہن مرزا بیدل کے اس شعر کی طرف جاتا ہے۔
ستم ست گر ہوست کشد، کہ بسیر سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم ندمیدۂ در دل کشا بچمن در آ
یعنی بڑے ستم کی بات ہے کہ تجھے سرو و سمن کی سیر کشاں کشاں لئے جا رہی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ اپنے دل کا دروازہ کھول، تجھے معلوم ہو کہ تو چمن ہی میں ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کا مشہور شعر ہے۔
اے تماشا گاہ عالم روئے تو
توکجا بہر تماشا می روی
دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر لگی ہوئی ہیں تو کس نظارے کی تلاش میں جا رہا ہے؟
بقول اقبال، انسان کے کردار اور شخصیت کا آغاز خود شناسی سے ہوتا ہے۔ صوفیاء کے اس قول کے ڈانڈے بھی اسی خیال سے ملتے جلتے ہیں کہ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ، اقبال، بیدل اور سعدی کے شعروں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ خود نگری، خود بینی اور خود شناسی۔ اقبال نے اس مسئلے کی وضاحت ایک اور شعر میں گوہر کی مثال دے کر کی ہے جو بڑی خوبصورت ہے۔ راز زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن
گوہر کو دیکھو ا س میں صحیح زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ گوہر اپنے آپ میں غوطہ لگاتا ہے اور پھر ابھرتا ہے۔ اس کی غوطہ زنی گویا اس کی خود شناسی ہے۔ اس کی تائید میں ایک اور گوہر نایاب کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ہم گنہگار لوگ رحمتہ اللعالمین کہہ کر پکارتے ہیں۔ رسول پاک ؐ کی غار حرا میں خلوت گزینی گویا ایک گوہر کا صدف میں بند ہونا تھا۔و ہیں ان کی ذات اقدس وحی الٰہی سے سرفراز ہو کر ابھری تھی۔
اقبال اس موقع پر شمس تبریزی کا ایک قصہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک فلسفی اور ماہر حکمت بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ آپ کی یہ قیل و قال کیا ہے؟ یہ منطقی موشگافیاں کیسی؟
فلسفی نے جواب دیا۔ آپ حکمت سے بے بہرہ ہیں۔ آپ کا دانشمندوں سے الجھنا درست نہیں۔ کہا جاتا ہے شمس تبریزی نے کتابوں پر ایک غضبناک نظر ڈالی۔ کتابوں کا ذخیرہ جل کر راکھ ہو گیا۔ فلسفی نے کہا۔ یہ آگ کہاں سے لائے کہ میرا سارا سرمایہ حکمت جلا کر راکھ کر دیا۔
شمس تبریزی نے فرمایا
یہ ذوق و حال کی بات ہے تجھے اس سے کیا واسطہ؟
اقبال اس قصے سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ فلسفہ اور حکمت ہمیں، حقیقت سے تو کیا، اپنے آپ سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ صحیح علم وہ ہے جس سے انسان کو اپنا عرفان نصیب ہو۔ اسی عرفان سے انسان، انسان بنتا ہے اور اس کی طبعی استعدادیں بروئے کار آتی ہیں اور وہ ابھر کر اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی پروان چڑھتی ہے۔
( 10)
بدریا گر گرہ افتد بہ کارم
بجز طوفاں نمی خواہم کشودے
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے)
سمندر میں ہوتے ہوئے اگر کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو میں اس کی گرہ کشائی طوفان ہی سے کروں گا۔
سمندر کے مسافر کی الجھن کونسی ہوتی ہے۔ کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے۔ مسافر اس طوفان سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ الگ ہے۔ وہ اپنی کشتی حیات کو زندگی کے طوفان سے باہر کھینچ کر لے جانا نہیں چاہتا اس لئے کہ یہی طوفان، اس کی زندگی کا سرچشمہ بھی ہے اور اسے تازہ دم رکھنے کا ذریعہ بھی۔
اقبال طرح طرح کی باتیں کرتا ہے لیکن اس کی ہر تان ایک ہی جگہ پر آ کرٹوٹتی ہے اور وہ اس کا تصور زندگی ہے کہ جسے وہ پیہم کشاکش سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتا ہے۔ علامتیں وضع کرتا ہے اور اپنے خیال کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہر قسم کا فنی حربہ تلاش کرتا ہے۔
جس خیال کا اظہار اس نے آج کے شعر میں کیا ہے وہ اس کا عام تصور حیات ہے جس سے ہم بخوبی آشنا ہیں۔
چند شعر سنئی۔:
مثل ہے زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ بساز
اقبال اس کہنہ اور فرسودہ سم کا قائل نہیں
وہ تو کہتا ہے
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
زمانہ تیرے موافق نہیں تو تو اسے اپنے موافق بنانے کے لئے تگ و دو کر۔ یہ شعر سنئے کتنا واضح، شوخ اور دلکش ہے۔
بدریا غلط و با موجش در آویز
حیات جاوداں اندر ستیز است
سمندر میں غلطاں ہو اور اس کی لہروں سے الجھ جا کیونکہ اسی کشمکش میں زندگی ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت بات سنئے کہتا ہے۔
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
ز منزل جادۂ پیچیدہ خوشتر
مجھے ایک صاحب دل نے یہ نکتہ بتایا کہ منزل سے بڑھ کر خوش آئند شے پر پیچ راستہ ہے جس پر مسافر گامزن ہوتا ہے۔
پروانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے
من آں پروانہ را پروانہ دانم
کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است
جلنا تو سبھی کو آتا ہے لیکن پروانہ وہ ہے جو اتنا سخت جان ہو کہ اپنے کو شعلے کے سپرد کر دینے کے بجائے شعلے کو نگل جائے۔اقبال تو اسی کشمکش حیات کو راز حیات سمجھتا ہے کہ جو خطرات حیات میں پوشیدہ ہے۔
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
اور اگر تجھے واقعی جان کی تلاش ہے تو اس تب و تاب، اور تڑپ کو طلب کر جو کہیں ختم نہ ہو۔
اگر جانے ہوس داری طلب کن
تب و تابے کہ پایابے مدار
فارسی
شارح
صوفی غلام مصطفی تبسم
مرتب: پروفیسر صوفی گلزار احمد
اقبال اکادمی پاکستان
کچھ صد اشعار فارسی کے بارے میں
اس سے قبل 1977ء میں استاذ مرحوم صوفی تبسم صاحب کے نشر کردہ علامہ اقبال مرحوم و مغفور کے سو شعر اور ان کی تشریحات اشاعت کی منزل سے گذر کر اہل علم و دانش سے شرف قبولیت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، اب ان کے فرزند ارجمند پروفیسر صوفی گلزار احمد صاحب نے علامہ اقبال کے فارسی کے ان صد اشعار اور ان کی تشریحات کو ترتیب دے کر شائع کرانے کا بیڑا اٹھایا ہے جنہیں صوفی صاحب مرحوم نے مختلف تاریخوں میں ریڈیو پاکستان سے نشر کیا تھا۔ یہ اہم خدمت اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے اپنے ذمہ لی ہے اور اسے پورے اہتمام سے انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان اشعار کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صوفی تبسم صاحب نے علامہ اقبال کے ان اشعار کو نشر کرنے کے لئے منتخب کیا ہے جن سے جوان نسل میں ایک ولولہ تازہ اور جذبہ نو پیدا ہو۔ یہ نسل ان اشعار کی روشنی میں اپنی کردار سازی کر سکے اور عمل کا پیکر بن کر ایک سچی اور محب وطن قوم بن کر ابھرے۔ ان اشعار کے انتخاب سے صوفی صاحب مرحوم کی قومی و ملی لگن اور حب الوطنی کے جذبہ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
صوفی تبسم صاحب نے بلاشبہ اشعار کے انتخاب میں بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے کام لیا ہے۔ وہ ان اشعار کے ذریعہ نوجوانوں کی رہنمائی کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں ۔ صوفی صاحب کی یہ بھی خواہش معلوم ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ کبھی شکست سے دو چار نہ ہو بلکہ اس کا ہر قدم پاکستان کی ترقی اور عظمت کے لئے اٹھے اور وہ ایک ایسی قوم بن جائے جو اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکے۔
ان اشعار میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو علامہ کے بنیادی تصور خودی کو پیش کر کے انسان کو معرفت نفس کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے ذریعہ وہ نوجوانوں کو خود شناسی، خود اعتمادی، خود کاری اور جہد مسلسل و جستجو کی راہ دکھا کر باطل اور شر کی قوتوں سے ٹکرا کر حق اور خیر کو غالب آنے کا درس دیتے ہیں۔ وہ جوانوں کو کم حوصلگی اور پست ہمتی سے نکال کر ایک بلند مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو خطرات سے مقابلہ کر کے جرأت کا پیکر بنانا چاہتے ہیں کیونکہ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا نہ صرف شرف انسانیت ہی ہے بلکہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل بھی ہے۔ وہ جہد مسلسل اور جستجو کو زندگی کا دوسرا نام سمجھتے ہیں۔
صوفی صاحب نے ان اشعار کا بھی انتخاب کیا جو انسان کو کسی کا دست نگر ہونے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ اس طرح نہ صرف اس کی انسانیت مجروح ہوتی ہے بلکہ وہ قعر مذلت میں گر پڑتا ہے۔ انسان کی قربانی ہی اسے عروج بخشتی ہے اور وہ دوسری اقوام میں اپنا لوہا منواتا ہے۔ نوجوانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے اور سچائی کا دامن تھامنے کے لئے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مثال بھی اشعار میں پیش کر دی ہے کہ انہوں نے حق کا علم بلند کر کے اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ جان دے دی لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن میں جہاد فی سبیل اللہ کی تلقین بھی ہے اور تکالیف کو برداشت کر کے کامیابی سے ہمکنار ہو کر منزل کے قریب آنے کا ذکر بھی ہے کیونکہ راہ خار زار ہی میں زندگی کا مزا ہے۔ اونچی اڑان اور ستاروں پر کمند ڈالنے ہی میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ استقلال اور حوصلہ مندی نہ صرف زندگی کو کامیاب بناتی ہے بلکہ نوجوانوں کو تگ و دو اور آتش فشانی سے دو چار کر کے جہد مسلسل کی بھٹی میں تپا کر کندن بنا کر نکالتی ہے۔
صوفی صاحب نے علامہ کے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے خود شناسی کا درس ملتا ہے اور باطل سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ان معنوی خوبیوں کی تشریحات کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی خصوصیات اور خوبیوں کو بھی بڑے حسن اور سلیقہ سے اجاگر کر کے ہمیں فنی اور شعری محاسن سے بھی آگاہ کر دیا جو ان اشعار میں پیش کئے گئے ہیں۔
راقم الحروف نے بڑی محنت سے ان اشعار کے صحیح نقل ہونے کی طرف توجہ دی ہے نقل ہونے میں بعض اشعار میں غلطیاں رہ گئی تھیں انہیں درست کیا ہے۔ بعض جملوں میں الفاظ چھوٹ گئے تھے انہیں پورا کیا ہے۔ نقل کرنے والے صاحب سے بعض اشعار غلط نقل ہو گئے تھے انہیں صحیح کیا گیا ہے۔ یہ سب کام راقم الحروف نے کلیات فارسی کو سامنے رکھ کر پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ یہ بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر شعر کے بعد بریکٹ میں اس کی نشاندہی کر دی جائے کہ وہ شعر یا قطعہ علامہ اقبال کے کس مجموعہ فارسی سے لیا گیا ہے۔
مرتب پروفیسر صوفی گلزار صاحب نے اشعار کی ترتیب میں تاریخوں کی ترتیب کا خیال نہیں رکھا بلکہ غالباً موضوع کے اعتبار سے اشعار کو ترتیب دیا ہے۔ بہر کیف حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ ہر اعتبار سے یہ صد اشعار فارسی اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب جیسے محقق و نقاد کی رہنمائی و سرپرستی کا بہتر نمونہ ثابت ہو سکتے اور اہل علم و دانشور ان سے استفادہ کر سکی۔
ڈاکٹر عبید اللہ خان
٭٭٭
عرض مرتب
زیر نظر کتاب صوفی تبسم مرحوم کی کتاب صد شعر اقبال کے سلسلے کی دوسری کڑی ہے، پہلی جلد صد شعر اقبال (اردو) علامہ اقبال کی نومبر1977ء کی صد سالہ تقریبات ولادت کے موقع پر مرکزی اردو بورڈ (اردو سائنس بورڈ) کی طرف سے شائع ہوئی تھی، اس اول جلد میں علامہ اقبال کے اردو اشعار کی تشریحات شامل ہیں، اب یہ دوسری جلد قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، اس میں علامہ اقبال کے فارسی اشعار کی تشریحات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس میں غزلوں کے اشعار کے علاوہ قطعات بھی شامل کئے گئے ہیں، یہ وہ شرحیں ہیں جو صوفی تبسم مرحوم ریڈیو پاکستان لاہور سے وقتاً فوقتاً نشر کرتے رہے ہیں یہ جلد میں اقبال اکادمی پاکستان لاہور کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں میرے برادر عزیز ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے جو صوفی صاحب کے بہت ہی قریبی شاگردوں میں سے ہیں، صوفی صاحب کی اقبالیات کے متعلق نگارشات کو شائع کرنے کا پر جوش اظہار کیا ہے، یہ دراصل اس محبت، خلوص اور عقیدت کا اظہار ہے جو وہ اپنے بزرگ استاد صوفی تبسم سے رکھتے ہیں، میں اس کار عظیم کے لئے ان کا بے حد ممنون ہوں۔
مجھے امید واثق ہے کہ اس دوسری جلد کے شائع ہو جانے کے بعد علامہ اقبال کے شائقین کافی حد تک اپنی تشنگی بجھا لیں گے جو وہ کافی عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ مجھے یہ بھی یقین کامل ہے کہ اس جلد کی اشاعت کے بعد علامہ اقبال پر کام کرنے والے محققین علامہ اقبال کی شاعری، پیغام، نظریات اور تصورات کے بارے میں آئندہ وسیع بنیادوں پر کام کر سکیں گے۔
میں اس کام کے سر انجام دینے میں اپنی بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمت اور توفیق عطا کرے کہ میں والد بزرگوار کی اقبالیات کے متعلق ان غیر مطبوعہ تخلیقات کو منظر عام پر لا سکوں جو قارئین کی نظر سے ابھی تک پوشیدہ ہیں۔
پروفیسر صوفی گلزار احمد
10اکتوبر1994ء
41گلشن بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
٭٭٭
(1)
بے تو از خواب عدم چشم کشودن نتواں
بے تو بودن نتواں، با تو نبودن نتواں
( یہ شعر پیام مشرق کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔)
اقبال کا یہ شعر عجیب کیفیتوں کا حامل ہے۔ بظاہر بڑا سادہ لیکن پیچیدہ ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں سادگی اور پرکاری کے حسین امتزاج کی ایک حسین صورت ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ پھر اس شعر کو، بلکہ شعر کے دوسرے مصرعے کو ایک لفظی معمہ بھی بنا دیا ہے۔ بے تو بودن اور با تو نبودن، کے الفاظ عجب الجھن پیدا کر رہے ہیں۔ پہلے ذرا سادہ ترجمہ سنئے۔ خدا سے خطاب ہے۔
اے خدا! تیرے بغیر ہم عدم سے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تیرے بغیر ہمارا وجود نا ممکن ہے اور تیرے ہوتے ہوئے ہمارا وجود نہ ہو یہ بھی نا ممکن ہے۔
دیکھا دوسرے مصرعے کے الفاظ کیسا گورکھ دھندا نظر آتے ہیں لیکن یہ کوئی لفظی شعبدہ بازی نہیں جیسا کہ ہمیں بعض قدیم اساتذہ کے شعروں میں نظر آتی ہے۔ لفظی شعبدہ بازی خوبصورت ضرور ہوتی ہے لیکن بے کیف اور بے جان ہوتی ہے۔
اقبال نے اس لفظی ہیر پھیر میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ اور اپنے ایک اہم نظریہ حیات کی وضاحت کر دی ہے۔
صوفیائے کرام کا نظریہ ہے کہ خدا نے انسان میں اپنی صفات الٰہیہ جبلی طور پر ودیعت کی ہیں انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان صفات الٰہیہ کو بروئے کار لائے اور ان کی تکمیل میں پیہم کوشاں رہے جوں جوں یہ صفات تکمیل پذیر ہوں گی انسان خدا کے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
یہاں تک اقبال ان بزرگو ں کا ہمنوا ہے لیکن اس آخری مقام پر آ کر وہ ان سے الگ ہو جاتا ہے۔
صوفیائ، انسانی ارتقا کی آخری منزل کو فنافی اللہ کا مقام قرار دیتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ اس کے نزدیک، انسان کا اخلاقی اور روحانی ارتقا برحق لیکن اس ارتقا میں انسان اپنی انا کو کہیں نہیں کھو دیتا۔ وہ اپنی خودی کو برقرار رکھتا ہے۔
چنانچہ شعر میں کہتا ہے۔
ٹھیک ہے کہ خدا ہمارا خالق ہے۔ اس کے بغیر ہم وجود میں نہیں آ سکتے ۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہم بھی نہ ہوں لیکن یہ بھی نا ممکن ہے کہ ہم اس کے ساتھ ہوں اور اپنا وجود کھو بیٹھیں، اس سے ملیں اور ہم نہ رہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
اس کے وجود کے ساتھ ہمارا وجود سلامت رہے گا۔
جب کائنات معرض وجود نہیں آئی تھی، خدا موجود تھا اگر کائنات نہ بنتی تو پھر بھی اس کا وجود ہوتا لیکن درمیان میں انسان خلق ہوا اس کے وجود نے اس کائنات کی ہیئت بدل دی، اور یہ نکتہ منکشف ہوا کہ یہ سب کچھ اسی ہستی کی خاطر تھا۔
انسان کی آمد سے کیا کیا ہنگامے گرم ہوئے لیکن انہی ہنگاموں ہی میں تو انسان کی شان مضمر ہے۔
مرزا غالب نے اسی نکتے کو اپنے شوخ انداز میں یوں بیان کیا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
٭٭٭
(2)
نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را
گہر در سینہ دریا، خزف بر ساحل افتادہ است
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔)
کل زبور عجم کی ایک غزل کے مطلع کی تشریح کرتے کرتے آج کا شعر یاد آ گیا۔ یاد آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ کل کے شعر میں چشم بینا کے الفاظ سے اس شعر کے الفاظ ابھر آئے۔ شاعر نے بات اتنے پیارے اور موثر انداز میں کہی ہے کہ انتخاب کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔ ذرا شعر دوبارہ سن لیجئے:
نمی دانم کہ داد ایں چشم بینا موج دریا را
گہر در سینہ دریا، خزف برساحل افتادہ است
ترجمہ ہے: نہ جانے سمندر کی لہر کو یہ چشم بینا کس نے عطا کی کہ موتی تو بحر کے سینے میں پڑا ہے اور خزف ریزے، یعنی ٹھیکری اور کنکر وغیرہ کے ٹکڑے باہر ساحل پر گرے پڑے ہیں۔ شعر میں جو پتے کی بات بیان ہوئی ہے ادھر بعد میں آئیں گے، پہلے ذرا اس شعر کی منظر کشی کی طرف توجہ دیجئے اور دیکھئے، تصور کیجئے کہ ایک بحر ذخار آپ کے سامنے ہے۔ طوفان برپا ہے اور اتنا شدید ہے جیسے پانی میں ایک حشر بپا ہے۔ موجوں کے تلاطم سے چٹانیں لرزہ بر اندام ہیں اور وہیل مچھلیاں اور مگرمچھ تنکوں کی طرح ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اچھلے پڑتے ہیں۔ اس قیامت خیز سمے میں نیساں کے ایک قطرے کو دیکھئے کس طرح صدف میں مطمئن بیٹھا ہے۔ باہر کی صورت یہ ہے کہ بحر کی تہ سے کتنے کنکر اور خزف ریزے ابھر کر کنارے پر گرتے چلے جا رہے ہیں۔ بیچارگی کا عالم ہے اور بے بضاعتی، اور بے مائگی بھی۔
اقبال اس شعر میں گوہر آبدار اور خزف ریزے میں فرق واضح کرنا چاہتا ہے۔ کہاں موتی اور کہاں ٹھیکری۔ لیکن اس فرق کی وضاحت کا انداز کتنا پیارا ہے۔ یہ سب کچھ تو موجوں کے طوفان کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے سمندر میں ہلچل مچی ہے۔ لیکن شاعر کا تجاہل عارفانہ دیکھئے۔ کہتا ہے کہ نہ جانے موجوں کو یہ چشم بینا کیسے مل گئی کہ انہوں نے دنیا جہاں کی بے قیمت چیزوں کو کنارے لا پھینکا ہے اور گوہر کو صدف کے آغوش میں بٹھا دیا۔
یہ باریک بینی، یہ قدر شناسی، یہ جوہر کو پرکھنے کی استعداد سبحان اللہ ان بظاہر بے رہرو، بے مہار، لہروں میں کیسے آ گئی۔
اقبال نے اس شعر میں تو فقط اشارہ کیا کہ موتی موتی ہے اور ٹھیکری ٹھیکری، لیکن ایک اور شعر میں صاف صاف بتایا کہ ایسا کیوں ہے۔
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں
موتی میں تو خالی چمک دمک ہی تھی اور کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ جو گراں بہا بنا تو اس لئے کہ اس میں خودی کا احساس تھا اس نے اس جوہر گراں قدر کی حفاظت کی تو یہ مقام حاصل کیا۔
یہی حال انسان کا ہے۔ قدرت نے ہر انسان میں استعدادیں ودیعت کی ہیں جو انسان ان فطری عطیوں کی قدر کرتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے اور پھر ان کو بروئے کار لاتا ہے وہ موتی بنتا ہے ورنہ خزف ریزوں کی طرح کنارے پر گر کر خوار و پامال ہوتا ہے۔
٭٭٭
(3)
بگیر اے سارباں راہ درازے
مرا سوز جدائی تیز تر کن
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے)
شاعر کہتا ہے اے سارباں لمبا راستہ اختیار کر اور میری جدائی کی آگ کو اور بھی بھڑکا دے۔
قافلے کی باگ ڈور ساربان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جیسے چاہے اسے چلاتا ہے۔ کارواں کے منزل پر پہنچنے کی توقعات اسی سے وابستہ ہوتی ہیں کسی کا محبوب رخصت ہو رہا ہو تو سارباں سے کہا جاتا ہے۔
اے سارباں آہستہ راں کا رام جانم می رود
یعنی ذرا آہستہ چل، میرا آرام جاں رخصت ہو رہا ہے۔ دم بھر اور اسے دیکھ لوں۔ لیکن اقبال سفر کو کسی اور ہی زاویہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی طرح سفر کے تیزی سے کٹ جانے کا متمنی نہیں۔ دوسرے لوگ منزل کو قریب آتے دیکھتے ہیں تو ان کی آتش شوق اور بھی تیز ہو جاتی ہے لیکن اقبال اپنے اسی شعر میں اس کے برعکس بات کرتا ہے۔ وہ سارباں سے ایسی راہ اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو دور ہو اور اسے وہ را ہ دراز کہتا ہے اور اس کی توجیہہ وہ خود ہی کرتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں کہتا ہے۔
مرا سوز جدائی تیز تر کن
یعنی میری آتش جدائی کو تیز تر کر دے
ظاہر ہے جب سارباں راہ دراز اختیار کرے گا تو رہرو منزل مقصود پہ دیر میں پہنچے گا۔ تاخیر ہو گی تو منزل پہ پہنچنے کا شوق بھی تیز ہو گا۔ اس شوق کی تیزی کو شاعر نے سوز جدائی سے تعبیر کیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے لیکن اقبال اس نکتے کو اپنے فلسفہ حیات سے وابستہ کرتا ہے کیونکہ وہ زندگی کو سفر سمجھتا ہے ایسا سفر جو کہیں ختم نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک سفر شوق کی یہ تیزی اور منزل پہ پہنچنے کے لئے انتہائی بے تابی، منزل مقصود پر پہنچ جانے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کاروان حیات چلتا رہے اور زندگی کی سرگرمیاں تازہ رہیں۔
اقبال کا موضوع ہی سفر حیات ہے کہ ہر دم جاری رہتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں مختلف پیرایوں میں اپنے جذبے کا اظہار کرتا ہے
کبھی کہتا ہے سفر بے کارواں ہونا چاہئے۔
کبھی کہتا ہے منزل سے زیادہ پر پیچ راستے زیادہ خوش آئند ہوتے ہیں۔
کبھی وہ ہمراہیوں سے کہتا ہے ۔ یہ سست رفتاری کیسی؟ تم ٹھہرے ہو تو ٹھہرو۔ میں آگے چل رہا ہوں۔
غرض اس کا مقصود زندگی کی تگ و دو کو جاری رکھنا ہے۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس شعر کے دو مصرعوں میں بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا۔ حالانکہ یہ دونوں مصرعے بڑے گہرے طور پر مربوط ہیں۔
جب منزل پر پہنچنے کے لئے دور کا راستہ اختیار کیا جائے تو منزل کی جدائی کا احساس تیز ہو گا اور جدائی کی آگ بھی تیز تر ہو گی۔
٭٭٭
( 4)
نجیبے کہ پا بر زمین سودہ است
ز مرغ سرا سفلہ تر بودہ است
( یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے۔ یہ شعر ’’پند بازبابچہ خویش‘‘ کے زیر عنوان نظم کا شعر ہے)
اس شعر کا سادہ ترجمہ یہ ہے:
وہ ہستی جو اپنے قدم زمین پر دھرتی پھرتی ہے کتنی ہی نجیب کیوں نہ ہو اس پرندے سے بھی زیادہ نیچ ہے جو زمین ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہ نظم اقبال کی خوبصورت نظموں میں سے ہے۔ علاوہ فنی حسن کے اس میں اس کے افکار کی صحیح عکاسی پائی جاتی ہے۔ شاہیں، باز، عقاب یہ تینوں آزاد پرندے ایسے ہیں جو شاعر کے تصور حیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس نظم میں ان پرندوں کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔
پرندوں کی دنیا وسیع و عریض فضا ہے جس میں وہ جہاں اور جدھر چاہیں پرواز کر لیتے ہیں۔ وہ پرندہ جو کسی قفس میں اسیر ہو، اپنی طبعی استعدادیں کھو بیٹھتا ہے اس کی قوت پرواز پنجرے کے چار تنکوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
اقبال اسے اسیر پرندے کی زندگی کو پست سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ اس بلند نسب انسان کی زندگی کو پست تر خیال کرتا ہے جس کی نظریں سطح ارضی سے اوپر نہیں اٹھتیں وہ حافظ کے اس شعر کا مصداق بن کر رہ جاتا ہے۔
ترا زکنگرۂ عرش می زنند صفیر
ندانمت کہ دریں دا مگہ چہ افتاد است
ستم کی بات ہے کہ انسان کو کنگرۂ عرش سے پکارا جا رہا ہے اور وہ اس دنیاوی جال میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آج کے شعر کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ذرا باز کی نصیحت کا خلاصہ سن لیجئے۔ باز اپنے بچے سے کہتا ہے۔
تمام باز ایک ہی جوہر سے ہیں۔ وہ ہیں تو مشت پر لیکن شیروں کا دل رکھتے ہیں۔ دیکھ بیٹا چکوروں جیسے ادنیٰ پرندوں کی صحبت سے بچنا اور ان کا شکار کرنے کے سوا ان سے کوئی سروکار نہ رکھنا۔ نازک بدنی تو بٹیرہ وغیرہ کا حصہ ہے۔ تجھے تنومند اور سخت کوش ہونا چاہئے۔ یاد رکھ تمہارے بزرگ کسی درخت پر آشیانہ بنانا اپنی کسر شان سمجھتے تھے۔ انہیں تو اس زمین سے دل لگانا تو درکنار دانہ چننا بھی گوارا نہیں تھا۔
آسمان کی پھیلی ہوئی وسعتیں ہماری خدا داد وراثت ہے، شاہباز تو چٹانوں میں گھومتے ہیں تاکہ ان کے پنجے ان سے ٹکرا کر تیز تر ہو جائیں۔
ان ساری تفصیلات کو پیش نظر رکھئے اور آج کے شعر کی خوبیوں پر غور کیجئے۔ شاعر نے نجیب کا لفظ استعمال کیا ہے جو نجابت سے مشتق ہے اور بڑا بلیغ اور پر معنی ہے۔ اس لفظ سے انسانی کردار اور شخصیت کی عظمت او رشرافت نمایاں ہوتی ہے۔
ایک عظیم ہستی اگر پست زندگی بسر کرے تو یہ بہت بڑی گراوٹ ہو گی جو قفس میں اسیر پرندے کی زندگی سے بھی پست ہے۔
٭٭٭
( 5)
من از غم ہانمی ترسم و لیکن
مدہ آں غم کہ شایان دلے نیست
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ کا ہے جو ’’حضور حق‘‘ کے عنوان کے تحت کلیات اقبال فارسی میں موجود ہے)
اقبال نے اس شعر میں ایک مرد غیور، ایک بلند ہمت انسان کا تصور پیش کیا ہے اور بڑے شاعرانہ اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور گہرے جذبے میں ڈوب کر بیان کیا ہے۔
شاعر نے اس شعر میں غم کے بارے میں دو اہم باتیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ غم کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ان مایوسیوںمیں ڈوب جائے اور مضمحل ہو کر رہ جائے۔ غم تو انسان کو ابھارتا ہے، دوسرے یہ کہ غم اور غم میں فرق ہوتا ہے۔
مرزا غالب اپنی فارسی کی ایک طویل مثنوی میں فلسفہ غم یوں پیش کرتے ہیں خدا سے خطاب کر کے کہتے ہیں، اے خدا تو نے مجھے دنیا میں بے پناہ غموں میں ڈال دیا لیکن میں ترا ممنون ہوں کہ ان غموں نے میری روح کو بیداری عطا کی۔ مجھے ہمت دی کہ میں انہیں سمیٹ لوں۔ میں نے ان غموں کو ایک حسین قالب میں ڈھال لیا، ایک فن بنا لیا اور اس فن کی بدولت مجھے ایک بڑی دولت نصیب ہوئی جس نے مجھے ابدی شہرت عطا کی۔ اقبال بھی غم کی ایسی ہی عظمت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک غم، کوئی ادنیٰ اور پست شے نہیں یہ روٹی کا غم نہیں کہ وہ یہ سوچے۔
چہ خورد بامداد فرزندم
غم ہو تو کوئی بلند غم ہو۔
غم نام ہے کسی ارفع اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کے لئے فکر مند ہونا اور اپنی کسی کوتاہی کے خیال سے پریشان ہونا۔ غم نام ہے وطن کا غم، ملت اور قوم کا غم، بلکہ بنی نوع انسان کا غم۔
اب ذرا دیکھئے کہ اقبال اس جذبے کو کس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتا ہے۔
من از غم ہا نمی ترسم و لیکن
مدہ آں غم کہ شایاں دلے نیست
اے خدا میں غموں اور دکھوں سے ڈرنے والا انسان نہیں ہوں، بلند ہمت انسان ہوں۔ ہر طرح کے دکھ برداشت کر سکتا ہوں اور مردانہ وار کر سکتا ہوں، ہاں اتنا ہے کہ غم ہو تو صحیح غم ہو۔ میرے شایان شان ہو۔
اقبال نے اس آخری بات کو کہ غم ہو تو میرے شایان شان ہو پر اکتفا نہیں کیا۔ا سے شعر کے قالب میں ڈھال کر، نیا روپ عطا کیا اور کہا
کہ کہیں ایسا غم نہ دینا جو ایک انسانی قلب کے شایان شان نہ ہو۔ فنکار آخر فنکار ہوت اہے اور پھر اقبال سا مفکر فنکار۔ کہ بات کرتا ہے کہ دو دھاری تلوار چلاتا ہے۔
فارسی کا معمولی ذوق رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ دلے میں یا سے مراد صرف ایک نہیں یعنی کسی ایک دل کے شایانش ان بلکہ ایک عظیم دل کے شایان شان۔
اردو کا شعر ہے۔
یہ جو چشم پر آب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں
طبع سلیم سمجھتی ہے کہ یہاں ایک سے مقصود ایک عدد نہیں بلکہ ایک عظیم خانہ خراب مراد ہے۔ اسی طرح
شایان دلے سے اقبال کا اشارہ ایک عظیم انسان کے عظیم قلب کے عظیم حوصلے کی طرف ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ غم کے مدارج ہوتے ہیں۔ غم روزگار سے غم محبوب تک بڑا فاصلہ ہوتا ہے اور محبوب بھی کوئی اونچا محبوب۔
شاد عظیم آبادی کا سادہ سا شعر ہے لیکن کتنا خوبصورت
غم جہاں سے ہیں فارغ ستم کشان فراق
ترے ستائے ہوؤں کو فلک ستا نہ سکا
٭٭٭
( 6)
جہاں کو راست واز آئینہ دل غافل افتاد است
دلے چشمیکہ بینا شد، نگاہش بردل افتاد است
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی ایک غزل کا مطلع ہے۔ یہ اس حصہ کی 36 ویں غزل ہے۔)
سادہ اردو ترجمہ یہ ہے:
یہ دنیا اندھی ہے اور آئینہ دل سے غافل ہوئی ہے۔ لیکن جو آنکھ بینا ہے، اس کی نظرل دل ہی پر پڑتی ہے۔ دنیا کے لوگ ظاہر پرست ہوتے ہیں، ان کی نگاہیں بھی سطحی ہوتی ہیں۔ وہ وہیں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور انہی ظاہری معاملات کے مخمصوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ انسانی عقل حکمت کے نکتے حل کر کے حقیقت کا سراغ لگانا چاہتی ہے لیکن سراغ نہیں ملتا۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ حقیقت کی تلاش میں دماغ کو ٹٹولنے کی بجائے دل کو ٹٹولنا ضروری ہے۔
اقبال اس بنا پر کہتا ہے۔ جہاں کو راست، دنیا نابینا ہے، انسان آنکھیں تو کھولتا ہے لیکن دیکھتا کچھ نہیں۔ اس کی نظر دل پر نہیں پڑتی۔ اس بات سے غافل ہے کہ اس کے سینے میں دل ہے جو آئینے کی طرح درخشاں ہے۔ اس میں حقائق کا پرتو ہے۔ وہ آئینہ دل پر نظر ڈالے تو حقیقت کی جھلک دکھائی دے۔ کسی نے کہا
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
لیکن اقبال تو اس سے آگے بڑھتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ اے انسان تو کس شے کی تلاش میں ہے، تو اپنے آپ کو پہچان، غافل! اپنی خودی کو پہچان، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ تو خود بڑی حقیقت ہے تو نے اپنے آپ کو پہچان لیا تو گویا حقیقت شناس ہو گیا کیونکہ تو ہی اس کائنات کا سب سے بڑا راز ہے۔
شیخ سعدی نے غزلیہ رنگ میں کیا خوبصورت شعر کہہ دیا۔
اے تماشا گاہ عالم روئے تو
تو کجا بہر تماشا می روی
دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر ٹکی ہوئی ہیں تو نظارے سے لذت اندوز ہونے کے لئے کہاں جا رہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ اے انسان! تو تو وہ گوہر ہے جس کی تابانی سے یہ جہاں روشن ہے۔ تجھے کس جہان حسن کی تلاش ہے۔
مرزا بیدل نے اسی نکتے کو تیور بدل کر نئے پیرائے میں بیان کیا۔
ستم است گر ہوست کشد کہ بسیر سرو سمن در آ
تو ز غنچہ کم ند میدۂ در دل کشا بچمن در آ
بڑے ستم کی بات ہے کہ ہوس تجھے سرو سمن کے نظارے کے لئے کشاں کشاں لئے پھرتی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ ذرا دل کا دروازہ کھول کے دیکھ کیسا چمن زار کھلا ہوا ہے۔
لیکن ساری دنیا اندھی نہیں ہوتی۔ ایسی آنکھ بھی ہے جو بینا ہوتی ہے اور اس کی نظر ادھر ادھر نہیں دل پر پڑتی ہے۔ اقبال اس بات کی تلقین کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انسان اس چمن زار کا مرکز ہے وہ گل سرسبد ہے۔ کائنات اور اس کی دلکشیاں اور رعنائیاں اسی کے لئے خلق کی گئی ہیں۔ اسی کی عظمت کا سروسامان ہے۔ وہ ان حسین وسائل سے اپنے کردار اور اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت کی تکمیل وجہ تخلیق کائنات ہے اور یہی فطرت کا عین منشا ہے کہ انسان اپنی اخلاقی اور روحانی پرورش اور تربیت کرتا چلا جائے۔ زندگی کی فلاح اسی میں پوشیدہ ہے۔
٭٭٭
( 7)
یوسف گم گشتہ را باز کشودم نقاب
تا بہ تنک مایگاں ذوق خریدن دہم
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم سے لیا گیا ہے۔ یہ اس حصہ کی 55ویں غزل کا شعر ہے۔)
اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے۔ میں نے کھوئے ہوئے یوسف کا پھر سراغ لگا لیا، تاکہ کم مال رکھنے والوں میں بھی خریداری کا ذوق پیدا کر سکوں۔
بظاہر بات بڑی سادہ معلوم ہوتی ہے لیکن بڑی گہری ہے اور دور رس ہے۔ شاعر نے ایک طرف تو ایک عام واقعہ کو اپنے حکمت آموز انداز میں سمویا ہے اور دوسری طرف اسلوب بیان میں اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں جس سے یہ شعر ایک بلند پایہ ادبی پارہ بن گیا ہے۔
اس شعر میں حضرت یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس تاریخی تلمیح کی مختصر صورت یہ ہے کہ یوسف کو بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا پھر وہ وہاں سے نکال کر سوداگروں کے ہاتھ بیچ دئیے گئے اور وہاں سے بازار مصر میں جا کر ارزاں داموں فروخت ہوئے لیکن یوسف ایک گرانمایہ ہستی تھی۔ اپنے ذاتی جوہر سے کتنے مراحل طے کر کے کہاں سے کہاں پہنچے۔ ان کی زندگی کی یہ معراج ضرب المثل ہو گئی اور ادب میں ایک جنس نایاب کی علامت بن گئی۔
اقبال، یوسف گم گشتہ سے، ایک ایسی ہی جنس نایاب مراد لیتا ہے جسے مسلمان کھو بیٹھے ہیں اور اس جنس کے خریدنے کے لئے سرمایہ بھی نہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اس کم مائگی کے عام میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ چیز ہو بھی گراں قیمت لیکن سستے داموں مل جائے۔
اقبال اس یوسف گم گشتہ سے مسلمان کا قدیم جوش ایمان، دینداری اور پرہیز گاری، فردی اور اجتماعی اخوت اور اتحاد ملی عظمت اور وقار، غرض سب کچھ مراد لیتا ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو ہم سے چھن گئی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے کو کم حیثیت خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں، اتنے تنک مایہ ہیں کہ اس جنس گرانقدر خریدنے کے اہل نہیں۔ یہ ہماری کم مائگی کی دلیل نہیں بلکہ ہماری کم حوصلگی اور پست ہمتی کی نشانی ہے۔ جب کسی قوم میں یہ احساس کمتری پیدا ہو جائے تو اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی ہے۔
اقبال اپنے شعر میں صرف یہی نہیں کہتا وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مسلمانوں میں نہ صرف کم ہمتی آ گئی ہے بلکہ اپنے گذشتہ ملی وقار اور عظمت کو بھول بھی چکے ہیں جس سے اس کے دوبارہ حاصل کرنے کے امکانات اور بھی کم ہو چکے ہیں لیکن ان سب باتوں کی نشاندہی کرنے کے بعد وہ مایوس نہیں۔ اس نے ملت کو وہ پیام دیا ہے جس سے ان کا ایمان تازہ ہو جائے۔ اس جنس گرنمایہ کی اس طرح سراغ رسی کی ہے کہ وہ ارزاں معلوم ہوتی ہے۔ سوال صرف حوصلہ پیدا کر کے اس کو خریدنے کا ہے۔ اقبال نے اپنے کلام سے مسلمانوں میں وہ ذوق پیدا کیا ہے کہ یہ گراں قدر دولت آسانی سے ہاتھ آ سکتی ہے۔
اقبال کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ شعر کے دو مصرعوں میں اتنی معنوی وسعتیں بھر دی ہیں،ا تنا اختصار ہے کہ اس سے زیادہ کا شاید تصور نہ ہو سکے۔ انداز بیان اتنا سادہ ہے کہ سہل ممتنع بن گیا ہے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا ہے۔
پھر اس کے ساتھ ساتھ جذبات کی ایک ہلکی سی لرزش شعر کے پڑھنے والے کے دل میں دوڑ جاتی ہے۔ سبحان اللہ!
٭٭٭
(
بے زور سیل کشتی آدم نمی رود
ہر دل ہزار عربدہ دارد بہ ناخدا
( یہ شعر زبور عجم حصہ دوم کی 71ویں غزل سے لیا گیا ہے)
اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے:
پانی کی رو کے زور کے بغیر انسان کی کشتی نہیں چلتی۔ ہر دل اپنے ناخدا سے ہزاروں انداز میں الجھ رہا ہے۔
کشتی آدم سے مراد خود انسان کی ذات ہے، جو زندگی کے سمندر میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ ناخدا، کشتی کے کھینچنے والے کو کہتے ہیں۔ تصور کیجئے، کشتی کو چلانے والی شے پانی کا بہاؤ ہے جسے اقبال نے سیل کہا ہے۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ہواؤں کا زور شامل ہوتا ہے۔ ناخدا صرف کشتی کو منزل مقصود کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر پانی میں بہاؤ نہ ہو تو کشتی کو چلانا کیسے ممکن ہے۔
سیل کے لفظ میں خالی پانی کے بہاؤ ہی کا مفہوم نہیں اس لفظ میں سمندر کا تلاطم، اس کا زور اور شدت طوفان بھی شامل ہیں۔
اقبال کے نزدیک انسان کی زندگی کی کشتی انسان کی شخصیت کے زور او ربل پر چلتی ہے۔ ناخدا کی سعی و کوشش صرف رہنمائی کرتی ہے۔ اصل میں سیل اور تلاطم بھی انسان کے کردار اور اس کی سعی عمل کے زور کا مظاہرہ ہے۔ قوت عمل ہی سے کشتی حیات چلتی ہے۔
اقبال کا شعر ہے
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اگر جدوجہد اور سعی و عمل کا زور شور نہ ہو تو زندگی ساکت و جامد ہو جاتی ہے۔ بحر کی موجوں میں اضطراب کا مفہوم یہی ہے کہ انسان میں امنگیں اور ولولے ہونے چاہئیں۔ انہی سے اس کی زندگی میں زور اور قوت آتی ہے۔
دوسری بات جو اقبال نے اس شعر میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ محض ناخدا ہی کا سہارا ڈھونڈنا اور اسی کو کشی کا زور خیال کر لینا غلط ہے۔ یہ تقلید پرستی ہے اور ایسی تقلیند پرستی کی روش انسان کی کوششوں کو سرد کر دیتی ہے۔
اقبال کہتا ہے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
گویا مسافر ے لئے ضروری ہے کہ وہ خود ہی راستہ تلاش کرے اور خود ہی اس راہ پر چلے۔ ہمت ہار کر بیٹھ نہ جائے کہ اب خضر ہی میری جگہ سفر بھی طے کرے گا۔
مرزا غالب نے بھی انسان کو کچھ اسی انداز میں خبردار کیا ہے۔ کہتا ہے
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں راہبر ملے
پوری تندہی سے سرگرم عمل ہونے والا انسان اقبال کے نزدیک صحیح معنوں میں مسلمان ہے۔ وہ ایسے ہی انسان کی خودی کو بھی مسلمان کہتا ہے۔
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شیوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
٭٭٭
( 9)
زندگی از طوف دیگر رستن است
خویش را بیت الحرم دانستن است
( یہ شعر اسرار خودی سے ماخوذ ہے۔ جو اندرز میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کہ برائے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است کے زیر عنوان آیا ہے)
یعنی زندگی دوسروں کے طواف کرنے سے نجات پا لینے اور اپنے آ پ کو کعبہ تسلیم کرنے کا نام ہے۔
اقبال کے اس شعر کو پڑھتے ہی ذہن مرزا بیدل کے اس شعر کی طرف جاتا ہے۔
ستم ست گر ہوست کشد، کہ بسیر سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم ندمیدۂ در دل کشا بچمن در آ
یعنی بڑے ستم کی بات ہے کہ تجھے سرو و سمن کی سیر کشاں کشاں لئے جا رہی ہے۔ تو کسی کلی سے کم شگفتہ تو نہیں ہے۔ اپنے دل کا دروازہ کھول، تجھے معلوم ہو کہ تو چمن ہی میں ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کا مشہور شعر ہے۔
اے تماشا گاہ عالم روئے تو
توکجا بہر تماشا می روی
دنیا کی نظریں تو تیرے چہرے پر لگی ہوئی ہیں تو کس نظارے کی تلاش میں جا رہا ہے؟
بقول اقبال، انسان کے کردار اور شخصیت کا آغاز خود شناسی سے ہوتا ہے۔ صوفیاء کے اس قول کے ڈانڈے بھی اسی خیال سے ملتے جلتے ہیں کہ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ، اقبال، بیدل اور سعدی کے شعروں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ خود نگری، خود بینی اور خود شناسی۔ اقبال نے اس مسئلے کی وضاحت ایک اور شعر میں گوہر کی مثال دے کر کی ہے جو بڑی خوبصورت ہے۔ راز زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
غوطہ در خود صورت گوہر زدن
پس ز خلوت گاہ خود سر بر زدن
گوہر کو دیکھو ا س میں صحیح زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ گوہر اپنے آپ میں غوطہ لگاتا ہے اور پھر ابھرتا ہے۔ اس کی غوطہ زنی گویا اس کی خود شناسی ہے۔ اس کی تائید میں ایک اور گوہر نایاب کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ہم گنہگار لوگ رحمتہ اللعالمین کہہ کر پکارتے ہیں۔ رسول پاک ؐ کی غار حرا میں خلوت گزینی گویا ایک گوہر کا صدف میں بند ہونا تھا۔و ہیں ان کی ذات اقدس وحی الٰہی سے سرفراز ہو کر ابھری تھی۔
اقبال اس موقع پر شمس تبریزی کا ایک قصہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک فلسفی اور ماہر حکمت بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ آپ کی یہ قیل و قال کیا ہے؟ یہ منطقی موشگافیاں کیسی؟
فلسفی نے جواب دیا۔ آپ حکمت سے بے بہرہ ہیں۔ آپ کا دانشمندوں سے الجھنا درست نہیں۔ کہا جاتا ہے شمس تبریزی نے کتابوں پر ایک غضبناک نظر ڈالی۔ کتابوں کا ذخیرہ جل کر راکھ ہو گیا۔ فلسفی نے کہا۔ یہ آگ کہاں سے لائے کہ میرا سارا سرمایہ حکمت جلا کر راکھ کر دیا۔
شمس تبریزی نے فرمایا
یہ ذوق و حال کی بات ہے تجھے اس سے کیا واسطہ؟
اقبال اس قصے سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ فلسفہ اور حکمت ہمیں، حقیقت سے تو کیا، اپنے آپ سے بیگانہ کر دیتے ہیں۔ صحیح علم وہ ہے جس سے انسان کو اپنا عرفان نصیب ہو۔ اسی عرفان سے انسان، انسان بنتا ہے اور اس کی طبعی استعدادیں بروئے کار آتی ہیں اور وہ ابھر کر اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی پروان چڑھتی ہے۔
( 10)
بدریا گر گرہ افتد بہ کارم
بجز طوفاں نمی خواہم کشودے
( یہ شعر ارمغان حجاز کے ایک قطعہ سے لیا گیا ہے)
سمندر میں ہوتے ہوئے اگر کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو میں اس کی گرہ کشائی طوفان ہی سے کروں گا۔
سمندر کے مسافر کی الجھن کونسی ہوتی ہے۔ کشتی طوفان میں گھر جاتی ہے۔ مسافر اس طوفان سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اقبال کا نظریہ الگ ہے۔ وہ اپنی کشتی حیات کو زندگی کے طوفان سے باہر کھینچ کر لے جانا نہیں چاہتا اس لئے کہ یہی طوفان، اس کی زندگی کا سرچشمہ بھی ہے اور اسے تازہ دم رکھنے کا ذریعہ بھی۔
اقبال طرح طرح کی باتیں کرتا ہے لیکن اس کی ہر تان ایک ہی جگہ پر آ کرٹوٹتی ہے اور وہ اس کا تصور زندگی ہے کہ جسے وہ پیہم کشاکش سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف تشبیہیں اور استعارے استعمال کرتا ہے۔ علامتیں وضع کرتا ہے اور اپنے خیال کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہر قسم کا فنی حربہ تلاش کرتا ہے۔
جس خیال کا اظہار اس نے آج کے شعر میں کیا ہے وہ اس کا عام تصور حیات ہے جس سے ہم بخوبی آشنا ہیں۔
چند شعر سنئی۔:
مثل ہے زمانہ با تو نسازد تو بازمانہ بساز
اقبال اس کہنہ اور فرسودہ سم کا قائل نہیں
وہ تو کہتا ہے
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
زمانہ تیرے موافق نہیں تو تو اسے اپنے موافق بنانے کے لئے تگ و دو کر۔ یہ شعر سنئے کتنا واضح، شوخ اور دلکش ہے۔
بدریا غلط و با موجش در آویز
حیات جاوداں اندر ستیز است
سمندر میں غلطاں ہو اور اس کی لہروں سے الجھ جا کیونکہ اسی کشمکش میں زندگی ہے۔ اس سے زیادہ خوبصورت بات سنئے کہتا ہے۔
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
ز منزل جادۂ پیچیدہ خوشتر
مجھے ایک صاحب دل نے یہ نکتہ بتایا کہ منزل سے بڑھ کر خوش آئند شے پر پیچ راستہ ہے جس پر مسافر گامزن ہوتا ہے۔
پروانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے
من آں پروانہ را پروانہ دانم
کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است
جلنا تو سبھی کو آتا ہے لیکن پروانہ وہ ہے جو اتنا سخت جان ہو کہ اپنے کو شعلے کے سپرد کر دینے کے بجائے شعلے کو نگل جائے۔اقبال تو اسی کشمکش حیات کو راز حیات سمجھتا ہے کہ جو خطرات حیات میں پوشیدہ ہے۔
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
اور اگر تجھے واقعی جان کی تلاش ہے تو اس تب و تاب، اور تڑپ کو طلب کر جو کہیں ختم نہ ہو۔
اگر جانے ہوس داری طلب کن
تب و تابے کہ پایابے مدار