صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ احباب۔ اِسی ماہ لکھے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں، اِس درخواست کے ساتھ کہ جہاں کہیں کمی بیشی نظر آئے ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ بہتری کی کوشش کی جا سکے۔ جزاکم اللہ خیر :)۔


صفحَہ صفحَہ گزر رہے ہیں دن
ہم ہیں کردار اِک فسانے کے

بزم میں پوچھتے ہیں حالِ دل
دیکھ انداز آزمانے کے

کُھل گئی آنکھ جب مریدوں کی
کُھل گئے بھید آستانے کے

لب پہ شکوہ، نہ اشک آنکھوں میں
سیکھ آداب دل لگانے کے

تنکا تنکا لُٹا دیا تم نے
تم محافظ تھے آشیانے کے


- نوید رزاق بٹ​
 
بھئی واہ، جناب قیصرانی صاحب، دیکھتے ہیں آپ کیا غضب کے شعر کہتے ہیں جناب نوید صاحب، واہ! کیا ہی اچھی غزل ہے بھئی! ہمارے اندر کے ناقد کی زبان پر تالا ڈال دیا حضور! :) :) :)
بس دوسرے شعر میں ہمیں حالِ دل میں ل کے کسرے کا اتنا زیادہ اشباع اچھا نہیں لگا، رائے یہ ہے کہ :بزم میں پوچھتے ہیں دل کا حال، کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ خدا نہ خواستہ خدا نہ خواستہ زبانم لال میں تنقید کر رہا ہوں! اللہ نہ کروائے جناب۔
 
بے حد شکریہ سر :)۔ آپ کی نشاندہی پر غور کیا ہے اور میرا خیال ہے آپ کی تجویز کو اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ میں اپنے پاس یہ تبدیلی کر لیتا ہوں۔ جزاک اللہ خیر :)۔
 

الف عین

لائبریرین
حالے دل تو درست ہو گیا ہے، لیکن بزممیں؟؟؟ اس کو یوں کر دو تو مزید بہتر ہو۔
حال دل پوچھتے ہیں محفل میں
 
آخری تدوین:
بے حد شکریہ سر :)۔ آپ کی نشاندہی پر غور کیا ہے اور میرا خیال ہے آپ کی تجویز کو اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ میں اپنے پاس یہ تبدیلی کر لیتا ہوں۔ جزاک اللہ خیر :)۔
استاد صاحب کی تجویز بتدریج بہتر اور فصیح تر ہے۔ دو م یکجا ہونے سے کراہیت پیدا ہو جاتی ہے۔
 
Top