ابھی کچھ دنوں قبل ایک مبلغ کا گھریلو مسائل پر جذباتی بیان بلکہ اپیل سننے کا اتفاق ہوا۔ معاشی کمزوری اور زمانے کے دجل نے ہر ہر مرد و عورت کو اپنے شکنجے میں مختلف اندازسے جکڑا ہوا ہے۔

جب نکاح ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ مرد، عورت، مرد کے گھر والے اور عورت کے گھر والوں کے درمیان ایک صلح نامہ تحریر ہوتا ہے ۔ اس میں دوسری سطح پر مرد کے سارے خاندان والے، عورت کے سارے خاندان والے اور عورت و مرد کے تمام دوست احباب اور ان کے ذریعے معاشرہ شریک ہوتا ہے۔ لوگ چھٹی لے کر شادی کی اس تقریب میں جاتے ہیں۔ سو آفس آفس، گھر گھر ، محلہ محلہ یہ بات پتہ چل جاتی ہے کہ فلاں عورت و مرد کے درمیان ایک صلح قرار پائی ہے۔ بعد میں اس صلح سے پیدا ہونے والے بچے بھی اس صلح نامہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بچوں کے دوست اور اسکول والے، اساتذہ، ٹیوشن اور قاری صاحب بھی اس صلح کو حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ صلح سب کے لیے خوشی کے علاوہ مالی منفعت کا باعث ہوتا ہے۔ صلح سے سب خوش ہوتے ہی ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ مرد و عورت کے علاوہ سب ہی لوگ جو اس صلح نامہ میں ایک طرح یا دوسری طرح شامل ہیں خوش ہوتے ہیں۔ اس صلح سے نئی نئی خبریں، نئے نئے موقعے، نئی نئی خوشیاں و غم وجود میں آتے ہیں۔

اب زمانے کی رفتار کہیے ،اپنی عقل کہیے یا کوئی اور وجہ، اگر خدانخواستہ یہ مرد و عورت کی یہ صلح ٹوٹ رہی ہو تو اس کو صلح کر کے ہی توڑنا چاہیے۔ وہ کیسے؟

مثلا اگر مرد اب اپنی عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا تو بحیثیت سربراہ وہ عورت کو ایک ماہ یا کم از کم تین دن کچھ آپشن دے سکتا ہے۔ اس کے بعد مرد عورت سے اس عرصے کے لیے دور ہوجائے۔ مثلا مرد دوسری شادی چاہتا ہے اور عورت نہیں چاہتی تو اب یہ تین آپشن اپنی عورت کو دیے جاسکتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ سب اس میں شامل ہو جائیں جو اولین خوشی بھری صلح کے موقعے پر شریک تھے۔ مشورہ ہو جائے، جذباتی صدمہ کم سے کم ہو جائے اور مالی صدمہ طے ہو جائے۔ خاص کر اگر مرد و عورت ایک دوسرے کی عزت نہ کر پا رہے ہوں، تو قبل اس کے کوئی اچانک اقدام اٹھایا جائے، مرد اس پورے عمل کو اپنے ہاتھ میں لے اور آپشن سامنے رکھ دے۔

مرد کہے کہ چونکہ ہمارے تمھارے درمیان عزت ختم ہو چکی ہے اس لیے یہ تعلق تمھارے لیے، میرے لیے اور بچوں کے لیے بھی سخت مضر ہے۔یہ ہم سب کے دین اور دنیا دونوں کے لیے مضر ہے۔اب تین راستے ہیں۔ دو میں تعلق بہت کم ہو جائے گا۔ ایک میں بالکل ختم ہو جائے گا۔ جب میں مالی طور پر مستحکم ہوں گا اور میری طبعیت بحال ہوئی تو بچوں کی تعلیم، صحت ، کپڑے اور ہر چیز کی ذمہ داری میری ہے۔

اب تین راستے غور سے سنو۔

1۔ تم کسی ڈاکٹر انجینئر یا پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی، جس کا خوش شکل اور دین دار ہونا ضروری ہے۔ اس کو میرے لیے تلاش کرو اور مجھ سے نکاح پر خوش دلی کے ساتھ راضی کر لو۔ نکاح کے کل اخراجات تم برداشت کرو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے، جو ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ سے بار بار ختم ہو جاتی ہے، ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔

2۔ یا یہ نہیں کر سکتیں تو مجھے نکاح کی مد میں پندرہ لاکھ دو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔ لڑکی میں خود تلاش کر لوں گا۔ تم اپنے آپ کو طلاق یافتہ ہی کی مانند سمجھنا ہو گا کیونکہ اگر ضرورت پڑی تو میں تمھیں طلاق دوں گا۔

ان دونوں طریق سے میرا آنا جانا اور تم سے ملنا کم ہو جائے گا اور عزت وصحت بحال ہو جائے گی۔ بچے بھی مطمئن انداز میں یکسو ہو کر پرورش پا جائیں گے۔ میں موقع با موقع ان سے ملتا رہوں گا اور سیر و تفریح کے لیے لے جاتا رہوں گا۔

3۔ اگر یہ دو راستے تمھیں منظور نہیں تو تیسرا طریقہ تمھیں تحریری طلاق ہے۔ تم میرے گھر سے نکل کر اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ گی۔ بچوں میں جو میرے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے اور جو تمہارے ساتھ جانا چاہے جا سکتا ہے۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے بچوں کا انتظام کروں گا۔ تم جب چاہو بچوں سے مل سکتی ہو۔ بچوں سے مکمل محبت کی پوری آزادی ہے۔ جتنی دیر اور جب بھی۔

اب تم تین دن سوچ لو۔ اتوار، پیر اور منگل۔ بدھ کی صبح تک مجھے جواب چاہیے۔ تاکہ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کروں۔

یہ آپشن دینے کی ایک مثال تھی۔

اس عمل سے فائدہ یہ ہوا کہ جذبات کے بجائے سوچ و بچار کر کے صلح نامہ کو ختم کیا جائے گا۔ اگر کچھ مال اور کچھ وقت کی قربانی سے صلح کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو فیصلہ تو مرد ہی نے کرنا ہے لیکن عورت بھی فیصلے میں شامل ہو جائے گی کہ اس نے تیسرا اور آخری آپشن منتخب کیا اور اسکو طلاق دی گئی۔ اگر طلاق کی نوبت آجائے تو اس آپشن کی تحریر کو صلح نامے کا حصہ بنا دیں۔ یہ بھی برکت اور خیر کا ذریعہ بنے گا۔
 
یہ کس قسم کا سربراہ ہے!
:) سربراہ کو ڈال لینے دیں سارے الم غلم تین یا زائد آپشنز میں۔ وہ آپشنز جن کو صلح حدیبیہ کی طرح آپ بالکل پسند نہ کرتے ہوں۔

تین دن تو دور کی بات، تیس گھنٹے یا تین گھنٹے میں ہی معاملہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔

ماموں، چاچا، تایا، ماں یا باپ عاقل ہوں، یہ ضروری نہیں ہے۔ :)

جب صلح نامے پر گفتگو کا وقت آئے تو کسی گھر کے عاقل، سماجی کارکن یا علاقے کے عالم دین کو ساتھ بیٹھا لیں۔ کوئی بھی ہو نرم مزاج اور مشہور عقل میں ہو۔

جن معاشروں اور گھرانوں میں صلح نامہ کو فروغ دیا جائے گا وہاں طلاق نامہ ختم ہو جاتا ہے۔

مثلا وٹہ سٹہ اور پسند کی شادی ہو گئی اور اب عورت یا مرد طلاق چاہتے ہیں۔

اب مرد اس طرح کے آپشنز دے اگر وہ عورت کو اسکے خاندانی دباؤ کی وجہ سے چھوڑنا چاہ رہا ہو۔

1- تم ہرگز اپنے والدین سے نہیں مل سکتیں۔ نہ ہی وہ یہاں آ سکتے ہیں اور نہ ہی تم وہاں جا سکتی ہو۔
2- میری صحت کا جو ان جھگڑوں سے حرج ہوا، اسکے دس لاکھ تمھیں ادا کرنے ہوں گے اور اگلے بارہ ماہ کا خرچہ تمھارے ذمے ہے۔
3۔ گھر اور باہر کے سارے کام تمہاری ذمہ داری ہیں۔

اب جب گفتگو کا وقت آئے گا تو عاقل سماجی کارکن یا نرم مزاج عقل مند امام مسجد یا پڑوسی، اس مرد کو ایک یا چند نشستوں میں صحیح بات پر لے آئے گا۔ اس کی صحیح تربیت کر دے گا۔ اس کی مچبت تعلیم کر دے گا۔

اسی طرح عورت اگر وٹہ سٹہ کی شادی کی وجہ سے علحیدہ کی جا رہی ہو یا مرد مجبور ہو کر اسے علحیدہ کر رہا ہو تو یہ آپشنز لکھے۔

1- والدین، بہن، بھائیوں اور گھر والوں کی عزت میری بیوی کی عزت سے زیادہ ہے۔
2- صرف مرد کے والدین کے خیالات اور توقعات کا خیال رکھا جائے، ہرگز ہرگز عورت کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔
3۔ شادی کا اصل مقصد عورت کے ساتھ محبت، عزت اور شراکت داری نہیں بلکہ والدین اور خاندان کی عزت ہے۔
4۔ بچوں کی سب ذمہ داری عورت کے گھر والوں کی ہے۔
5۔ وٹہ سٹہ کا یہی نتیجہ ہوتا ہے شادی میں زبردستی یا دباؤ بالکل صحیح ہے۔

اب جب تین دن بعد یا اس سے قبل ہی اس صلح نامے پر کوئی سماجی کارکن یا متوازن عقل کا عالم گفتگو کرے گا تو وہ والدین، بہن، بھائیوں اور گھر والوں کی مثبت تربیت کر دے گا اور اللہ کی رحمت سے امید ہے صلح نامہ حقیقی تعلیم اور صلح میں تبدیل ہو جائے گا اور طلاق نامے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
 
Top