سید رافع
معطل
ابھی کچھ دنوں قبل ایک مبلغ کا گھریلو مسائل پر جذباتی بیان بلکہ اپیل سننے کا اتفاق ہوا۔ معاشی کمزوری اور زمانے کے دجل نے ہر ہر مرد و عورت کو اپنے شکنجے میں مختلف اندازسے جکڑا ہوا ہے۔
جب نکاح ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ مرد، عورت، مرد کے گھر والے اور عورت کے گھر والوں کے درمیان ایک صلح نامہ تحریر ہوتا ہے ۔ اس میں دوسری سطح پر مرد کے سارے خاندان والے، عورت کے سارے خاندان والے اور عورت و مرد کے تمام دوست احباب اور ان کے ذریعے معاشرہ شریک ہوتا ہے۔ لوگ چھٹی لے کر شادی کی اس تقریب میں جاتے ہیں۔ سو آفس آفس، گھر گھر ، محلہ محلہ یہ بات پتہ چل جاتی ہے کہ فلاں عورت و مرد کے درمیان ایک صلح قرار پائی ہے۔ بعد میں اس صلح سے پیدا ہونے والے بچے بھی اس صلح نامہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بچوں کے دوست اور اسکول والے، اساتذہ، ٹیوشن اور قاری صاحب بھی اس صلح کو حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ صلح سب کے لیے خوشی کے علاوہ مالی منفعت کا باعث ہوتا ہے۔ صلح سے سب خوش ہوتے ہی ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ مرد و عورت کے علاوہ سب ہی لوگ جو اس صلح نامہ میں ایک طرح یا دوسری طرح شامل ہیں خوش ہوتے ہیں۔ اس صلح سے نئی نئی خبریں، نئے نئے موقعے، نئی نئی خوشیاں و غم وجود میں آتے ہیں۔
اب زمانے کی رفتار کہیے ،اپنی عقل کہیے یا کوئی اور وجہ، اگر خدانخواستہ یہ مرد و عورت کی یہ صلح ٹوٹ رہی ہو تو اس کو صلح کر کے ہی توڑنا چاہیے۔ وہ کیسے؟
مثلا اگر مرد اب اپنی عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا تو بحیثیت سربراہ وہ عورت کو ایک ماہ یا کم از کم تین دن کچھ آپشن دے سکتا ہے۔ اس کے بعد مرد عورت سے اس عرصے کے لیے دور ہوجائے۔ مثلا مرد دوسری شادی چاہتا ہے اور عورت نہیں چاہتی تو اب یہ تین آپشن اپنی عورت کو دیے جاسکتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ سب اس میں شامل ہو جائیں جو اولین خوشی بھری صلح کے موقعے پر شریک تھے۔ مشورہ ہو جائے، جذباتی صدمہ کم سے کم ہو جائے اور مالی صدمہ طے ہو جائے۔ خاص کر اگر مرد و عورت ایک دوسرے کی عزت نہ کر پا رہے ہوں، تو قبل اس کے کوئی اچانک اقدام اٹھایا جائے، مرد اس پورے عمل کو اپنے ہاتھ میں لے اور آپشن سامنے رکھ دے۔
مرد کہے کہ چونکہ ہمارے تمھارے درمیان عزت ختم ہو چکی ہے اس لیے یہ تعلق تمھارے لیے، میرے لیے اور بچوں کے لیے بھی سخت مضر ہے۔یہ ہم سب کے دین اور دنیا دونوں کے لیے مضر ہے۔اب تین راستے ہیں۔ دو میں تعلق بہت کم ہو جائے گا۔ ایک میں بالکل ختم ہو جائے گا۔ جب میں مالی طور پر مستحکم ہوں گا اور میری طبعیت بحال ہوئی تو بچوں کی تعلیم، صحت ، کپڑے اور ہر چیز کی ذمہ داری میری ہے۔
اب تین راستے غور سے سنو۔
1۔ تم کسی ڈاکٹر انجینئر یا پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی، جس کا خوش شکل اور دین دار ہونا ضروری ہے۔ اس کو میرے لیے تلاش کرو اور مجھ سے نکاح پر خوش دلی کے ساتھ راضی کر لو۔ نکاح کے کل اخراجات تم برداشت کرو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے، جو ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ سے بار بار ختم ہو جاتی ہے، ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔
2۔ یا یہ نہیں کر سکتیں تو مجھے نکاح کی مد میں پندرہ لاکھ دو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔ لڑکی میں خود تلاش کر لوں گا۔ تم اپنے آپ کو طلاق یافتہ ہی کی مانند سمجھنا ہو گا کیونکہ اگر ضرورت پڑی تو میں تمھیں طلاق دوں گا۔
ان دونوں طریق سے میرا آنا جانا اور تم سے ملنا کم ہو جائے گا اور عزت وصحت بحال ہو جائے گی۔ بچے بھی مطمئن انداز میں یکسو ہو کر پرورش پا جائیں گے۔ میں موقع با موقع ان سے ملتا رہوں گا اور سیر و تفریح کے لیے لے جاتا رہوں گا۔
3۔ اگر یہ دو راستے تمھیں منظور نہیں تو تیسرا طریقہ تمھیں تحریری طلاق ہے۔ تم میرے گھر سے نکل کر اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ گی۔ بچوں میں جو میرے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے اور جو تمہارے ساتھ جانا چاہے جا سکتا ہے۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے بچوں کا انتظام کروں گا۔ تم جب چاہو بچوں سے مل سکتی ہو۔ بچوں سے مکمل محبت کی پوری آزادی ہے۔ جتنی دیر اور جب بھی۔
اب تم تین دن سوچ لو۔ اتوار، پیر اور منگل۔ بدھ کی صبح تک مجھے جواب چاہیے۔ تاکہ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کروں۔
یہ آپشن دینے کی ایک مثال تھی۔
اس عمل سے فائدہ یہ ہوا کہ جذبات کے بجائے سوچ و بچار کر کے صلح نامہ کو ختم کیا جائے گا۔ اگر کچھ مال اور کچھ وقت کی قربانی سے صلح کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو فیصلہ تو مرد ہی نے کرنا ہے لیکن عورت بھی فیصلے میں شامل ہو جائے گی کہ اس نے تیسرا اور آخری آپشن منتخب کیا اور اسکو طلاق دی گئی۔ اگر طلاق کی نوبت آجائے تو اس آپشن کی تحریر کو صلح نامے کا حصہ بنا دیں۔ یہ بھی برکت اور خیر کا ذریعہ بنے گا۔
جب نکاح ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ مرد، عورت، مرد کے گھر والے اور عورت کے گھر والوں کے درمیان ایک صلح نامہ تحریر ہوتا ہے ۔ اس میں دوسری سطح پر مرد کے سارے خاندان والے، عورت کے سارے خاندان والے اور عورت و مرد کے تمام دوست احباب اور ان کے ذریعے معاشرہ شریک ہوتا ہے۔ لوگ چھٹی لے کر شادی کی اس تقریب میں جاتے ہیں۔ سو آفس آفس، گھر گھر ، محلہ محلہ یہ بات پتہ چل جاتی ہے کہ فلاں عورت و مرد کے درمیان ایک صلح قرار پائی ہے۔ بعد میں اس صلح سے پیدا ہونے والے بچے بھی اس صلح نامہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بچوں کے دوست اور اسکول والے، اساتذہ، ٹیوشن اور قاری صاحب بھی اس صلح کو حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ صلح سب کے لیے خوشی کے علاوہ مالی منفعت کا باعث ہوتا ہے۔ صلح سے سب خوش ہوتے ہی ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ مرد و عورت کے علاوہ سب ہی لوگ جو اس صلح نامہ میں ایک طرح یا دوسری طرح شامل ہیں خوش ہوتے ہیں۔ اس صلح سے نئی نئی خبریں، نئے نئے موقعے، نئی نئی خوشیاں و غم وجود میں آتے ہیں۔
اب زمانے کی رفتار کہیے ،اپنی عقل کہیے یا کوئی اور وجہ، اگر خدانخواستہ یہ مرد و عورت کی یہ صلح ٹوٹ رہی ہو تو اس کو صلح کر کے ہی توڑنا چاہیے۔ وہ کیسے؟
مثلا اگر مرد اب اپنی عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا تو بحیثیت سربراہ وہ عورت کو ایک ماہ یا کم از کم تین دن کچھ آپشن دے سکتا ہے۔ اس کے بعد مرد عورت سے اس عرصے کے لیے دور ہوجائے۔ مثلا مرد دوسری شادی چاہتا ہے اور عورت نہیں چاہتی تو اب یہ تین آپشن اپنی عورت کو دیے جاسکتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ سب اس میں شامل ہو جائیں جو اولین خوشی بھری صلح کے موقعے پر شریک تھے۔ مشورہ ہو جائے، جذباتی صدمہ کم سے کم ہو جائے اور مالی صدمہ طے ہو جائے۔ خاص کر اگر مرد و عورت ایک دوسرے کی عزت نہ کر پا رہے ہوں، تو قبل اس کے کوئی اچانک اقدام اٹھایا جائے، مرد اس پورے عمل کو اپنے ہاتھ میں لے اور آپشن سامنے رکھ دے۔
مرد کہے کہ چونکہ ہمارے تمھارے درمیان عزت ختم ہو چکی ہے اس لیے یہ تعلق تمھارے لیے، میرے لیے اور بچوں کے لیے بھی سخت مضر ہے۔یہ ہم سب کے دین اور دنیا دونوں کے لیے مضر ہے۔اب تین راستے ہیں۔ دو میں تعلق بہت کم ہو جائے گا۔ ایک میں بالکل ختم ہو جائے گا۔ جب میں مالی طور پر مستحکم ہوں گا اور میری طبعیت بحال ہوئی تو بچوں کی تعلیم، صحت ، کپڑے اور ہر چیز کی ذمہ داری میری ہے۔
اب تین راستے غور سے سنو۔
1۔ تم کسی ڈاکٹر انجینئر یا پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی، جس کا خوش شکل اور دین دار ہونا ضروری ہے۔ اس کو میرے لیے تلاش کرو اور مجھ سے نکاح پر خوش دلی کے ساتھ راضی کر لو۔ نکاح کے کل اخراجات تم برداشت کرو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے، جو ازدواجی زندگی کی اونچ نیچ سے بار بار ختم ہو جاتی ہے، ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔
2۔ یا یہ نہیں کر سکتیں تو مجھے نکاح کی مد میں پندرہ لاکھ دو۔ جب تک میری نوکری نہ ہو جائے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ مجھے دو۔ لڑکی میں خود تلاش کر لوں گا۔ تم اپنے آپ کو طلاق یافتہ ہی کی مانند سمجھنا ہو گا کیونکہ اگر ضرورت پڑی تو میں تمھیں طلاق دوں گا۔
ان دونوں طریق سے میرا آنا جانا اور تم سے ملنا کم ہو جائے گا اور عزت وصحت بحال ہو جائے گی۔ بچے بھی مطمئن انداز میں یکسو ہو کر پرورش پا جائیں گے۔ میں موقع با موقع ان سے ملتا رہوں گا اور سیر و تفریح کے لیے لے جاتا رہوں گا۔
3۔ اگر یہ دو راستے تمھیں منظور نہیں تو تیسرا طریقہ تمھیں تحریری طلاق ہے۔ تم میرے گھر سے نکل کر اپنے گھر واپس لوٹ جاؤ گی۔ بچوں میں جو میرے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے اور جو تمہارے ساتھ جانا چاہے جا سکتا ہے۔ میں اپنے ساتھ رہنے والے بچوں کا انتظام کروں گا۔ تم جب چاہو بچوں سے مل سکتی ہو۔ بچوں سے مکمل محبت کی پوری آزادی ہے۔ جتنی دیر اور جب بھی۔
اب تم تین دن سوچ لو۔ اتوار، پیر اور منگل۔ بدھ کی صبح تک مجھے جواب چاہیے۔ تاکہ میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کروں۔
یہ آپشن دینے کی ایک مثال تھی۔
اس عمل سے فائدہ یہ ہوا کہ جذبات کے بجائے سوچ و بچار کر کے صلح نامہ کو ختم کیا جائے گا۔ اگر کچھ مال اور کچھ وقت کی قربانی سے صلح کو برقرار رکھا جا سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو فیصلہ تو مرد ہی نے کرنا ہے لیکن عورت بھی فیصلے میں شامل ہو جائے گی کہ اس نے تیسرا اور آخری آپشن منتخب کیا اور اسکو طلاق دی گئی۔ اگر طلاق کی نوبت آجائے تو اس آپشن کی تحریر کو صلح نامے کا حصہ بنا دیں۔ یہ بھی برکت اور خیر کا ذریعہ بنے گا۔