صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا ۔ چوہدری محمد علی مضطر عارفی

فاتح

لائبریرین
صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا
نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا

حریفِ دار بھی پروردگار! دینا تھا
دیا تھا غم تو کوئی غم گسار دینا تھا

یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی
یہ وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا

وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں
اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا

میں اپنی تنگیِ داماں کا عذر کیا کرتا
وہ دے رہا تھا، اسے بے شمار دینا تھا

تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے
کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا

نہیں بتانا تھا لوگوں کو اپنا نام پتا
سرِ صلیب کوئی اشتہار دینا تھا

وہ بے لحاظ بھی کہتا کبھی خدا لگتی
اسے بھی زخم کوئی مستعار دینا تھا

وہ برگزیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے
کہ پھولنا تھا اسے برگ و بار دینا تھا

ہمیں بھی عہد کے انجام سے تھی دلچسپی
کہ ہم فقیروں کا اس نے ادھار دینا تھا

اٹھائے پھرتے ہو مضطرؔ! اجاڑ گلیوں میں
یہ سر کا بوجھ تو سر سے اتار دینا تھا

(چوہدری محمد علی مضطرؔ عارفی)
 

محمداحمد

لائبریرین
فاتح بھائی!

اس قدر خوبصورت غزل ہے کہ اسے سراہنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں میرے پاس۔

کیا بات ہے۔ خوش رہیے۔
 

محسن حجازی

محفلین
بہت اچھے۔ ہماری طرف سے بھی شکریہ قبول فرمائیے۔ اور سنا ہے کہ ٹیکسلا کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں آپ؟
 

فاتح

لائبریرین
اردے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے :)

اگر آپ سا ہمسفر میسر آ جائے تو یہ ارادہ جلد پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ کیا خیال ہے؟
 
Top