ایم اسلم اوڈ
محفلین
28جنوری 2010ءکو لندن میں مغربی صلیبی لیڈروں کا ایک اجتماع ہوا جس میں یہ جائزہ لیا گیا کہ افغانستان میں گزشتہ نو برسوں سے لڑی جانے والی صلیبی جنگ مزید جاری رکھی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس کانفرنس میں 60ملکوں نے شرکت کی اور غوروخوض کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد اب افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کیے جائیں اور چونکہ طالبان بات چیت کے لیے صلیبی فوجوں کے انخلاءکی شرط پر مصر ہیں، اس لیے ”اچھے“ طالبان کو خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن لندن کانفرنس کے موقع پر افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر سٹینلے میکرسٹل نے فنانشل ٹائمز سے جو گفتگو کی وہ بہت حیرت انگیز ہے، اس میں جنرل میکرسٹل نے کہا:
”ایک سپاہی کی حیثیت سے میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ لڑائی کافی ہو چکی“ (لہٰذا اب مذاکرات کا ڈول ڈالیں) انہوں نے مزید کہا: ”آٹھ سال کی جنگ سے یہ واضح ہے کہ کئی (مغربی) سیاسی لیڈر اب کہنے لگے ہیں کہ یہ جنگ بہت طول پکڑ گئی ہے اور یہ جیسی 2004ءمیں لڑی جا رہی تھی، آج اس سے کچھ بہتر نہیں، پھر ہم کیوں خواہ مخواہ لڑے جا رہے ہیں؟ اس سے کیا بہتری ہو گی؟“ ادھر ہالینڈ میں افغانستان سے ڈچ فوج واپس نہ بلانے پر مخلوط حکومت ٹوٹ گئی ہے کیونکہ لیبر پارٹی چاہتی ہے کہ ہالینڈ کے دو ہزار فوجی افغانستان سے فوری طور پر واپس بلا لیے جائیں۔
خرابی اور تباہی بسیار کے بعد امریکیوں کا سرِپُرغرور جو زمین کی طرف آنے لگا ہے تو اس کی وجہ طالبان کا وہ لازوال جذبہ مزاحمت و مقاومت ہے جس نے ماضی میں برطانیہ اور روس جیسی سامراجی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ چند ماہ پہلے 26اکتوبر کو افغانستان میں ایک ہی دن تین اتحادی ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔ دو ہیلی کاپٹروں کے متعلق بتایا گیا کہ وہ آپس میں ٹکرا گئے تھے (اگرچہ مجاہدین نے انہیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا) اور تیسرا ہیلی کاپٹر بے گناہ لوگوں پر بمباری کر کے لوٹ رہا تھا کہ مجاہدین کی فائرنگ کی زد میں آ گیا۔ اس تباہی میں 11امریکی فوجیوں سمیت 14اتحادی فوجی جہنم رسید ہوئے۔ اس کے اگلے روز بارودی سرنگ کے ساتھ گاڑی ٹکرانے سے 8امریکی فوجی واصل جہنم ہوئے۔ یوں ایک ماہ میں 60کے قریب امریکی و اتحادی فوج موت کا ایندھن بن گئے۔ پھر ایک ماہ بعد خوست میں سی آئی اے کے سات گُرگوں کی ہلاکت پر تو واشنگٹن ہل کے رہ گیا۔ خوست کے اس بہت مضبوط امریکی اڈے پر طالبان کی مجاہدانہ یلغار دنیا بھر کے لیے حیرت انگیز تھی۔ اس حملے میں جو آٹھواں شخص ہلاک ہوا وہ اردن کا انٹیلی جنس آفیسر کیپٹن شریف علی بن زید تھا۔ شریف علی زید اور امریکیوں کو اردنی مجاہد ہمام خلیل البلوی نے القاعدہ کے سیکنڈ ان کمان ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ٹھکانے تک لے جانے کا جھانسا دیا تھا۔ یوں ہمام خلیل شہید ان لعنتیوں کے لیے موت کا پیغام بن گئے۔ ادھر اردنی حکومت نے اعلان کیا کہ کیپٹن شریف علی افغانستان میں ”انسانیت نواز“ مشن پر تھا۔ گویا وحشی صلیبیوں کا آلہ کار بننا ”انسانیت نوازی“ ہے!
اس وقت افغانستان میں امریکیوں کو جس شکست اور بدترین رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس پر انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اب اپنی حفاظت کے لئے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ بھرتی کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کی انوکھی فوج ہو گی جو اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ ساتھ رکھے گی۔ اخبار کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے ایک خفیہ مراسلے میں افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اڈوں اور فوجی قافلوں کی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ تعینات کریں جو حفاظتی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ طالبان کے حملوں کا جواب بھی دیں گے۔ یوں دارالحکومت کابل اور دیگر صوبوں میں فارورڈ آپریٹنگ بیسز اور اہم چیک پوسٹوں کی حفاظت کے لیے بڑی امریکی نجی فوجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے مسلسل اور منظم حملوں سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس کے لیے بلیک واٹر، ٹرپل کینوپی یا کے بی آر کو ٹھیکہ دیا جا رہا ہے۔ ادھر امریکی فوج کی خاتون ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی فوج نے متعدد امریکی فوجی اڈوں کی حفاظت کے لیے 72معاہدے کیے ہیں جن کے تحت امریکی اڈوں پر 5600سویلین سیکیورٹی گارڈ تعینات کیے جا چکے ہیں۔ ان میں اکثریت افغانی نوجوانوں کی ہے جنہیں ایک امریکی سیکیورٹی کمپنی نے بھاری تنخواہ پر بھرتی کیا ہے۔
دریں اثناءنیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں زیادہ تر ڈرون حملے اب افغانی صوبہ ننگرہار میں جلال آباد میں قائم کیے گئے نئے اڈے سے کیے جا رہے ہیں، نیز القاعدہ کے اہم رہنماﺅں کی ہلاکت کا منصوبہ اب بدنام زمانہ بلیک واٹر کو سونپ دیا گیا ہے اور اس خفیہ امریکی تنظیم نے سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ لے لی ہے۔ ادھر امریکی سنٹرل کمانڈ کے تحت جنرل ڈیوڈ پیٹراﺅس نے نیا انٹیلی جنس ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو ”ایف پاک“ امور پر فوجی افسروں، خفیہ ایجنٹوں اور تجزیہ نگاروں کی تربیت کرے گا جو ایک دہائی کے لیے کام کرنے پر رضامند ہوں گے۔ واشنگٹن ٹائمز کی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ دفاعی خفیہ ایجنسی کے ریٹائرڈ کرنل ڈیرک ہاروے ہوں گے۔ وہ 2007-08ءمیں عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے جنرل پیٹراﺅس کے قابل اعتماد تجزیہ کار رہے۔ اخبار کے مطابق یہ نیا ادارہ عراقی تجربات اور افغانستان و پاکستان کے جنگجوﺅں اور پالیسی ساز افراد سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر حکمت عملی تشکیل دے گا۔ اس کے مرکز میں مستقبل کے تجزیہ کاروں، افسروں اور خفیہ اہلکاروں کو پشتو، اردو اور دیگر مقامی زبانوں اور ثقافت کے کورس کروائے جائیں گے۔
پچھلی گرمیوں میں ہلمند (جنوبی افغانستان) میں امریکی فوجی آپریشن جو جنرل سٹینلے میکرسٹل کے لیے ٹیسٹ کیس تھا، بری طرح ناکام رہا۔ اور اب وہیں ”آپریشن مشترک“ کی ناکامی نے دو لاکھ مصروف جنگ اتحادی افواج کی قوت و سطوت کی قلعی کھول دی ہے اور طالبان کی جرا¿ت مندانہ عسکری کارروائیوں نے امریکی و اتحادی حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتحادیوں نے جھلا کر 22 فروری کو ارزگان میں اندھا دھند بمباری کر کے 33 عورتیں، بچے اور مرد شہید کر دیئے۔ یہ وحشیانہ کارروائی آپریشن مشترک میں خاطرخواہ کامیابی نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ ادھر امریکی صحافی ایرک مارگولیس نے خلیج ٹائمز کے ایک حالیہ شمارے میں ”پاکستان کی امریکی راج میں شمولیت“ کے عنوان سے لکھا ہے: ”امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے شعلے اب پاکستان تک پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے 167ملین لوگوں کا تزویراتی اہمیت کا ملک اب خانہ جنگی کے دہانے پر ہے.
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-05-40&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2
”ایک سپاہی کی حیثیت سے میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ لڑائی کافی ہو چکی“ (لہٰذا اب مذاکرات کا ڈول ڈالیں) انہوں نے مزید کہا: ”آٹھ سال کی جنگ سے یہ واضح ہے کہ کئی (مغربی) سیاسی لیڈر اب کہنے لگے ہیں کہ یہ جنگ بہت طول پکڑ گئی ہے اور یہ جیسی 2004ءمیں لڑی جا رہی تھی، آج اس سے کچھ بہتر نہیں، پھر ہم کیوں خواہ مخواہ لڑے جا رہے ہیں؟ اس سے کیا بہتری ہو گی؟“ ادھر ہالینڈ میں افغانستان سے ڈچ فوج واپس نہ بلانے پر مخلوط حکومت ٹوٹ گئی ہے کیونکہ لیبر پارٹی چاہتی ہے کہ ہالینڈ کے دو ہزار فوجی افغانستان سے فوری طور پر واپس بلا لیے جائیں۔
خرابی اور تباہی بسیار کے بعد امریکیوں کا سرِپُرغرور جو زمین کی طرف آنے لگا ہے تو اس کی وجہ طالبان کا وہ لازوال جذبہ مزاحمت و مقاومت ہے جس نے ماضی میں برطانیہ اور روس جیسی سامراجی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ چند ماہ پہلے 26اکتوبر کو افغانستان میں ایک ہی دن تین اتحادی ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔ دو ہیلی کاپٹروں کے متعلق بتایا گیا کہ وہ آپس میں ٹکرا گئے تھے (اگرچہ مجاہدین نے انہیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا) اور تیسرا ہیلی کاپٹر بے گناہ لوگوں پر بمباری کر کے لوٹ رہا تھا کہ مجاہدین کی فائرنگ کی زد میں آ گیا۔ اس تباہی میں 11امریکی فوجیوں سمیت 14اتحادی فوجی جہنم رسید ہوئے۔ اس کے اگلے روز بارودی سرنگ کے ساتھ گاڑی ٹکرانے سے 8امریکی فوجی واصل جہنم ہوئے۔ یوں ایک ماہ میں 60کے قریب امریکی و اتحادی فوج موت کا ایندھن بن گئے۔ پھر ایک ماہ بعد خوست میں سی آئی اے کے سات گُرگوں کی ہلاکت پر تو واشنگٹن ہل کے رہ گیا۔ خوست کے اس بہت مضبوط امریکی اڈے پر طالبان کی مجاہدانہ یلغار دنیا بھر کے لیے حیرت انگیز تھی۔ اس حملے میں جو آٹھواں شخص ہلاک ہوا وہ اردن کا انٹیلی جنس آفیسر کیپٹن شریف علی بن زید تھا۔ شریف علی زید اور امریکیوں کو اردنی مجاہد ہمام خلیل البلوی نے القاعدہ کے سیکنڈ ان کمان ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ٹھکانے تک لے جانے کا جھانسا دیا تھا۔ یوں ہمام خلیل شہید ان لعنتیوں کے لیے موت کا پیغام بن گئے۔ ادھر اردنی حکومت نے اعلان کیا کہ کیپٹن شریف علی افغانستان میں ”انسانیت نواز“ مشن پر تھا۔ گویا وحشی صلیبیوں کا آلہ کار بننا ”انسانیت نوازی“ ہے!
اس وقت افغانستان میں امریکیوں کو جس شکست اور بدترین رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس پر انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اب اپنی حفاظت کے لئے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ بھرتی کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کی انوکھی فوج ہو گی جو اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ ساتھ رکھے گی۔ اخبار کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے ایک خفیہ مراسلے میں افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اڈوں اور فوجی قافلوں کی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ تعینات کریں جو حفاظتی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ طالبان کے حملوں کا جواب بھی دیں گے۔ یوں دارالحکومت کابل اور دیگر صوبوں میں فارورڈ آپریٹنگ بیسز اور اہم چیک پوسٹوں کی حفاظت کے لیے بڑی امریکی نجی فوجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے مسلسل اور منظم حملوں سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس کے لیے بلیک واٹر، ٹرپل کینوپی یا کے بی آر کو ٹھیکہ دیا جا رہا ہے۔ ادھر امریکی فوج کی خاتون ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی فوج نے متعدد امریکی فوجی اڈوں کی حفاظت کے لیے 72معاہدے کیے ہیں جن کے تحت امریکی اڈوں پر 5600سویلین سیکیورٹی گارڈ تعینات کیے جا چکے ہیں۔ ان میں اکثریت افغانی نوجوانوں کی ہے جنہیں ایک امریکی سیکیورٹی کمپنی نے بھاری تنخواہ پر بھرتی کیا ہے۔
دریں اثناءنیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں زیادہ تر ڈرون حملے اب افغانی صوبہ ننگرہار میں جلال آباد میں قائم کیے گئے نئے اڈے سے کیے جا رہے ہیں، نیز القاعدہ کے اہم رہنماﺅں کی ہلاکت کا منصوبہ اب بدنام زمانہ بلیک واٹر کو سونپ دیا گیا ہے اور اس خفیہ امریکی تنظیم نے سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ لے لی ہے۔ ادھر امریکی سنٹرل کمانڈ کے تحت جنرل ڈیوڈ پیٹراﺅس نے نیا انٹیلی جنس ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو ”ایف پاک“ امور پر فوجی افسروں، خفیہ ایجنٹوں اور تجزیہ نگاروں کی تربیت کرے گا جو ایک دہائی کے لیے کام کرنے پر رضامند ہوں گے۔ واشنگٹن ٹائمز کی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ دفاعی خفیہ ایجنسی کے ریٹائرڈ کرنل ڈیرک ہاروے ہوں گے۔ وہ 2007-08ءمیں عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے جنرل پیٹراﺅس کے قابل اعتماد تجزیہ کار رہے۔ اخبار کے مطابق یہ نیا ادارہ عراقی تجربات اور افغانستان و پاکستان کے جنگجوﺅں اور پالیسی ساز افراد سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر حکمت عملی تشکیل دے گا۔ اس کے مرکز میں مستقبل کے تجزیہ کاروں، افسروں اور خفیہ اہلکاروں کو پشتو، اردو اور دیگر مقامی زبانوں اور ثقافت کے کورس کروائے جائیں گے۔
پچھلی گرمیوں میں ہلمند (جنوبی افغانستان) میں امریکی فوجی آپریشن جو جنرل سٹینلے میکرسٹل کے لیے ٹیسٹ کیس تھا، بری طرح ناکام رہا۔ اور اب وہیں ”آپریشن مشترک“ کی ناکامی نے دو لاکھ مصروف جنگ اتحادی افواج کی قوت و سطوت کی قلعی کھول دی ہے اور طالبان کی جرا¿ت مندانہ عسکری کارروائیوں نے امریکی و اتحادی حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتحادیوں نے جھلا کر 22 فروری کو ارزگان میں اندھا دھند بمباری کر کے 33 عورتیں، بچے اور مرد شہید کر دیئے۔ یہ وحشیانہ کارروائی آپریشن مشترک میں خاطرخواہ کامیابی نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ ادھر امریکی صحافی ایرک مارگولیس نے خلیج ٹائمز کے ایک حالیہ شمارے میں ”پاکستان کی امریکی راج میں شمولیت“ کے عنوان سے لکھا ہے: ”امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے شعلے اب پاکستان تک پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے 167ملین لوگوں کا تزویراتی اہمیت کا ملک اب خانہ جنگی کے دہانے پر ہے.
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-05-40&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2