صلیبی جرنیل میکرسٹل نے ہاتھ کھڑے کر دیے

28جنوری 2010ءکو لندن میں مغربی صلیبی لیڈروں کا ایک اجتماع ہوا جس میں یہ جائزہ لیا گیا کہ افغانستان میں گزشتہ نو برسوں سے لڑی جانے والی صلیبی جنگ مزید جاری رکھی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس کانفرنس میں 60ملکوں نے شرکت کی اور غوروخوض کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد اب افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کیے جائیں اور چونکہ طالبان بات چیت کے لیے صلیبی فوجوں کے انخلاءکی شرط پر مصر ہیں، اس لیے ”اچھے“ طالبان کو خریدنے کے لیے ایک ارب ڈالر مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن لندن کانفرنس کے موقع پر افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر سٹینلے میکرسٹل نے فنانشل ٹائمز سے جو گفتگو کی وہ بہت حیرت انگیز ہے، اس میں جنرل میکرسٹل نے کہا:
”ایک سپاہی کی حیثیت سے میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ لڑائی کافی ہو چکی“ (لہٰذا اب مذاکرات کا ڈول ڈالیں) انہوں نے مزید کہا: ”آٹھ سال کی جنگ سے یہ واضح ہے کہ کئی (مغربی) سیاسی لیڈر اب کہنے لگے ہیں کہ یہ جنگ بہت طول پکڑ گئی ہے اور یہ جیسی 2004ءمیں لڑی جا رہی تھی، آج اس سے کچھ بہتر نہیں، پھر ہم کیوں خواہ مخواہ لڑے جا رہے ہیں؟ اس سے کیا بہتری ہو گی؟“ ادھر ہالینڈ میں افغانستان سے ڈچ فوج واپس نہ بلانے پر مخلوط حکومت ٹوٹ گئی ہے کیونکہ لیبر پارٹی چاہتی ہے کہ ہالینڈ کے دو ہزار فوجی افغانستان سے فوری طور پر واپس بلا لیے جائیں۔


خرابی اور تباہی بسیار کے بعد امریکیوں کا سرِپُرغرور جو زمین کی طرف آنے لگا ہے تو اس کی وجہ طالبان کا وہ لازوال جذبہ مزاحمت و مقاومت ہے جس نے ماضی میں برطانیہ اور روس جیسی سامراجی طاقتوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ چند ماہ پہلے 26اکتوبر کو افغانستان میں ایک ہی دن تین اتحادی ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔ دو ہیلی کاپٹروں کے متعلق بتایا گیا کہ وہ آپس میں ٹکرا گئے تھے (اگرچہ مجاہدین نے انہیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا) اور تیسرا ہیلی کاپٹر بے گناہ لوگوں پر بمباری کر کے لوٹ رہا تھا کہ مجاہدین کی فائرنگ کی زد میں آ گیا۔ اس تباہی میں 11امریکی فوجیوں سمیت 14اتحادی فوجی جہنم رسید ہوئے۔ اس کے اگلے روز بارودی سرنگ کے ساتھ گاڑی ٹکرانے سے 8امریکی فوجی واصل جہنم ہوئے۔ یوں ایک ماہ میں 60کے قریب امریکی و اتحادی فوج موت کا ایندھن بن گئے۔ پھر ایک ماہ بعد خوست میں سی آئی اے کے سات گُرگوں کی ہلاکت پر تو واشنگٹن ہل کے رہ گیا۔ خوست کے اس بہت مضبوط امریکی اڈے پر طالبان کی مجاہدانہ یلغار دنیا بھر کے لیے حیرت انگیز تھی۔ اس حملے میں جو آٹھواں شخص ہلاک ہوا وہ اردن کا انٹیلی جنس آفیسر کیپٹن شریف علی بن زید تھا۔ شریف علی زید اور امریکیوں کو اردنی مجاہد ہمام خلیل البلوی نے القاعدہ کے سیکنڈ ان کمان ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ٹھکانے تک لے جانے کا جھانسا دیا تھا۔ یوں ہمام خلیل شہید ان لعنتیوں کے لیے موت کا پیغام بن گئے۔ ادھر اردنی حکومت نے اعلان کیا کہ کیپٹن شریف علی افغانستان میں ”انسانیت نواز“ مشن پر تھا۔ گویا وحشی صلیبیوں کا آلہ کار بننا ”انسانیت نوازی“ ہے!


اس وقت افغانستان میں امریکیوں کو جس شکست اور بدترین رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس پر انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اب اپنی حفاظت کے لئے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ بھرتی کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا کی انوکھی فوج ہو گی جو اپنی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ ساتھ رکھے گی۔ اخبار کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے ایک خفیہ مراسلے میں افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اڈوں اور فوجی قافلوں کی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ تعینات کریں جو حفاظتی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ طالبان کے حملوں کا جواب بھی دیں گے۔ یوں دارالحکومت کابل اور دیگر صوبوں میں فارورڈ آپریٹنگ بیسز اور اہم چیک پوسٹوں کی حفاظت کے لیے بڑی امریکی نجی فوجی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے طالبان کے مسلسل اور منظم حملوں سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھایا ہے اور اس کے لیے بلیک واٹر، ٹرپل کینوپی یا کے بی آر کو ٹھیکہ دیا جا رہا ہے۔ ادھر امریکی فوج کی خاتون ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی فوج نے متعدد امریکی فوجی اڈوں کی حفاظت کے لیے 72معاہدے کیے ہیں جن کے تحت امریکی اڈوں پر 5600سویلین سیکیورٹی گارڈ تعینات کیے جا چکے ہیں۔ ان میں اکثریت افغانی نوجوانوں کی ہے جنہیں ایک امریکی سیکیورٹی کمپنی نے بھاری تنخواہ پر بھرتی کیا ہے۔


دریں اثناءنیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں زیادہ تر ڈرون حملے اب افغانی صوبہ ننگرہار میں جلال آباد میں قائم کیے گئے نئے اڈے سے کیے جا رہے ہیں، نیز القاعدہ کے اہم رہنماﺅں کی ہلاکت کا منصوبہ اب بدنام زمانہ بلیک واٹر کو سونپ دیا گیا ہے اور اس خفیہ امریکی تنظیم نے سی آئی اے کے اہلکاروں کی جگہ لے لی ہے۔ ادھر امریکی سنٹرل کمانڈ کے تحت جنرل ڈیوڈ پیٹراﺅس نے نیا انٹیلی جنس ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو ”ایف پاک“ امور پر فوجی افسروں، خفیہ ایجنٹوں اور تجزیہ نگاروں کی تربیت کرے گا جو ایک دہائی کے لیے کام کرنے پر رضامند ہوں گے۔ واشنگٹن ٹائمز کی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ دفاعی خفیہ ایجنسی کے ریٹائرڈ کرنل ڈیرک ہاروے ہوں گے۔ وہ 2007-08ءمیں عراق میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے جنرل پیٹراﺅس کے قابل اعتماد تجزیہ کار رہے۔ اخبار کے مطابق یہ نیا ادارہ عراقی تجربات اور افغانستان و پاکستان کے جنگجوﺅں اور پالیسی ساز افراد سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر حکمت عملی تشکیل دے گا۔ اس کے مرکز میں مستقبل کے تجزیہ کاروں، افسروں اور خفیہ اہلکاروں کو پشتو، اردو اور دیگر مقامی زبانوں اور ثقافت کے کورس کروائے جائیں گے۔


پچھلی گرمیوں میں ہلمند (جنوبی افغانستان) میں امریکی فوجی آپریشن جو جنرل سٹینلے میکرسٹل کے لیے ٹیسٹ کیس تھا، بری طرح ناکام رہا۔ اور اب وہیں ”آپریشن مشترک“ کی ناکامی نے دو لاکھ مصروف جنگ اتحادی افواج کی قوت و سطوت کی قلعی کھول دی ہے اور طالبان کی جرا¿ت مندانہ عسکری کارروائیوں نے امریکی و اتحادی حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتحادیوں نے جھلا کر 22 فروری کو ارزگان میں اندھا دھند بمباری کر کے 33 عورتیں، بچے اور مرد شہید کر دیئے۔ یہ وحشیانہ کارروائی آپریشن مشترک میں خاطرخواہ کامیابی نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ ادھر امریکی صحافی ایرک مارگولیس نے خلیج ٹائمز کے ایک حالیہ شمارے میں ”پاکستان کی امریکی راج میں شمولیت“ کے عنوان سے لکھا ہے: ”امریکہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے شعلے اب پاکستان تک پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے 167ملین لوگوں کا تزویراتی اہمیت کا ملک اب خانہ جنگی کے دہانے پر ہے.
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-05-40&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2
 

عسکری

معطل
میرا نہیں خیال یہاں کوئی صلیبی یا اسلامی جنرل ہیں یہ ملکوں کی لڑائی ہے ملکوں کے لیے۔صلیب کا اپنا وجود مٹ چکا یورپ سےِ ۔آج پوپ کو جنسی معاملات کی وجہ سے جس زلالت کا سامنا ہے کیا اب بھی صلیبیت باقی ہے؟
 

arifkarim

معطل
میرا نہیں خیال یہاں کوئی صلیبی یا اسلامی جنرل ہیں یہ ملکوں کی لڑائی ہے ملکوں کے لیے۔صلیب کا اپنا وجود مٹ چکا یورپ سےِ ۔آج پوپ کو جنسی معاملات کی وجہ سے جس زلالت کا سامنا ہے کیا اب بھی صلیبیت باقی ہے؟

جی ہاں‌موجودہ جنگ شیطانیت اور انسانیت کے درمیان ہے۔ مذہب کی لڑائیاں پرانے وقتوں کی میراث ہیں۔
 
السلام علیکم
مجھے بڑا عجیب لگتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ موجودہ جاری جنگیں مذہبی نہیں ہیں یا اسلام کے خلاف نہیں ، ایسا پہلے ہوا تھا اب نہیں ہورہا اسکی الگ الگ توجیح لوگ کرتے ہیں ، جو امریکہ یا اس کے ہم خیال یا پھر تنخواہ دار ہیں وہ تو امن و دہشت گردی کو ان جنگوں کی وجہ قرار دیتے ہیں ۔ اور جو ان کے خلاف ہیں وہ کچھ اس قسم کے خیال کا اظہار کرتے ہیں جیسے جناب عارف کریم صاحب نے کیا ، کیا موجودہ لڑائیاں اور کیا پہلے ہونے والی لڑائیاں ، ساری کی ساری غیر مذہبی ہی تھیں۔ بس پہلے نام ان کو صلیبی جنگوں کا دیا گیا تھا ، اور آج انھیں جنگوں کو قیام امن اور انسداد دہشت گردی کا نام دیا گیا ہے ، پہلے بھی عیسائت اتنی شفاف نہیں تھی کہ آج ہم چند عیسائی صلیبی پجاریوں کی موجودہ حرکتوں سے یہ کہہ سکیں کہ ہاں پہلے ایسا نہیں تھا ان مذہب درسست تھا ، نہیں ایسی بات قطعی نہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا لایا ہوا اسلام تو مصلوب ہو چکا تھا اور اسکی روح حضرت محمد :pbuh: کے ساتھ آئی وہاں تو بس اتنا ہی تھا کہ نعش دن با دن زیادہ سے زیادہ سٹر رہی تھی، صلیبیت تو تین حصوں میں بٹی تھی ایک وہ جو حکمران تھے انکے لئے صلیب سے رشتہ محض حکمرانی قائیم رکھنے کے لئے تھا دوسرا حصّہ صلیبی پجاریوں کا تو آج کے انکے انحتاطی دور میں بھی وہ اتنے پرقوت ہیں کہ انکے آشرواد کے بنا دنیا کی کئی حکومتیں اگر مکمل نہ بھی تباہ ہوں عوام میں غیر مقبول ضرور ہو جایئں گئی اور ماضی میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہی اصل حکمراں تھے۔ ہر حکمراں کی طرح انکو بھی ظاہر ہے عوام کی ہی ضرورت ہے ۔ورنہ سب حاکم تو محکوم کون وہ تیسرا حصّہ پہلے بھی تھے اج بھی ہیں، اسلام سے ان کا بغض اور نام نہاد اسلامی حکمرانوں کا بھی اسی بنیاد پر پہلے بھی تھا اب بھی کہ اسلام اور اسکی تعلیمات میں تو کسی بھی انسان کی حیثیت اللہ تعالٰی کے احکام کو نافذ کرنے سے زیادہ نہیں ، باوجود اسکے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ کی بہت سی فکریں اللہ تعالٰی نے اپنا حکم بنا کر نافذ کیا، مگر کہیں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہُ نے ان احکامات کو جاری کرتے وقت اپنا نام نہیں استعمال کیا کہ یہ تو میری ہی خیالات تھے ، بس یہ ہے وہ بنیادی بات جو اپنے افکار کو چلانے والوں کو ہمیشہ بے چین رکھتا ہے پھر کبھی وہ اپنی عوام کو صلیب کے نام پر تو کبھی نام نہاد دہشت گردی کے نام پر الجھا کر اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کے ماننے والے چاہے سڑ گل چکے ہوں مگر ان کا دین ایسا ہے جس کو اللہ تعالٰی نے بگڑنے سے محفوظ کر دیا ہے یہ جو اختلاف بے دینی بدعت اور انحراف ہے یہ پتوں کا مرجھانا ہے اسکی جڑ کو قیامت تک سر سبز شاداب ہی رہنا ہے اللہ تعالٰی نے اصل جڑ سے پہلے بھی نئی شاخیں بار آور کئیں ہیں اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا یہ صلیبی بتوں کے اور اسلامی لبادے میں چھپے بلکل انھیں افکار کی پرچھائیوں کو یہی خیال شاخوں سے الجھائے رکھتا ہے اور ہمیشہ کی طرح یہود اصل فتنہ ہیں اور باقی اپنے اپنے مفاد میں ان کے کاندھے بنے ہیں انکی عوام بھی سب ہی بلکل نادان ہیں ایسا نہیں ان کے بھی اپنے مفاد ہیں ، خود ہمیں دیکھیں کہ برطانوی تسلط سے آزادی جہاں مسلمانوں نے حاصل کی محض دین کی نسبت پر اور جب حکومتیں قائیم ہوئیں تو انہیں لوگوں کے نظریات والی جن سے آزادی حاصل کی گئی تھی مصر میں تو ناصر نے فرعون کو اپنا جد امجد قرار دیا ترک اتنا بدحواس ہوا کہ یک لخت اپنے رسم الخط کو ہی مغریبیا دیا، مطلب سیدھا اور صاف یہ کہ اسلامی نظریات دنیا کے باقی ہر نظریہ سے متصادم ہوتے ہیں جب نظریات میں تصادم ہے تو پھر جسموں میں بھی ہوگا، ہاں اِس وقت یہ تصادم ان سے نہیں ہوگا۔ جو اس پر راضی ہوں کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر بن جائیں ، لیکن استادِغیر محترم یعنی یہود اِس پر بھی راضی ہونے والا نہیں وہ صلیب پر بھی راضی نہیں ہوگا اسی لئے تو دوستی عیسائیوں کی ممکن ہے مگر یہود کی ہرگز نہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت محمّد :pbuh: کی بعثت کے درمیانی وقفہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہود و نصاریٰ میں جب جو برسر اقتدار ہوا اس نے فریق مخالف کے دو دو لاکھ بندے صاف کردیے یہود کو تو خود اقتدار نہیں ملا مگر نصاریٰ مخالف دھڑے کے پیر پگارا ہمیشہ رہے جیسے آج نصاریٰ کے ہیں، ولسلام ، امید ہے تاریخ سے واقف کوئی اس نقطہ کو مجھ سے زیادہ اور مدلل طریقہ سے ایک الگ دھاگے میں واضح کر دے گا تاکہ ان نام نہاد محسور کن انسداد دہشت گردی کے نعروں کو سمجھنا اور اس بات کو بھی کہ" کیا امریکہ کے مفاد کو پورا کرنے کے لئیے ساری دنیا کے لوگ لگے ہیں" جیسے دلائیل بھی سمجھنا آسان ہوجائے
 

arifkarim

معطل
کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کے ماننے والے چاہے سڑ گل چکے ہوں
عجب ہے؟ کیا یہ دوغلہ پن نہیں کہ ایک طرف جس "دین" کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہوں، وہیں‌اسکے ماننے والوں‌کو "سڑا گلا" ہوا کہا جائے؟
یعنی آپ کے اپنے دل میں چور ہے کہ ایک طرف مسلمان بہترین بھی ہیں اور دوسری ہی طرف پوری دنیا کے مقابلے میں کمزور ترین بھی۔
اس "تضاد" کی وجہ بیان کریں!
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

افغانستان ميں امريکہ کی پاليسی کے حوالے سے جرنل مککرسٹل اور رچرڈ ہالبروک نے جو حاليہ بيانات ديے ہيں وہ دراصل اسی سوچ اور موقف کا اعادہ ہے کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اورعراق ميں متحرک تمام گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں پر يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے براہراست طالبان سے مذاکرات زير غور نہيں ہيں۔ افغانستان اور پاکستان کی حکومتيں کی جانب سے مصالحتی عمل کے ضمن ميں پاليسياں موجود ہيں۔ ہم پہلے بھی اور اب بھی ان پاليسيوں کی حمايت کرتے ہيں۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
عجب ہے؟ کیا یہ دوغلہ پن نہیں کہ ایک طرف جس "دین" کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہوں، وہیں‌اسکے ماننے والوں‌کو "سڑا گلا" ہوا کہا جائے؟
یعنی آپ کے اپنے دل میں چور ہے کہ ایک طرف مسلمان بہترین بھی ہیں اور دوسری ہی طرف پوری دنیا کے مقابلے میں کمزور ترین بھی۔
اس "تضاد" کی وجہ بیان کریں!
السلام علیکم
جناب محترم کوئی تضاد نہیں بلکل صاف اور واضح بات ہے مزید وضاحت کرتا ہوں کہ دین اسلام بلکل روشن چمکدار و شفاف دین ہے چاہے میں یا کوئی اور اسکا "قصیدہ" پڑھے نہ پڑھے اسکی روشنی میں کوئی کمی آنے والی نہیں ، اب اگر اس دین کے نام لیوا یا ماننے والے اسکی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہوں تو انکو آپ جو بھی کہ لیں کمزور ، ناقص مزید ان میں دین سے ہٹ کر کچھ اِدھر کا اور کچھ اُدھر کا بھی شامل ہوجائے تو بھی آپ اس کے خلاف کچھ کہنے یا میں تو کہوں گا کہ میرے اپنے ہی اعتراف جرم کو آپ دین کے خلاف کچھ کہنا سمجھ لیں تو حیرانی کی بات ہے
اسلام ایک دین ہے، مسلمان اسکو کہتے ہیں جو اسکو تسلیم کرلے ۔ اب جس نے اسکو بعد تسلیم کے ، اس کی تعلیمات کے برخلاف زندگی گذارنا شروع کردی تو میرا نہیں خیال کہ اسکے اس عمل کو غلط کہنا اور اسلام کو اچھا کہنا کسی تضاد کا حامل ہوگا امید ہے اگر آپ محض نکتہ چینی کو شعار نہ بنا رکھا ہوگا تو یہ وضاحت کافی ہوگی اگر ایسا نہیں تو آپ جو کچھ برا بھلا کہنا چاہتے ہیں کہہ لیں مجھ کو میں نیا موضوع نہیں کھولنے کا۔ اور اگر میں ہی وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہوں تب بھی معذرت چاہوں گا کہ اس سے زیادہ کی قابلیت نہیں رکھتا۔۔ والسلام
 

قیس

محفلین
السلام علیکم
آپ دوستوں کی گفتگو پڑھی تو بہت عجیب محسوس ہوا، اگر میں آپ دوستوں کی گفتگو کا مقصد سمجھ سکا ہوں تو وہ یہ سمجھ سکا ہوں کہ کچھ دوستوں کے خیال میں موجودہ جنگ کا تعلق صلیبی جنگوں سے نہیں ہے اور کچھ دوست اس بات پر مصر ہیں کہ موجودہ جنگیں صلیبی جنگوں کا نیا روپ ہیں۔ وہ دوست جو کہ موجودہ جنگوں کو صلیبی جنگوں کا نیا روپ نہیں مانتے وہ سابق امریکی صدر جارج بش کا وہ بیان کیوں بھول جاتے ہیں جن میں ان کے منہ سے ب“ھلیکے “ سے صلیبی جنگوں کے الفاظ نکل گئے تھے اور بعد میں انہوں نے اس کی تردید بھی کی تھی۔ اسی طرح وہ ان باتوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ ہر اسلامی ملک میں یا تو ان ممالک جیسا ماحول ہو یا پھر وہ بنیاد پرست ہیں یا دہشت گرد اور ان کے ٹی وی چینل ان باتوں کا پرچار کرنے سے ایک ذرہ بھی پرہیز نہیں کرتے اور ادھر ہم اسلام کے سورما ہیں کہ ہمیں اپنے پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈوں سے ہی نجات نہیں مل رہی۔ اور جیسا اوپر محترم انصاری فاروق صاحب نے تحریر کیا ہے کہ اسلام شفاف اور چمکدار دین ہے ۔ تو بھائی میرے اسکی تبلیغ کے لئے ہم کر کیا رہے ہیں؟؟؟؟ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو دیکھیں اور اسلام کے ابتدائی حالات اور انداز تبلیغ کو تو کہاں ہے تلوار؟ تلوار تو اس وقت نکلی جب کہ انکو انکے نئے وطن میں بھی سکون نہیں دیا گیا۔ اور ہم آج کل کے مسلمان اپنے ہی ملک میں ایک دوسرے کا گلا اسلام کے نام پر کاٹ رہے ہیں پتہ کسی کو کچھ نہیں کہ وجہ کیا بس بھیڑ چال اور اندھی تقلید جس کے ساتھ رجز کا جوش ہے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ اور کچھ نہیں۔
اور جو دوست یہ کہتے ہیں کہ یہ صلیبی جنگ ہے وہ یہ تو دیکھیں کہ کیا اس جنگ میں اسلامی فوج شامل ہے؟ براہ کرم طالبان کو اسلامی فوج کا نام نہ دیں۔ یہ بے شک درست ہے کہ وہ لوگ پنج وقتہ نمازی ہیں ہے اور روزہ بھی پابندی سے رکھتے ہیں؟ لیکن کیا وہ باقی کے فرائض نبھاتے ہیں؟ جیسے حقوق العباد؟ رسول اللہ نے تو فتح مکہ پر درختوں تک کو کاٹنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ لوگ اپنے ہی بھائی بندوؤں کو کاٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا علم حاصل کرو یہ تعلیمی اداروں کو بند کر رہے ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے یہ خواتین کی چھترول کر رہے ہیں۔ اور پھر فخر سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے خادم ہیں۔ بھائی میرے دونوں میں کسی کو غلط یا صحیح کہنے سے قبل خود اسلام کی تعلیمات کا مطلاعہ تو کر لو۔ اسکے بات فیصلہ کرو کہ کیا کرنا ہے ۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے جو کہ خاکسار نے کہیں سے پڑھا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا “ کہ میں ابھی نوجوان ہی تھا کہ رسول خدا نے مجھے یمن کا حاکم و قاضی بنایا (اب اصل واقعہ میں علاقہ کا نام یمن ہے یا کیا ہے یہ مجھے یاد نہیں۔ انشاءاللہ دوبارہ دیکھ کر ضرور تصحیح کروں گا) تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میں تو انصاف کے تقاضے نہیں جانتا اور نہ میں نے کبھی فیصلہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ وعلیہ و سلم نے جوابا فرمایا کہ فریقین کی بات کو علیحدہ علیحدہ سنو اور اسکے بعد ان کی بات کا وزن کرو اور پھر فیصلہ دو۔ اآپ فرماتے ہیں کہ تمام عمر میں اس بات پر کاربند رہا اور مجھے نہیں علم کہ میرے فیصلے سے کسی کی حق کشی ہوئی ہو۔ “ ہم لوگ یہ طریق کیوں نہیں لے سکتے۔ بجائے اندھی تقلید کے؟ اب پاکستان کے تریسٹھ سال گزرنے کے بعد وقت آن پہنچا ہے کہ ہم کسی کی سننے کی بجائے اپنے دماغ کو چلائیں تا کہ اپنے اس پیارے ملک کو بچا سکیں اور دنیا میں ایک اونچا مقام حاصل کروا سکیں۔
والسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

وہ دوست جو کہ موجودہ جنگوں کو صلیبی جنگوں کا نیا روپ نہیں مانتے وہ سابق امریکی صدر جارج بش کا وہ بیان کیوں بھول جاتے ہیں جن میں ان کے منہ سے ب“ھلیکے “ سے صلیبی جنگوں کے الفاظ نکل گئے تھے اور بعد میں انہوں نے اس کی تردید بھی کی تھی۔


اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔


عراق اور افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ صليبی جنگ ہرگز نہيں تھی۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ حکومت ميں پاليسی ميکرز 800 سال پہلے واقعات کے بارے ميں کوئ "جنون" نہيں رکھتے۔

يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی آئين سيکولر ہے اور امريکی فوج مذہبی محرکات اور واقعات کی بنياد پر اپنے فيصلے نہيں کرتی۔ امريکی فوج کے رينکس ميں مسلمانوں سميت ہر مذہب کے افراد موجود ہيں۔

ميرے نزديک يہ امر خاصہ حیران کن ہے کہ اکثر تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں "کروسيڈ" کے ايک لفظ اور ريفرنس کو اس ثبوت اور دليل کے طور پر پيش کرتے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائياں مذہبی نظريات کے تناظر ميں کی گئيں ليکن وہ اس بات کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہيں کہ مذہب کا غلط استعمال تو دہشت گردوں کی جانب سے کيا گيا تھا۔

امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔


عراق اور افغانستان کے خلاف فوجی کاروائ صليبی جنگ ہرگز نہيں تھی۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ حکومت ميں پاليسی ميکرز 800 سال پہلے واقعات کے بارے ميں کوئ "جنون" نہيں رکھتے۔

يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی آئين سيکولر ہے اور امريکی فوج مذہبی محرکات اور واقعات کی بنياد پر اپنے فيصلے نہيں کرتی۔ امريکی فوج کے رينکس ميں مسلمانوں سميت ہر مذہب کے افراد موجود ہيں۔

ميرے نزديک يہ امر خاصہ حیران کن ہے کہ اکثر تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں "کروسيڈ" کے ايک لفظ اور ريفرنس کو اس ثبوت اور دليل کے طور پر پيش کرتے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائياں مذہبی نظريات کے تناظر ميں کی گئيں ليکن وہ اس بات کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہيں کہ مذہب کا غلط استعمال تو دہشت گردوں کی جانب سے کيا گيا تھا۔

امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
السلام علیکم
میں ۱۰۰ فی صد اس بات پر متفق ہوں کہ یہ مذہبی جنگ نہیں ہے، بلکہ مختف متصادم نظریات کی جنگ ہے جس میں ایک جانب اسلام ہے دوسری جانب اس سے گھبرائے ہوئے لوگ مزے کی بات یہ ہے جن سے وہ برسرِ پیکار ہیں وہ بھی ناقص اسلامی لبادے والے اور ادھر والوں کے بھی نظریات ایک نہیں مگر اسوقت مشترک دشمن سے مقابلہ ہے اس لئے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہیں۔اس کا ثبوت قرانی آیتوں کی تبدیلی یا ترمیم و حذف کی وہ تجاویز ہیں جو دفتاًفوقتاً سیکولر جمہوری امن کے پاسباں ممالک سے اٹھتیں ہیں اور وہ مداخلتیں جو اسلامی شعار میں کی جاتیں ہیں۔
 

قیس

محفلین
اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔



www.state.gov
السلام علیکم
جناب فواد صاحب!

میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے الفظ کروسیڈ کو اس واضح انداز میں بیان فرمایا، میں آپ کو اپنی ذات کا یقین دلا سکتا ہوں کہ آئندہ سے یہ لفظ میں ان معنوں میں نہیں دیکھوں گا۔ بلکہ اس پہلو کو بھی دیکھوں گا جو کہ آپ نے بیان فرمایا ہے۔ ایک مہربانی اگر آپ یہ کریں کہ لفظ جہاد کا مطلب بھی امریکی
اور مغربی میڈیا کی سوچ میں داخل کردیں۔ کہ اس کا مطلب مقدس جنگ نہیں بلکہ اسی طرح کوشش کرنا ہے۔ تاکہ عوامی سطح پر کم از کم اس مسئلہ کا ازالہ ہوسکے حکومتی مسائل تو جوں کے توں ہی رہیں گے۔

ميرے نزديک يہ امر خاصہ حیران کن ہے کہ اکثر تجزيہ نگار انتہائ جذباتی انداز ميں "کروسيڈ" کے ايک لفظ اور ريفرنس کو اس ثبوت اور دليل کے طور پر پيش کرتے ہيں کہ عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائياں مذہبی نظريات کے تناظر ميں کی گئيں ليکن وہ اس بات کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہيں کہ مذہب کا غلط استعمال تو دہشت گردوں کی جانب سے کيا گيا تھا۔
www.state.gov
اولین تو میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میں کوئی تجزیہ نگار نہیں ہوں۔ آپ ایک بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ مذہب کو جنگ میں استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں اور امریکی پالیسی میکر انہیں دہشت گردوں پر یہ الزام تھوپنے سے قبل یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ یہ طریقے دہشت گردوں کو
سکھائے کس نے کیا ہم میں سے لوگ 70 کی دہائی کو بھول گئے جب یہی خطہ، یہی لوگ، یہی باتیں تھیں، لیکن اس وقت مد مقابل کوئی اور تھا۔ اور پھر مکھن سے بال بھی نکال پھینکے گئے۔ لیکن شاید مکھن سے بال نکال کے انکھوں میں چلا گیا۔ جو آج شہیتر بن گیا۔ ماضی میں کئے گئے ہمارے کام ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے مفادات کا خمیازہ آج کی نوجوان نسل بھگت رہی ہے۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔ دونوں اطراف کو دیکھئے۔ پنجابی میں ایک مثال ہے کہ " تغڑے دیاں چپیڑاں تے ماڑے دیاں گالاں" یعنی طاقتور کے تھپڑ اور کمزور کی گالیاں۔ اس وقت کے حال میں فخر تھا، مستقبل کا سوچے بغیر، آج کے حال میں کف افسوس ہے۔ کہ چھوڑو ان لوگوں کو اور اپنی دھوتی بچا کے نکلو، لیکن اب لگتا ہے کہ دھوتی جھاڑیوں میں پھنس گئی، جو نہ پھٹتی ہے نہ نکلتی اور نہ کھولنے کا چارہ ہے۔

امید ہے کچھ غور فرماویں گے۔
والسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

السلام علیکم
امریکی پالیسی میکر انہیں دہشت گردوں پر یہ الزام تھوپنے سے قبل یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ یہ طریقے دہشت گردوں کو
سکھائے کس نے کیا ہم میں سے لوگ 70 کی دہائی کو بھول گئے جب یہی خطہ، یہی لوگ، یہی باتیں تھیں، لیکن اس وقت مد مقابل کوئی اور تھا۔ اور پھر مکھن سے بال بھی نکال پھینکے گئے۔ لیکن شاید مکھن سے بال نکال کے انکھوں میں چلا گیا۔ جو آج شہیتر بن گیا۔ ماضی میں کئے گئے ہمارے کام ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے مفادات کا خمیازہ آج کی نوجوان نسل بھگت رہی ہے۔ امید ہے آپ برا نہیں منائیں گے۔ دونوں اطراف کو دیکھئے۔ پنجابی میں ایک مثال ہے کہ " تغڑے دیاں چپیڑاں تے ماڑے دیاں گالاں" یعنی طاقتور کے تھپڑ اور کمزور کی گالیاں۔ اس وقت کے حال میں فخر تھا، مستقبل کا سوچے بغیر، آج کے حال میں کف افسوس ہے۔ کہ چھوڑو ان لوگوں کو اور اپنی دھوتی بچا کے نکلو، لیکن اب لگتا ہے کہ دھوتی جھاڑیوں میں پھنس گئی، جو نہ پھٹتی ہے نہ نکلتی اور نہ کھولنے کا چارہ ہے۔

امید ہے کچھ غور فرماویں گے۔
والسلام


آپ جب بھی تاريخ کا تنقيدی تجزيہ کرتے ہیں تو لامحالہ اسی نتيجے پر پہنچتے ہيں کہ يقينی طور پر غلطياں کی گئ تھيں۔ ايسے فيصلے بھی سامنے آتے ہيں جو مطلوبہ نتائج حاصل نہيں کر سکے۔ ايسی پاليسياں بھی تشکيل دی گئيں جو سو فيصد درست ثابت نہيں ہوئيں۔ تاريخی لحاظ سے اس حقيقت کا اطلاق ہر ملک اور حکومت پر ہوتا ہے۔ يہ سوچ اور اپروچ اس غير حقيقی اور مقبول جذباتی طرزفکر سے قطعی مختلف ہے جس کے مطابق سب کچھ ايک سوچی سمجھی سازش اور دنيا پر کنٹرول بڑھانے کا نتيجہ تھا۔

جب پاکستان کے کچھ تجزيہ نگار اور سياست دان طالبان اور القائدہ کی تشکيل ميں امريکی امداد (جس کی ترسيل پاکستان کے افسران کے ذريعے ہوئ تھی) کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو وہ کچھ ناقابل ترديد تاريخی حقائق کو نظرانداز کر ديتے ہيں۔ 90 کی دہائ ميں حکومت پاکستان کو بيجھی جانے والی 30 کے قريب رپورٹيں اورطالبان اور امريکی حکومت کے اہلکاروں کے مابين روابط کی تفصيل سے يہ ثابت ہے کہ امريکہ نے سفارتی اور انتظامی چينلز کے ذريعے دہشت گردی کے عفريت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

جب امريکہ نے بہت سے مسلم اور غير مسلم ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کے مجاہدين کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا مقصد مستقبل کے لیے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ اس وقت کے زمينی حقائق کے تناظر ميں وہ ايک درست پاليسی تھی۔ دہشت گردی کے اس عفريت کے مکمل ذمہ دار اور قصور وار القائدہ اور طالبان ہيں جو دہشت گردوں کی مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

عسکری

معطل
خود تو ہم جہاد جہاد کے نعرے بلند کیے ہوئے ہیں اور کروسیڈ ہمیں دکھتا ہے واہ رے امت تیری شان
 

قیس

محفلین
السلام علیکم
جناب عبداللہ !
آپ نے شاید غور سے مکرم فواد کا اولین پیغام نہیں پڑھا کیونکہ محترم کو اس کے استعمال میں کوئی غلطی دکھائی نہیں پڑتی۔ میاں آخر کیوں دکھائی پڑیے اپنی آنکھ کا تو شہیتر بھی بال ہوتا ہے۔ اور دوسروں کی آنکھ میں بال بھی شہیتر، بہر حال ایک حقیقت جو ہے اور وہ رہے گی کہ امریکہ کا حق ہے کہ وہ اپنے مفاد کو سوچے اور ہمیں اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہے نا کہ اپنی کرسی کے مفاد کو۔ اللہ جانتا ہے کہ کب ہمارے سیاستدان اس بات کو سمجھیں گے۔
والسلام
 
Top