صورت جینے کی نہیں رہتی

سر الف عین
عظیم
فلسفی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

جتنے بھی ملے خونخوار ملے
کوئی تو یہاں غمخوار ملے

اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے
دکھوں کے یہاں انبار ملے

کیسے منزل تک پہنچوں مَیں
رستے ہی ناہموار ملے

صورت جینے کی نہیں رہتی
اپنوں سے جب انکار ملے

بے ساختہ لپٹے پھولوں سے
آغوش میں لے کر خار ملے

اک تیرے در کی غلامی میں
کتنے مجھکو کردار ملے

جس کے سائے میں رونق ہو
ایسی کوئی دیوار ملے

بیتے ماضی کے کچھ وعدے
اُن راہوں میں خوار ملے
 
اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے
دکھوں کے یہاں انبار ملے
دکھوں کو تشدید کے ساتھ باندھا گیا جو درست نہیں

بیتے ماضی کے کچھ وعدے
اُن راہوں میں خوار ملے
دوسرے مصرع کو وزن میں لانے کے لیے خوار کو بھی تشدید کے ساتھ پڑھنا پڑے گا۔

قوافی کے بارے میں استادِ محترم یا عظیم بھائی بتائیں۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
فعلن فعلن فعلن فعلن ہیں عظیم بھائی افاعیل
مجھے لگتا ہے کہ اس غزل پر بہت محنت درکار ہو گی۔ اور شاید ناممکن ہے کہ اس کا وزن درست کر لیا جائے۔
مطلع میں ایطا بھی ہے 'خونخوار اور غمخوار میں 'خوار' مشترک ہونے کی وجہ سے۔ دوسرا یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ خونخوار کون؟ ظاہر ہے کہ لوگوں سے مراد ہے مگر یہ بات واضح نہیں ہے
میرا یہ مشورہ ہے کہ اس غزل کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں
 
مجھے لگتا ہے کہ اس غزل پر بہت محنت درکار ہو گی۔ اور شاید ناممکن ہے کہ اس کا وزن درست کر لیا جائے۔
مطلع میں ایطا بھی ہے 'خونخوار اور غمخوار میں 'خوار' مشترک ہونے کی وجہ سے۔ دوسرا یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ خونخوار کون؟ ظاہر ہے کہ لوگوں سے مراد ہے مگر یہ بات واضح نہیں ہے
میرا یہ مشورہ ہے کہ اس غزل کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں
شکریہ
 
Top