سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
عظیم
فلسفی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
جتنے بھی ملے خونخوار ملے
کوئی تو یہاں غمخوار ملے
اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے
دکھوں کے یہاں انبار ملے
کیسے منزل تک پہنچوں مَیں
رستے ہی ناہموار ملے
صورت جینے کی نہیں رہتی
اپنوں سے جب انکار ملے
بے ساختہ لپٹے پھولوں سے
آغوش میں لے کر خار ملے
اک تیرے در کی غلامی میں
کتنے مجھکو کردار ملے
جس کے سائے میں رونق ہو
ایسی کوئی دیوار ملے
بیتے ماضی کے کچھ وعدے
اُن راہوں میں خوار ملے
عظیم
فلسفی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
جتنے بھی ملے خونخوار ملے
کوئی تو یہاں غمخوار ملے
اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے
دکھوں کے یہاں انبار ملے
کیسے منزل تک پہنچوں مَیں
رستے ہی ناہموار ملے
صورت جینے کی نہیں رہتی
اپنوں سے جب انکار ملے
بے ساختہ لپٹے پھولوں سے
آغوش میں لے کر خار ملے
اک تیرے در کی غلامی میں
کتنے مجھکو کردار ملے
جس کے سائے میں رونق ہو
ایسی کوئی دیوار ملے
بیتے ماضی کے کچھ وعدے
اُن راہوں میں خوار ملے