ترمذی
محفلین
صورِ سرافیل سے پہلے
کاغذ تھامے سوچ رہا ہوں لکھنا کیا ہے
لکھنا کیا ہے؟ نطقِ قلم پر حرف سوال سلگتا ہے
لفظوں کے اوسان خطا ہیں
معنی کے پُر پیچ بدن میں
خوف زدہ کہرام بپا ہے
وحشتِ مقتل سناٹے میں ٹہل رہی ہے
ہر آہٹ سے دیدہ ء قاتل جھانک رہا ہے
منظر کی ہیبت کا عالم
آنکھ کو پتھر کرنے کا اعجاز لئے ہے
بے اندازہ آوازوں سے واقف سمعِ کُہنہ
صوتِ نامعلوم کے ڈرسے
اپنے سَلبْ کئے جانے کی آپ دعائیں مانگ رہی ہے
دوشِ ہوا پہ تیرتی پھرتی
نامعلوم سی بو کے ڈرسے
قوت شامہ کانپ رہی ہے
آب وخور کے ہجر کے مارے منہ کے اندر
ایک زُباں بے چاری ہانپ رہی ہے
لمسِ حیات سے خائف ہو کر
سمٹی روحیں ، لرزاں ترساں
اپنے جسم کی معدومی کی
آپ دعائیں مانگ رہی ہیں
جانے کن احوال میں گم ہے
ارض خدا پر اس کا خلیفہ
میں کیا لکھوں؟
(احمد اقبال ترمذی)