صوفیانہ --- معین نظامی

الف نظامی

لائبریرین
صوفیانہ​
کل ایک تقریب میں، اپنی مختصر معروضات میں خواجہ حافظ شیرازی کا یہ خوب صورت شعر سنایا:
یک حرفِ صوفیانہ بگویم، اجازت است؟
ای نورِ دیدہ، صلح بِہ از جنگ و داوری
( ایک صوفیانہ بات عرض کروں، اجازت ہے؟ اے آنکھوں کی روشنی، جنگ اور ثالثی کے مقابلے میں صلح ہی بہتر ہے.)

صوفی مشرب کے اصولِ تربیت میں صلح صفائی، عفو و درگزر اور امن و سکون کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی اور ہے. یہاں تک کہ یہ اعلیٰ صفات سالک کے مزاج کا حصہ بن جایا کرتی تھیں. خانقاہوں کی تربیتی کٹھالیوں سے نکلا ہوا، مٹا ہوا مزاج صوفیانہ کہلاتا تھا. اس دانش گاہ کے فارغ التحصیل اب کم ہوتے جاتے ہیں.

پنجاب میں ایک مٹیالے سے رنگ کو بھی صوفیانہ کہتے تھے. اسے اور اس سے ملتے جلتے چند مدھم رنگ مَیل خورے کہلاتے تھے جو مَیل کچیل کے ساتھ صبر و شکر سے گزارا کیا کرتے تھے، دوسرے شوخ اور بڑبولے رنگوں کی طرح جلد جلد مَیلے نظر نہیں آنے لگتے تھے.

صوفی کو صرف اپنی اندر کی ذرہ بھر میلاہٹ سے بھی سمجھوتا نہیں کرنا ہوتا، باہر کی اور دوسروں کی ظاہری و باطنی میلاہٹوں کے ساتھ تو شفقت ہی کا معاملہ کرنا ہوتا ہے. سچا صوفی بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے لیکن اس کا انداز مختلف ہوتا ہے. اس کا اصلاحی طریقہ وبائی، طوفانی اور سیلابی نہیں ہوتا، شبنمی، بارانی اور بہاری ہوتا ہے. یہ طریقہ زیادہ بے نفسی اور زیادہ مشقت مانگتا ہے. ہمیں اپنے بے تربیت اور سہل کوش مزاجوں کے مطابق دوسرے طریقے زیادہ مرغوب لگتے ہیں. صوفی بھی احتجاج کرتا ہے، مزاحمت کرتا ہے، جنگ کرتا ہے مگر اور طرح سے.

صوفیانہ کو بعض اوقات درویشانہ بھی کہا جاتا تھا. خواجہ نظام الدین اولیا کے ایک چہیتے مرید اور امیر خسرو کے جگری یار امیر حسن علا سجزی نے جب اپنے پیر و مرشد کے عہد ساز ملفوظات مرتب کیے اور اس فارسی مجموعے کا نام فوائد الفؤاد رکھا تو خواجہ نظام نے انھیں اس کارِ خیر کی یوں داد دی تھی: نیکو نبشتہ ای و درویشانہ نبشتہ ای. آپ نے اچھا لکھا ہے اور درویشانہ لکھا ہے.
لفظی و معنوی گھن گرج سے محفوظ اس درویشانہ اسلوب میں عبارت آرائی کے بجائے معانی، مفاہیم، مطالب اور صحتِ روایت کو اساسی اہمیت حاصل تھی. اس خاکسارانہ اسلوب میں کوئی دعویٰ نہیں تھا،تصنع اور تکلف نہیں تھا، بے جا ہنر نمائی نہیں تھی. اس کتاب کے مقاصد ہی سرے سے مختلف تھے، سو اس کا اسلوب بھی تو مختلف ہی ہونا چاہیے تھا.

خواجہ حافظ کے اس شعر میں بے پناہ تخلیقیت کے ساتھ بیشتر صوفیانہ آداب ملحوظ رکھے گئے ہیں. اول سے آخر تک لب و لہجہ نرم و ملائم اور محبت بھرا ہے. تصوف کے راستے میں لٹھ مار قسم کے لہجے اور رویے سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں. آداب شناسی دیکھیے کہ شعر میں بات کہنے کی باقاعدہ اجازت طلب کی گئی ہے. اجازت نہ ہو، سننے کی تاب نہ ہو، بات سے طبعِ نازک پر گرانی کا ہلکا سا احتمال بھی ہو تو ان ساعتوں میں بات نہیں کی جائے گی. مخلصانہ نصیحت اور مشفقانہ مشورہ کوہِ نور ہیرے سے کم قدر و قیمت نہیں رکھتا.حکمت کا تقاضا ہے کہ اسے ضائع نہ ہونے دیا جائے، سنبھال لیا جائے، تب سامنے لایا جائے جب سامنے والا اسے بہ رغبتِ تمام اٹھائے اور بے ساختہ زینتِ تاج و دستار بنا کر ممنون ہو.

نورِ دیدہ جیسے محبت بھرے الفاظ یہ شہادت فراہم کرتے ہیں کہ نصیحت کرنے والا اپنے مخاطب سے محبت کرتا ہے، اسے مرکزِ شفقت جانتا ہے، اپنی زندگی میں اس کے وجود کی قدر و قیمت سے بہ خوبی آگاہ ہے، اس سے محروم ہو جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور دم دم اس کا بھلا چاہتا ہے. یہ پدرانہ انداز ہے، مرشدانہ اسلوب ہے، مربیانہ شیوہ ہے.

لڑائیوں، جھگڑوں اور خواہ مخواہ کی ثالثیوں میں عمریں گزار دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ پنجابی میں سچ اور جھوٹ کے نتارے کو سچ پرچّی کہتے ہیں. اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر یہ سچ پرچّی کبھی نہیں ہو پاتی. سچ بھی ہر کسی کا اپنا الگ بن چکا ہے. تو کیوں نہ اپنے ساتھ ایک حقیقی مہربانی کی جائے، دل و دماغ کے آتش فشاں گودام کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے، بے معنی لڑائیوں جھگڑوں کے انگارے بجھا کر باہر پھینک دیے جائیں، تشویش ناک کاٹھ کباڑ سے جان چھڑا لی جائے، خود بھی کچھ آسودگی چکھی جائے اور دوسروں کو بھی چکھائی جائے.

ایک دستر خوان ہونا چاہیے، بہت وسیع و عریض. محبت کا رنگارنگ دستر خوان.کبھی نہ بڑھایا جانے والا دستر خوان. اس پر دست و کمر بستہ میزبانی کرتے رہنا چاہیے.

معین نظامی
١٠- مئی ٢٠٢٢ء
 
Top