فضائے قدس میں حیرت کا وہ دلکش سماں ہو گا
کہ بندہ میہماں معبود برحق میزباں ہو گا
سر مقتل شہیدانِ وفا کا امتحاں ہو گا
تو یہ ہوگا کہ قاتل تیرا دامن خوں فشاں ہو گا
گلے مل مل کے اس نے حسرتیں دل کی نکالی ہیں
تمہارا جانفشاں خنجر ابھی تک خوں فشاں ہو گا
ترا خنجر شہادت دے گا محشر میں شہیدوں کی
یہی ان کا بیاں ہوگا یہی ان کی زبان ہو گا
ثریا مرقدِ محبوب حق کی شمع روشن ہے
تجھے یہ مرتبہ حاصل کہاں اے کہکشاں ہو گا
نظر بازوں سے تیور چھپ نہیں سکتے نگاہوں کے
اشارے جس سے ہوتے ہیں وہ بیشک رازداں ہو گا
بتوں کا عشق بھی، خوف خدا بھی, دل میں ہے محسنؔ
ہمارا مقبرہ دیر و حرم کے درمیاں ہوگا
شاہ محسن داناپوری