زرقا مفتی
محفلین
صوفی
نئے ہزارئیے نے بہت سے پُرانے تصورات کی نفی کر دی ہے۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ جو بیسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے اپنے تصورات کے بُتوں کی شکست و ریخت سے پریشان ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ طرز کہن پر اڑے رہیں یا آئین نو پہ چلیں ۔ ہو سکتا ہے آپ بھی میری طرح ذہنی طور پر خسارے میں ہوں۔
شاید آپ نے بھی دسویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک نظم ابو بن ادھم پڑھ رکھی ہو جس میں فرشتے ابو بن ادھم کا نام اللہ کےمحبوب افراد کی فہرست میں سب سے اوپر لکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ بقول شاعر تخلیق آدم کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
مگر نئے ہزارئیے میں ہمیں معلوم ہوا کہ دُنیا میں اگر کچھ اہم ہے تو وہ ہماری اپنی ذات ہے۔ آپ نے بھی اکثر ٹی وی اینکرز کو یہ کہتے سُنا ہوگا "اپنا خیال رکھیئے گا" یعنی معاشرتی قدریں تبدیل ہو گئیں ہیں اب پہلے آپ اپنا خیال رکھیئے پھر دوسروں کے متعلق سوچئے۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر سب انسان اپنا خیال رکھنے میں مصروف ہو گئے تو پھر اللہ کا محبوب کون بنے گا؟؟
ہماری نسل کے تعلیم یافتہ افراد خود کو ماما پاپا کہلانے لگے تو اس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ان کی اولادیں اُنہیں ہر گز یہ نہیں کہہ سکیں گی کہ "ماما آپ کو کچھ علم نہیں" یا "پاپا آپ کیا جانیں نئے زمانے کے طور طریقے" مگر ہمیں بھی یہی کچھ سُننے کو ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس رویے کی وجہ مذہب سے دوری ہے مگر ہمارا خیال اس کے برعکس ہے۔ نئے ہزارئیےنے ہمیں پُرانی اقدار کو جھاڑ پونچھ کر نیا بنانا سکھایا ہے۔ اس ہزارئیے کا سب سے بڑا نعرہ ہے" بیچو"جو کچھ بک سکتا ہے۔ اس لئے نئی نسل خدمت کرتی ہے مگر اشتہار لگا کر۔ باقاعدہ اعلانات کرتی ہے۔ منظم طریقے سے کام کرتی ہے اور خدمت میں بھی اپنا نفع ڈھونڈتی ہے۔ سو خدمت خلق کرنے والے کیوں پیچھے رہتے وہ بھی اپنے کارناموں کے اشتہار بانٹنے لگے۔معلوم نہیں آج کل کے خُدائی خدمت گار یا سوشل ورکر ابو بن ادھم کے رُتبے کو پا سکتے ہیں یا نہیں۔
بچپن میں ہمیں نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کی دُنیا اور بڑوں کے رسالوں سے صوفیا کرام کے حالات زندگی پڑھنے کی اجازت تھی۔ ہمارے ذہن میں ایک صوفی کا جو خاکہ ہے اُس کے مطابق صوفی بے حد پاکباز اور نیک انسان ہوتا ہے ۔ جس کی نفسانی خواہشات بہت کم ہوں جو اللہ کی خوشنودی کو ہر بات پر مقدم جانتا ہو۔ تقویِ کے اعلیِ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کی مخلوق کی دل آزاری سے ہر ممکن اجتناب کرتا ہو۔ اُسے دُنیاوی آسائشوں سے کچھ خاص رغبت نہیں ہوتی۔
ہم سوچتے تھے کہ اب اگر ہمیں کسی صوفی کی تلاش ہو تو کہاں ملے گا؟
مگر ہمیں صوفی کی تلاش میں جنگلوں یا ویرانوں کا سفر نہیں کرنا پڑااور ایک روز ایک مشہور فیشن ماڈل کو ٹی وی پر صوفی ازم کا پرچار کرتے دیکھا۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا قول و فعل میں تضاد رکھنے والا شخص صوفی ہو سکتا ہے۔ تزکیہ نفس تو بہت دور کی بات ہے ان خاتون کوتو سادگی سےبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ خیر ہم نے خود کو ملامت کی کہ ہمیں اُن کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے۔
پھر معلوم ہوا کہ صوفی ازم کا پرچار بھی فیشن میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ تقوی یا خلقِ خُدا سے محبت نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسایشوں سے پر مکانوں میں بسنے والے ذہین و فطین افراد کو بے سکونی کا مرض لاحق ہے۔ سو ان میں سے کچھ افراد نے سوچا کہ صوفیا کی زندگی سے کچھ ایسے اصول مستعار لئے جائیں جو بے سکونی کی بیماری سے نجات دلا سکیں۔ سو مغرب اور مشرق کے ملے جلے مفکرین نے صوفیا کے طرز زندگی، افکار، تعلیمات اور تحاریر کو کھنگالنا شروع کیا۔ ان کے افکار اور تعلیمات کو چھاڑپونچھ کر نئے مکالے لکھے، رسالوں میں چھپوائے اور کانفرنسوں میں پڑھے۔
نظریات اور افکار کی تجارت یا پرچار کے لئے بین الاقوامی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں۔ ہم چونکہ اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھتے ہیں اس لئے سوچنے لگے کہ ان مباحث کے نتیجے میں تیار ہونے والے صوفی یقیناً پچھلے زمانے کے صوفیا سے بہتر ہونگے۔ تھوڑی سی جستجو کے بعد ہماری پارکھی نظر نے کچھ ماڈرن صوفیا کو تلاش کر ہی لیا۔
ان میں سے ایک تو حضرت اقبال کے خانوادے سے ہیں صوفی شاعری اور موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہیں فنون لطیفہ کی سرپرستی کرتے ہیں۔خلقِ خدا میں سے اچھی صورت اور اچھی آواز والوں کے قدردان ہیں ان پر مہربان بھی ہیں اور ان کے مدد گار بھی۔ اچھا کھاتے پیتے ہیں۔ یا یوں کہیئے کہ اپنے نفس کے تابع ہیں۔ اپنے خاندان سےکٹ کر ایک پرانی حویلی میں بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ حویلی کو پرانے فرنیچر سے آراستہ کر رکھا ہے۔ زندگی کو ہر طرح سے برت چکے ہیں۔ بالوں سے بڑھاپا جھلکتا ہے مگر دل ہنوز جوان ہے۔ دو عدد بیگمات سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اپنے من میں ڈوب چکے ہیں مگر سراغ زندگی کو نہیں پا سکے تاہم چہرے پر اطمینان لکھا ہوا ہے۔ خاندان کی پابندیوں، بندھنوں اور ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر کوئی بھی منچلا خوش رہ سکتا ہے مگر ہم اُسے صوفی کیسے مان لیں۔
خیر ہم نے ایکبار پھر خود کو ملامت کی کہ ویسے تو بہت ترقی پسند بننے کا شوق ہے مگر کسی بھی نظریے کی ترقی یافتہ شکل کو قبول نہیں کرتے۔ کیا فائدہ ایسے ترقی پسند ہونے کا۔
دوسری صوفی ایک خاتون ہیں اور ہمارے ہی خاندان سے ہیں۔ آپ کہیں گے کہاں حضرت اقبال کا خانوادہ اور کہاں ہم ۔ مگر فکری سلسلے کسی شجرے کے محتاج تو نہیں ہوتے۔ ہماری عزیزہ ایک سخت گیر یا اصول پسند ساس کی بہو بنیں تھیں۔ کئی سال گھریلو محاذ پر اپنی ذہانت، اخلاق اور مہارت آزماتی رہیں مگر اپنے مراتب میں خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکیں۔ سو اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا اور سچ کی تلاش میں جُٹ گئیں۔ مولانا روم کی فکری مرید ہو گئیں۔ ان پر مقالے لکھے اور ان سے متعلقہ تقریبات میں شرکت کرنے لگیں۔ ان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے اپنی گھریلو ذمہ داریاں کم کرنے کے لئے ملازم رکھ لئے۔ ساس بہو کی روایتی تکرار سے بچنے کے لئے اپنازیادہ وقت گھر سے باہر یا بالائی منزل پر گزارنے لگیں۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ایک اعلی دماغ کی حامل ہیں اور کمتر ذہنی استعداد کے افراد سے مباحث اُن کو زیب نہیں دیتے۔ وہ اپنی برتری کا برملا اظہار کرنے لگیں اور ہم جیسے لوگوں سے فاصلہ رکھنے لگیں۔
کئی بار ہمیں اُن کے رویے سے دکھ پہنچا مگر چونکہ وہ ہمیں بہت محبوب تھیں اس لئے ہم نے سوچا کہ ابھی وہ سچ کے سفر کی منازل طے کر رہی ہیں۔
ہمارے ناقص خیال میں جو شخص دائمی سچ کو پہچان لیتا ہے وہ حد سے زیادہ عاجز ہو جاتا ہے اُس کے ذہن سے برتری کا بخار اُتر جاتا ہے اُسے اپنی بے وقعتی کا احساس ہو جاتا ہے چنانچہ ہم اپنی عزیزاز جان خاتون کو بھی اپنے دل میں صوفی کا رُتبہ نہیں دے پائے۔
آخر میں ایک بار پھر خود کو ہی ملامت کرنی پڑی کہ شاید ہم حسد کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم اُن کی فکری پرواز کا ساتھ نہیں دے سکتے اسی لئے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کرے اور دوسروں کی خامیوں سے زیادہ اُن کی خوبیوں پر نظر رکھنے کی توفیق عطا کرے آمین۔
زرقا مفتی
نئے ہزارئیے نے بہت سے پُرانے تصورات کی نفی کر دی ہے۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ جو بیسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے اپنے تصورات کے بُتوں کی شکست و ریخت سے پریشان ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ طرز کہن پر اڑے رہیں یا آئین نو پہ چلیں ۔ ہو سکتا ہے آپ بھی میری طرح ذہنی طور پر خسارے میں ہوں۔
شاید آپ نے بھی دسویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ایک نظم ابو بن ادھم پڑھ رکھی ہو جس میں فرشتے ابو بن ادھم کا نام اللہ کےمحبوب افراد کی فہرست میں سب سے اوپر لکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ بقول شاعر تخلیق آدم کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
مگر نئے ہزارئیے میں ہمیں معلوم ہوا کہ دُنیا میں اگر کچھ اہم ہے تو وہ ہماری اپنی ذات ہے۔ آپ نے بھی اکثر ٹی وی اینکرز کو یہ کہتے سُنا ہوگا "اپنا خیال رکھیئے گا" یعنی معاشرتی قدریں تبدیل ہو گئیں ہیں اب پہلے آپ اپنا خیال رکھیئے پھر دوسروں کے متعلق سوچئے۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر سب انسان اپنا خیال رکھنے میں مصروف ہو گئے تو پھر اللہ کا محبوب کون بنے گا؟؟
ہماری نسل کے تعلیم یافتہ افراد خود کو ماما پاپا کہلانے لگے تو اس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ان کی اولادیں اُنہیں ہر گز یہ نہیں کہہ سکیں گی کہ "ماما آپ کو کچھ علم نہیں" یا "پاپا آپ کیا جانیں نئے زمانے کے طور طریقے" مگر ہمیں بھی یہی کچھ سُننے کو ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس رویے کی وجہ مذہب سے دوری ہے مگر ہمارا خیال اس کے برعکس ہے۔ نئے ہزارئیےنے ہمیں پُرانی اقدار کو جھاڑ پونچھ کر نیا بنانا سکھایا ہے۔ اس ہزارئیے کا سب سے بڑا نعرہ ہے" بیچو"جو کچھ بک سکتا ہے۔ اس لئے نئی نسل خدمت کرتی ہے مگر اشتہار لگا کر۔ باقاعدہ اعلانات کرتی ہے۔ منظم طریقے سے کام کرتی ہے اور خدمت میں بھی اپنا نفع ڈھونڈتی ہے۔ سو خدمت خلق کرنے والے کیوں پیچھے رہتے وہ بھی اپنے کارناموں کے اشتہار بانٹنے لگے۔معلوم نہیں آج کل کے خُدائی خدمت گار یا سوشل ورکر ابو بن ادھم کے رُتبے کو پا سکتے ہیں یا نہیں۔
بچپن میں ہمیں نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کی دُنیا اور بڑوں کے رسالوں سے صوفیا کرام کے حالات زندگی پڑھنے کی اجازت تھی۔ ہمارے ذہن میں ایک صوفی کا جو خاکہ ہے اُس کے مطابق صوفی بے حد پاکباز اور نیک انسان ہوتا ہے ۔ جس کی نفسانی خواہشات بہت کم ہوں جو اللہ کی خوشنودی کو ہر بات پر مقدم جانتا ہو۔ تقویِ کے اعلیِ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کی مخلوق کی دل آزاری سے ہر ممکن اجتناب کرتا ہو۔ اُسے دُنیاوی آسائشوں سے کچھ خاص رغبت نہیں ہوتی۔
ہم سوچتے تھے کہ اب اگر ہمیں کسی صوفی کی تلاش ہو تو کہاں ملے گا؟
مگر ہمیں صوفی کی تلاش میں جنگلوں یا ویرانوں کا سفر نہیں کرنا پڑااور ایک روز ایک مشہور فیشن ماڈل کو ٹی وی پر صوفی ازم کا پرچار کرتے دیکھا۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا قول و فعل میں تضاد رکھنے والا شخص صوفی ہو سکتا ہے۔ تزکیہ نفس تو بہت دور کی بات ہے ان خاتون کوتو سادگی سےبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ خیر ہم نے خود کو ملامت کی کہ ہمیں اُن کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے۔
پھر معلوم ہوا کہ صوفی ازم کا پرچار بھی فیشن میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ تقوی یا خلقِ خُدا سے محبت نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آسایشوں سے پر مکانوں میں بسنے والے ذہین و فطین افراد کو بے سکونی کا مرض لاحق ہے۔ سو ان میں سے کچھ افراد نے سوچا کہ صوفیا کی زندگی سے کچھ ایسے اصول مستعار لئے جائیں جو بے سکونی کی بیماری سے نجات دلا سکیں۔ سو مغرب اور مشرق کے ملے جلے مفکرین نے صوفیا کے طرز زندگی، افکار، تعلیمات اور تحاریر کو کھنگالنا شروع کیا۔ ان کے افکار اور تعلیمات کو چھاڑپونچھ کر نئے مکالے لکھے، رسالوں میں چھپوائے اور کانفرنسوں میں پڑھے۔
نظریات اور افکار کی تجارت یا پرچار کے لئے بین الاقوامی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں۔ ہم چونکہ اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھتے ہیں اس لئے سوچنے لگے کہ ان مباحث کے نتیجے میں تیار ہونے والے صوفی یقیناً پچھلے زمانے کے صوفیا سے بہتر ہونگے۔ تھوڑی سی جستجو کے بعد ہماری پارکھی نظر نے کچھ ماڈرن صوفیا کو تلاش کر ہی لیا۔
ان میں سے ایک تو حضرت اقبال کے خانوادے سے ہیں صوفی شاعری اور موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہیں فنون لطیفہ کی سرپرستی کرتے ہیں۔خلقِ خدا میں سے اچھی صورت اور اچھی آواز والوں کے قدردان ہیں ان پر مہربان بھی ہیں اور ان کے مدد گار بھی۔ اچھا کھاتے پیتے ہیں۔ یا یوں کہیئے کہ اپنے نفس کے تابع ہیں۔ اپنے خاندان سےکٹ کر ایک پرانی حویلی میں بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ حویلی کو پرانے فرنیچر سے آراستہ کر رکھا ہے۔ زندگی کو ہر طرح سے برت چکے ہیں۔ بالوں سے بڑھاپا جھلکتا ہے مگر دل ہنوز جوان ہے۔ دو عدد بیگمات سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اپنے من میں ڈوب چکے ہیں مگر سراغ زندگی کو نہیں پا سکے تاہم چہرے پر اطمینان لکھا ہوا ہے۔ خاندان کی پابندیوں، بندھنوں اور ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر کوئی بھی منچلا خوش رہ سکتا ہے مگر ہم اُسے صوفی کیسے مان لیں۔
خیر ہم نے ایکبار پھر خود کو ملامت کی کہ ویسے تو بہت ترقی پسند بننے کا شوق ہے مگر کسی بھی نظریے کی ترقی یافتہ شکل کو قبول نہیں کرتے۔ کیا فائدہ ایسے ترقی پسند ہونے کا۔
دوسری صوفی ایک خاتون ہیں اور ہمارے ہی خاندان سے ہیں۔ آپ کہیں گے کہاں حضرت اقبال کا خانوادہ اور کہاں ہم ۔ مگر فکری سلسلے کسی شجرے کے محتاج تو نہیں ہوتے۔ ہماری عزیزہ ایک سخت گیر یا اصول پسند ساس کی بہو بنیں تھیں۔ کئی سال گھریلو محاذ پر اپنی ذہانت، اخلاق اور مہارت آزماتی رہیں مگر اپنے مراتب میں خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکیں۔ سو اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا اور سچ کی تلاش میں جُٹ گئیں۔ مولانا روم کی فکری مرید ہو گئیں۔ ان پر مقالے لکھے اور ان سے متعلقہ تقریبات میں شرکت کرنے لگیں۔ ان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے اپنی گھریلو ذمہ داریاں کم کرنے کے لئے ملازم رکھ لئے۔ ساس بہو کی روایتی تکرار سے بچنے کے لئے اپنازیادہ وقت گھر سے باہر یا بالائی منزل پر گزارنے لگیں۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ایک اعلی دماغ کی حامل ہیں اور کمتر ذہنی استعداد کے افراد سے مباحث اُن کو زیب نہیں دیتے۔ وہ اپنی برتری کا برملا اظہار کرنے لگیں اور ہم جیسے لوگوں سے فاصلہ رکھنے لگیں۔
کئی بار ہمیں اُن کے رویے سے دکھ پہنچا مگر چونکہ وہ ہمیں بہت محبوب تھیں اس لئے ہم نے سوچا کہ ابھی وہ سچ کے سفر کی منازل طے کر رہی ہیں۔
ہمارے ناقص خیال میں جو شخص دائمی سچ کو پہچان لیتا ہے وہ حد سے زیادہ عاجز ہو جاتا ہے اُس کے ذہن سے برتری کا بخار اُتر جاتا ہے اُسے اپنی بے وقعتی کا احساس ہو جاتا ہے چنانچہ ہم اپنی عزیزاز جان خاتون کو بھی اپنے دل میں صوفی کا رُتبہ نہیں دے پائے۔
آخر میں ایک بار پھر خود کو ہی ملامت کرنی پڑی کہ شاید ہم حسد کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم اُن کی فکری پرواز کا ساتھ نہیں دے سکتے اسی لئے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کرے اور دوسروں کی خامیوں سے زیادہ اُن کی خوبیوں پر نظر رکھنے کی توفیق عطا کرے آمین۔
زرقا مفتی