صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے -ساجدہ زیدی

طارق شاہ

محفلین
غزل
صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے
تِرا خیال اگر دِل کے رُو برُو نہ رہے

تیرے بغیر ہر اِک آرزُو ادھُوری ہے
جو تُو مِلے تو، مجھے کوئی آرزُو نہ رہے

ہے جُستجوُ میں تِری اِک جہاں کا درد و نِشاط
تو کیا عجب کہ، کوئی اور جُستجُو نہ رہے

تِری طَلب سے عبارت ہے میری سوز و حیات
ہو سرد آتشِ ہستی، جو دِل میں تُو نہ رہے

تُو ذوقِ کم طَلَبی ہے، تُو آرزُو کا شَباب
ہے یُوں کہ، تُو رہے اور کوئی جُستجُو نہ رہے

کتابِ عُمْر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے!
جو درد، مَیں نہ رہُوں اور داغ، تُو نہ رہے

خُدا کرے نہ، وہ اُفتاد آ پڑے ہم پر
کہ، جان و دِل رہیںاور تیری آرزو نہ رہے

تِرے خیال کی مے، دِل میں یُوں اُتاری ہے!
کبھی شراب سے خالی مِرا سبُو نہ رہے

وہ دشتِ درد سَہی، تُم سے واسطہ تو رہے
رہے یہ، سایۂ گیسُوئے مُشک بُو، نہ رہے

کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی
بڑا ہے درد کا رشتہ، دُوئی کی بُو نہ رہے

نہیں قرار کی لذّت سے آشنا یہ وجُود
وہ خاک میری نہیں ہے جو کُو بَکُو نہ رہے

اِس اِلتِہاب میں کیسے غَزل سَرا ہو کوئی
کہ ساز دِل نہ رہے، خُوئے نغمہ جُو نہ رہے

سفر طَوِیل ہے اِس عمُرِ شُعلہ ساماں کا!
وہ کیا کرے، جسے جِینے کی آرزُو نہ رہے

ساجدہ زیدی
سابق پروفیسر
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی
 

الف عین

لائبریرین
فیض احمد فیض اور ساجدہ زیدی
یہ شاید سن ساٹھ کے آس پاس کی تصویر ہو سکتی ہے۔ 68،69 سے 75ء تک میں نے دیکھا کہ چھوٹی بہن زاہدہ بھی اس تصویر سے بڑی نظر آتی تھیں۔ دونوں بہنیں سگریٹ پیتی تھیں مگر اس دور میں صرف شاعری کرتی تھیں۔ ان سے بڑی صابرہ زیدی کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا جو روسی سے ترجمے کے لئے مشہور تھیں۔ ساجدہ شعبہ تعلیم میں لکچرر، پھر ریڈر تھیں
 
Top