متلاشی
محفلین
صہبائے محبت کا سودا، عاشق پہ کوئی الزام نہیں
ساقی کی نظر سے ملتی ہے ، میخوار رہینِ جام نہیں
کچھ راز ہے تیری رندی میں ، میخانہ یونہی بدنام نہیں
کچھ بول رہے ہیں جام و سبو ، بس مفت کا یہ الزام نہیں
ساقی بھی ہے کچھ شرمندہ شرمندہ ، میخانہ بھی نادم ہے تجھ سے
اٹھنے سے ترے محسوس ہوا، تجھ سا کوئی درد آشام نہیں
دروازے پہ آئے دستک دی ، خاموش کھڑے بس تکتے رہیں
پوچھا ہے سبب کیا آنے کا، کہتے ہیں یونہی کچھ کام نہیں
افکار و حوادث پے در پے ، ہر گام کھڑے ہیں راہوں میں
لگتا ہے تیری تقدیر میں بھی ، دوچار گھڑی آرام نہیں
وہ عہدِ جوانی ختم ہوا ، دن بیت گئے رنگینی کے
آغوشِ تصور میں بھی تو ، اب تصویرِ گلفام نہیں
اب تجھ کو بتائیں اے ہمدم ، کیا حال تیرے دیوانے کا
دیکھے سے تیرے جائے ہے سنبھل ، بیمار کو یوں آرام نہیں
جب ذکر زبان پر آتا ہے، یہ جسم شکر بن جاتا ہے
کیوں نام تیرا لیں گن گن کر، یہ نام تو ایسا نام نہیں
آجائیں وہ جس دن اے عارفؔ، وہ دن ہی حقیقت میں دن ہے
جس شام کا وعدہ کرتے ہیں ، وہ شام سحرہے شام نہیں
مولانا مشرف علی تھانوی
ساقی کی نظر سے ملتی ہے ، میخوار رہینِ جام نہیں
کچھ راز ہے تیری رندی میں ، میخانہ یونہی بدنام نہیں
کچھ بول رہے ہیں جام و سبو ، بس مفت کا یہ الزام نہیں
ساقی بھی ہے کچھ شرمندہ شرمندہ ، میخانہ بھی نادم ہے تجھ سے
اٹھنے سے ترے محسوس ہوا، تجھ سا کوئی درد آشام نہیں
دروازے پہ آئے دستک دی ، خاموش کھڑے بس تکتے رہیں
پوچھا ہے سبب کیا آنے کا، کہتے ہیں یونہی کچھ کام نہیں
افکار و حوادث پے در پے ، ہر گام کھڑے ہیں راہوں میں
لگتا ہے تیری تقدیر میں بھی ، دوچار گھڑی آرام نہیں
وہ عہدِ جوانی ختم ہوا ، دن بیت گئے رنگینی کے
آغوشِ تصور میں بھی تو ، اب تصویرِ گلفام نہیں
اب تجھ کو بتائیں اے ہمدم ، کیا حال تیرے دیوانے کا
دیکھے سے تیرے جائے ہے سنبھل ، بیمار کو یوں آرام نہیں
جب ذکر زبان پر آتا ہے، یہ جسم شکر بن جاتا ہے
کیوں نام تیرا لیں گن گن کر، یہ نام تو ایسا نام نہیں
آجائیں وہ جس دن اے عارفؔ، وہ دن ہی حقیقت میں دن ہے
جس شام کا وعدہ کرتے ہیں ، وہ شام سحرہے شام نہیں
مولانا مشرف علی تھانوی