منیر الدین احمد
صہبا لکھنوی ہمبرگ میں
صہبا لکھنوی سے میری ملاقات محمد علی صدیقی کی معرفت ہوئی ، جن کے نام کے ساتھ اس زمانے میںابھی ڈاکٹر کا لاحقہ نہیں لگا تھا ۔ میں ان کا کالم " ڈان" میں پڑھا کرتا تھا اور اس سلسلے میں ان کے ساتھ مراسلت بھی تھی۔ ایک بار پاکستان کے سفر کے دوران کراچی آناہوا ، تو میں ان سے ملنے کی خاطر ان کی دعوت پر ان کے دولت کدہ پرحاضر ہوا۔انہوں نے اپنے چند دوستوں کومجھ سے ملنے کے لئے بلا رکھا تھا ۔باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ صہبا لکھنوی نے مجھے اگلے روز اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی ہے۔ صہبا سے غائبانہ تعارف ضرور تھا ، مگر اس وقت تک میں نے غالباً " افکار" کا کوئی شمارہ نہیں دیکھا تھا ، البتہ اس کی شہرت مجھ تک پہنچ چکی تھی۔
میں دوسرے روز "افکار" کے دفتر میں گیا، جو اس زمانے میں ایک مختصر سی دوکان میں تھا ۔ آس پاس کا ماحول ذرا غیر ادبی سا نظر آیا۔ پوری سڑک کچھ ویران سی لگتی تھی۔ البتہ " افکار " کے دفتر کے دروازے پرلگی ہوئی چق سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کریانے کی دوکان نہیں ہے ۔ دوسری طرف " افکار" کا سائن بورڈ اتنا پرانا تھا کہ مجھے شبہ ہوا کہ شاید اسے مدیر محترم ہجرت کے وقت بھوپال سے اپنے ساتھ اٹھا لائے تھے ۔ اس بورڈکو دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ رسالہ لمبے عرصے سے نکل رہا ہے۔ جرمنی میں ایک روزنامے کا سرورق گذشتہ صدی کی تیسری دہائی کی یاد تازہ کراتا ہے ۔ اس صفحے پر چھپے ہوئے اداریہ کی سرخی کی طرز تحریر کا انداز وہی ہے ، جس میں یہ اخبار ابتدائی دنوںمیں چھپنا شروع ہوا تھا ۔اس دوران میں ہر چیز بدل چکی ہے اور پورا اخبار آج کی مستعمل ٹائپ میں چھپتا ہے۔میں نے دل ہی دل میںمدیر " افکار" کو، جو ادب میں ترقی پسندی کا دلدادہ ہوتے ہوئے روایت کا پاس رکھتے تھے، داد دی اور چق اٹھا کر اندر داخل ہوا ۔
صہبا، جو ایک بھاری بھرکم مدیرانہ میز کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے ، میرا نام سن کر اچھل کر اپنی کرسی سے اٹھے اور اتنی گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے معانقہ کیا ، جیسے ہماری یاری ازل سے چلی آتی تھی۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ اس ملاقات کے موقعے پر یا دو برسوں کے بعد، جب میں دوسری بار ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوا تھا ،میرا تعارف ادیب سہیل کے ساتھ ہوا تھا ، جوصہبا کے بالمقابل میز کے دوسری طرف بیٹھے تھے ۔ وہ مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اور ان دنوں " افکار" کے مدیر معاون تھے۔ مگر وہ ابتداءمیںکچھ لئے دیئے رہے اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کھلنے میں بہت دن لگے۔ جب کہ صہبا نے پہلی ملاقات میں ہی اپنا دل کھول کے میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوسروں کے ساتھ اتنی جلدی گھل مل جاتے تھے یا نہیں ، ہم دونوں کو یہ پہلی ملاقات اس قدر قریب لے آئی تھی کہ جب ہم اگلی بارملے ، تو آپ واپ کے تکلفات کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے میں اور تم میں بات کرنے لگے ۔
پہلی ملاقات میں ہی صہبا نے مجھے کہا کہ وہ میرے تعاون سے " افکار"کے خاص نمبر " برطانیہ میں اردو" کی طرز پر "جرمن ادب نمبر" چھاپنا چاہتے ہیں۔ بلکہ دوسرے ہی روز انہوں نے مجھے ایک مکمل فہرست بنا کر دی، جس میں ادب کی مختلف اصناف گنوائی گئی تھیں، جن کے نمائندہ ادب پاروںکو خاص نمبر میں شامل کیا جانا تھا ۔ میں نے اس زمانے میں جرمن ادب کے تراجم چھاپنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ، مگر ایک ضخیم رسالے کا پیٹ بھرنے کے لئے جس قدر مواد درکار ہوتا ہے ، اتنے تراجم ابھی میرے پاس نہیں تھے ۔ میں نے کہا کہ میں اس پروجیکٹ کے بارے میں جرمنی واپس پہنچ کر غور کروں گا ۔ چنانچہ جومواد بعد میں میری کتاب "جرمن معاصر ادب" میں چھپا ، اس کی تارید میں نے صہبا کی فرمائش پر ہی کی تھی ۔ ہوا یہ کہ جب اس بات کی خبر یہاں پر جرمن پاکستان فورم کو پہنچی ، تو انہوں نے کہا کہ وہ کتاب کو اپنی طرف سے چھاپنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ایک دوسری جلد پاکستان کی مختلف زبانوں کے ادب کے جرمن تراجم کی چھپنی چاہیئے۔ چنانچہ یہ دونوں کتابیں بیک وقت ء۱۹۸۶میں جرمنی سے چھپ کر شائع ہوئیں۔ اور "افکار" کا " جرمن ادب نمبر" نہ چھپ سکا۔ مگرا س چیز کامیری صہبا کے ساتھ دوستی پر کوئی منفی اثر نہ پڑا۔
صہبا کے اندر جہاں پربہت سی دوسری خوبیاں پائی جاتی تھیں ، وہاں پر ان کی ترقی پسندادب سے غیر متزلزل وفاداری پہلے نمبر پر آتی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب بہتوں کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے ، صہبا اپنے آدرش پر قائم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اندر تعصب نہیں تھا ۔ وہ " افکار" میں ہر کسی کو چھاپنے کے لئے تیار تھے ۔ شرط البتہ یہ تھی کہ ادب پارہ ان کے کڑے معیار پر پورا اترے۔ مجھے ذاتی طور پر بعض اوقات مبتدیوں کی کہانیوں کے چھپنے پراعتراض پیدا ہوا۔ جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ہم سب بھی تو ایک وقت میں مبتدی تھے ۔ اگر ہمیں چھپنے کا موقع نہ ملتا ،تو ہم کیسے ترقی کر سکتے تھے۔ اس لئے مبتدیوں کی ہمت افزائی بھی " افکار" کی ذمہ داریوں میں سے ہے ۔
ہماری گفتگو کے دوران یہ ذکر بھی آیاکہ " افکار" جیسے رسالے کو صہبا کے بعد بھی نکلنا چاہیئے ۔ اس سلسلے میں میری تجویز تھی کہ " افکار فاونڈیشن " قائم کی جائے، جس کے لئے مخیر لوگ سرمایہ مہیا کریں۔ اس کی اولین ذمہ داری یہ ہو گی کہ رسالہ جاری رہے ۔ اس سلسلے میں ابتدائی معاملات ہماری ملاقات کے دوران طے کر لئے گئے ۔ بقیہ قانونی کاروائی میرے جانے کے بعد تھوڑے عرصہ کے اندر مکمل کر لی گئی ۔ اس طرح " افکار فاᄊنڈیشن" کا قیام عمل میں آیا ۔ صہبا کے اندر انتظامی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں، جس کا اظہار " افکار" کی پابندی اشاعت سے ہوتا تھا۔چنانچہ رسالہ معین وقت پر نکلتا تھا اور اس کا معیار اور اس کی گٹ اپ میں کبھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا ۔
صہبا اپنے یورپ اور امریکہ کے سفر کے دوران میرے پاس جرمنی بھی آئے تھے، جس کا ذکر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کسی تحریرمیں نہیں ہوا۔ صہبا کو علم تھا کہ جرمنی میں اردو ادب کا محاذ اتنا منظم نہیں ہے ، جتنا امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں ہے ۔ اس لئے یہاں پر ان کو نہ تو " افکار" کے لئے خریدار ملنے کی امید تھی اور نہ ہی اس زمانے میں ابھی یہاں پر مشاعروں کے انعقاد کی رسم پڑی تھی۔ میں نے یہ دونوں باتیں ان کے گوش گذار کر دی تھیں۔ صہبا نے کہا کہ وہ مجھے ملنے کے لئے آنا چاہتے ہیں اور اگر اس بہانے ہمبرگ اور اس کے گرد و نواح کی سیر بھی ہو جائے ، تو اتنا کافی ہو گا ۔ میں نے کہا کہ ان کی آمد ہمارے لئے باعث فخر ہو گی۔
چنانچہ وہ تشریف لائے اور ہوائی اڈے پر میں نے ان کو شیروانی پہنے ، ،گردن کے گرد مفلر اوڑھے اورلٹھے کے کھلے پائنچے والے سفید پاجامے میں جہاز سے ننگے سراترتے دیکھا ، تو سخت گھبرا یا کہ کہیں ان کو سردی نہ لگ جائے۔ جرمنی کا موسم بدل چکا تھا اور اس روز تو اچھی خاصی سردی پڑ رہی تھی۔ گھر کی طرف ڈرائیو کرتے ہوئے میں نے صہبا سے کہا کہ میں تو ان کو سوٹڈ بوٹڈ دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا ۔ انہوں نے کہا :یار میں تو اس لباس میں سارے برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا میں گھومتا پھرا ہوں۔ مجھے کسی نے نہیں روکاٹوکا ۔ میں نے کہا کہ تمہیں یہاں پر بھی کوئی نہیں روکے گا ۔ مگر سردی لگنے سے یہ لباس تمہیں شاید نہ بچا سکے۔ صہبا نے کہا ہم کار میں بھی تو گھوم پھر سکتے ہیں ۔ چنانچہ میں ان کو گھر لے جانے سے پہلے ہمبرگ شہر کی سیر کرانے کے لئے نکل گیا ۔ جب میں نے راستے میں ایک چائے خانہ میں رکنے کی تجویز پیش کی ، تو پتہ چلا کہ موصوف چائے سے شغف نہیں رکھتے، البتہ کافی مل جائے ، تو پی لیں گے۔ میں نے بسکٹوں اور کیک کا آرڈر دینا چاہا ، تو صہبا نے کہا دیکھنا سخت قسم کی کوئی چیز نہ ہو، کیونکہ میرے منہ میں دانت بس گنتی کے ہیں۔ میں نے کہا :تم یورپ آئے ہو ، تو یہاں سے دانت بنواتے جاؤ ۔ کہنے لگے امریکہ میں ایک پاکستانی ڈینٹسٹ نے پیش کش کی تھی کہ میرے پاس دو ہفتوں کے لئے رک جائیں ، تو میں آپ کو نئی بتیسی لگا دوں گا اور اس پر آپ کا ایک پیسہ بھی نہیں لگے گا۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقعہ تھا ۔ مگر صہبا نے بتایا کہ انہیں اپنے وفد کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا میں ہونے والے مشاعروں میں حصہ لینا تھا ، جن کا پروگرام طے شدہ تھا۔ اس لئے وہ راستے میں اتنے دنو ں کے لئے نہ رک سکتے تھے۔
اب مجھے یہ فکر لگی کہ صہبا کو کھانا کیسا کھلایا جاسکتا ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ افکار کے دفتر میں صہبا نرم نرم چپاتی اورشامی کباب کھا کر گزارہ کرتے تھے، جو ان کے لئے خاص طور پر گھر سے بن کر آتے تھے اورجن کو چبانے کا تکلف نہیں اٹھاناپڑتا تھا ۔ ہمبرگ میں ایسی غذابھلا کہاں پر مل سکتی ہے، جو نرم اور حلال ہو۔ کراچی میں انہوں نے مجھے مقصود زاہدی اور ان کی قابل فخر شاعربیٹی طلعت زاہدی کے ساتھ ایک چینی ریستوران میں کھانے پرمدعو کیا تھا ، جہاں پر صہبا نے سوپ پر گزارہ کیا تھا ۔ میں نے سوچا کہ ہمبرگ میں بھی تو چینی ریستورانوں کی بھر مار ہے ۔ کیوں نہ ان کو وہاں پر لیجایا جائے۔ ان کے ساتھ ملاقات کی خاطر میں نے اپنے جرمن ناول نگار دوست یواخیم زائیپل کو شام کے کھانے پر بلا رکھا تھا، جو صہبا کی ہم عمر تھے، مگر جن کے منہ میں اصلی یا نقلی سارے دانت موجود تھے۔ پھر یہ بھی تو تھا کہ صہبا کے نزدیک یورپی کھانے پھیکے ہوتے ہیں۔اس بارے میں صہبا نے کہا تھا کہ سالوں کوکھانے میں نمک مرچ ڈالنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ چینی ریستورانوں میں بہت تیز قسم کی مرچ ملتی ہے ، اس لئے مجھے امید تھی کہ صہبا کو کم سے کم اس پہلو سے کوئی شکا یت نہ رہے گی۔ جہاں تک حلال کھانے کا تعلق ہے، صہبا سے میں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ ان کے لئے مچھلی کا آرڈر دیا جائے گا، جس کے حلال ہونے کے بارے میں فقہاءکے اندر کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔
میں نے اپنے جرمن ادیب دوستوں میں سے خاص طور پر یواخیم زائیپل کا انتخاب کیا تھا ، کیونکہ صہبا یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہٹلر کے زمانے میں جرمن ادیبوں پر کیا گزری تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ بے شمار ادیب نازی پارٹی سے اختلاف رکھنے کے سبب ملک کو چھوڑجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یواخیم نے وہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اسے دوسرے جرمن نوجوانوں کے ساتھ محاذ جنگ پر لڑنا پڑا تھا۔ اس کی اس زمانے کی ڈائری بہت دلچسپ ہے ، جس کو اس نے جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے باقاعدگی کے ساتھ لکھا تھا ۔ جرمن فوجیوں کو ڈائری لکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت تھی۔ یواخیم کا بچپن اور نوجوانی کا زمانہ برلین میں گزرا تھا اور اس کو نازی پارٹی کے عروج و زوال کی ہر تفصیل یاد تھی۔ اس نے بتایا کہ نازی جرمنی میں ترقی پسند ادب کا ناطقہ بند کر دیا گیا تھا ۔ درجنوں ادیبوں کی کتابیں کھلے بندوں نذر آتش کی گئی تھیںاوریہودی اور کمیونسٹ ادیبوں کوکنسنٹریشن کیمپوں میں ڈالا گیا تھا ، جہاں سے شاذ و نادر ہی کوئی زندہ واپس لوٹا تھا۔
یواخیم جنگ کے بعد امریکہ چلا گیا تھا ، جہاں پر وہ برسوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں جرمن ادبیات پڑھاتا رہا تھا ۔ پھر جب اس کی کتابیں جرمنی میں چھپنے لگیں ، تو اس نے جرمنی واپس آنے کی ٹھانی۔ مغربی جرمنی کی غیر معمولی معاشی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے ایک کتاب لکھی ، جس کا عنوان تھا:" جب ہم نے جنگ جیتی" ۔اس کتاب کے لئے اسے سارے ملک میں کوئی پبلشر نہ مل سکا۔بالآخر یہ کتاب مشرقی جرمنی سے چھپی اور بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ یواخیم نے پھر ایک بار ہجرت کرنے کی ٹھانی اور مشرقی جرمنی چلا گیا ۔ مگر چند برسوں کے بعد اس ملک میں ادیبوں پر لگائی جانے والی پابندیوں سے اختلاف کے سبب اس کو ادیبوں کی تنظیم سے خارج کر دیا گیا اور یواخیم کو ملک کی شہریت سے محروم کر دیا گیا ۔ یہ ساری باتیں صہبا کے لئے بہت دلچسپی کا باعث تھیںاور وہ ایک ایک تفصیل سنتے رہے۔
صہبا نے پاکستان میں اردو ادب کے بارے میں بتایا اور خاص طور پر ترقی پسند ادب سے متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں " افکار" کی خدمات پر میں نے روشنی ڈالی اور یواخیم کو صہبا کے کام کی نوعیت سے آگاہ کیا۔ میں نے کہا کہ صہبا نے رسالے کی ادارت پر اپنی شاعری کو قربان کر کے اچھا نہیں کیا۔ اس پر صہبا نے بتایا کہ امریکہ میں اس نے برسوں کے بعد کچھ غزلیں لکھیں ہیں، کیونکہ وہ مشاعروں میں خالی ہاتھ نہ جانا چاہتے تھے۔ انہی دنوں میںمجھے بدایوں کے ایک بک سیلر کی فہرست کتب ملی تھی، جس میںصہبا کا پہلا شعری مجموعہ بھی برائے فروخت شامل تھا۔ میں نے یہ کتاب وہاں سے آرڈر دے کر منگوا لی تھی، جو بعد میں میری اردو ادب کی جملہ کتابوں کے ساتھ ہمبرگ یونیورسٹی لائبریری کے سپرد کر دی گئی تھی، تاکہ محققین اردو ادب کے لئے محفوظ ہو جائے۔
صہبا کو ہمارا ہمبرگ کے مضافات میںواقع گاؤں بے حد پسند آیا۔ اس نے کہا کہ خاموشی اور اطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے یہ جگہ بے حد مناسب ہے، مگر کراچی کی گہماگہمی کا نشہ ایسا ہے کہ ایک دفعہ چڑھ جائے ، تو انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے یاد آیا کہ قرۃ العین حیدر نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تمہیں وطن کی بو باس یاد نہیں آتی؟ انہوں نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ یورپ میں تھوڑا عرصہ گزارنے کے بعد اپنے ہاں کے بازاروں ، باغوں، محلوں کی بو باس کو ترسنے لگتی ہیںاور فوراً واپس جانے کا پروگرام بناتی ہیں۔ میں نے صہبا سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو ،تو میں تم کو کل ہمبرگ کی بندرگاہ کے اس علاقے میں لے جاؤں گا ، جہاں پر گرم مسالے کے گودام پائے جاتے ہیں اور ہر طرف ان کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ۔
صہبا صرف دو روز کے لئے آئے تھے۔ اور بقول ان کے ہمارا رہن سہن دیکھنا چاہتے تھے ، تاکہ اگلی بار ان کو میرا خط ملے، تو وہ تصور کی آنکھ سے دیکھ سکیں کہ میں نے ان کو کس ماحول میں بیٹھے ہوئے یاد کیا تھا۔ پھر انہوں نے یہ معمول بنا لیا کہ میری طرف سے آنے والا ہر خط " افکار" میں چھاپنے لگے۔ میں نے بہتیراکہا کہ میرے خط صرف تمہارے لئے ہوتے ہیں۔مگر صہبا نے جواب دیا کہ " افکار" کے قارئین بھی تو میرے اپنے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی تمہارے خط پڑھیں۔
صہبا لکھنوی ہمبرگ میں
صہبا لکھنوی سے میری ملاقات محمد علی صدیقی کی معرفت ہوئی ، جن کے نام کے ساتھ اس زمانے میںابھی ڈاکٹر کا لاحقہ نہیں لگا تھا ۔ میں ان کا کالم " ڈان" میں پڑھا کرتا تھا اور اس سلسلے میں ان کے ساتھ مراسلت بھی تھی۔ ایک بار پاکستان کے سفر کے دوران کراچی آناہوا ، تو میں ان سے ملنے کی خاطر ان کی دعوت پر ان کے دولت کدہ پرحاضر ہوا۔انہوں نے اپنے چند دوستوں کومجھ سے ملنے کے لئے بلا رکھا تھا ۔باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی آیا کہ صہبا لکھنوی نے مجھے اگلے روز اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی ہے۔ صہبا سے غائبانہ تعارف ضرور تھا ، مگر اس وقت تک میں نے غالباً " افکار" کا کوئی شمارہ نہیں دیکھا تھا ، البتہ اس کی شہرت مجھ تک پہنچ چکی تھی۔
میں دوسرے روز "افکار" کے دفتر میں گیا، جو اس زمانے میں ایک مختصر سی دوکان میں تھا ۔ آس پاس کا ماحول ذرا غیر ادبی سا نظر آیا۔ پوری سڑک کچھ ویران سی لگتی تھی۔ البتہ " افکار " کے دفتر کے دروازے پرلگی ہوئی چق سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کریانے کی دوکان نہیں ہے ۔ دوسری طرف " افکار" کا سائن بورڈ اتنا پرانا تھا کہ مجھے شبہ ہوا کہ شاید اسے مدیر محترم ہجرت کے وقت بھوپال سے اپنے ساتھ اٹھا لائے تھے ۔ اس بورڈکو دیکھنے سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ رسالہ لمبے عرصے سے نکل رہا ہے۔ جرمنی میں ایک روزنامے کا سرورق گذشتہ صدی کی تیسری دہائی کی یاد تازہ کراتا ہے ۔ اس صفحے پر چھپے ہوئے اداریہ کی سرخی کی طرز تحریر کا انداز وہی ہے ، جس میں یہ اخبار ابتدائی دنوںمیں چھپنا شروع ہوا تھا ۔اس دوران میں ہر چیز بدل چکی ہے اور پورا اخبار آج کی مستعمل ٹائپ میں چھپتا ہے۔میں نے دل ہی دل میںمدیر " افکار" کو، جو ادب میں ترقی پسندی کا دلدادہ ہوتے ہوئے روایت کا پاس رکھتے تھے، داد دی اور چق اٹھا کر اندر داخل ہوا ۔
صہبا، جو ایک بھاری بھرکم مدیرانہ میز کے پیچھے چھپے بیٹھے تھے ، میرا نام سن کر اچھل کر اپنی کرسی سے اٹھے اور اتنی گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے معانقہ کیا ، جیسے ہماری یاری ازل سے چلی آتی تھی۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ اس ملاقات کے موقعے پر یا دو برسوں کے بعد، جب میں دوسری بار ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوا تھا ،میرا تعارف ادیب سہیل کے ساتھ ہوا تھا ، جوصہبا کے بالمقابل میز کے دوسری طرف بیٹھے تھے ۔ وہ مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اور ان دنوں " افکار" کے مدیر معاون تھے۔ مگر وہ ابتداءمیںکچھ لئے دیئے رہے اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کھلنے میں بہت دن لگے۔ جب کہ صہبا نے پہلی ملاقات میں ہی اپنا دل کھول کے میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ دوسروں کے ساتھ اتنی جلدی گھل مل جاتے تھے یا نہیں ، ہم دونوں کو یہ پہلی ملاقات اس قدر قریب لے آئی تھی کہ جب ہم اگلی بارملے ، تو آپ واپ کے تکلفات کو چھوڑ کر ایک دوسرے سے میں اور تم میں بات کرنے لگے ۔
پہلی ملاقات میں ہی صہبا نے مجھے کہا کہ وہ میرے تعاون سے " افکار"کے خاص نمبر " برطانیہ میں اردو" کی طرز پر "جرمن ادب نمبر" چھاپنا چاہتے ہیں۔ بلکہ دوسرے ہی روز انہوں نے مجھے ایک مکمل فہرست بنا کر دی، جس میں ادب کی مختلف اصناف گنوائی گئی تھیں، جن کے نمائندہ ادب پاروںکو خاص نمبر میں شامل کیا جانا تھا ۔ میں نے اس زمانے میں جرمن ادب کے تراجم چھاپنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ، مگر ایک ضخیم رسالے کا پیٹ بھرنے کے لئے جس قدر مواد درکار ہوتا ہے ، اتنے تراجم ابھی میرے پاس نہیں تھے ۔ میں نے کہا کہ میں اس پروجیکٹ کے بارے میں جرمنی واپس پہنچ کر غور کروں گا ۔ چنانچہ جومواد بعد میں میری کتاب "جرمن معاصر ادب" میں چھپا ، اس کی تارید میں نے صہبا کی فرمائش پر ہی کی تھی ۔ ہوا یہ کہ جب اس بات کی خبر یہاں پر جرمن پاکستان فورم کو پہنچی ، تو انہوں نے کہا کہ وہ کتاب کو اپنی طرف سے چھاپنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ایک دوسری جلد پاکستان کی مختلف زبانوں کے ادب کے جرمن تراجم کی چھپنی چاہیئے۔ چنانچہ یہ دونوں کتابیں بیک وقت ء۱۹۸۶میں جرمنی سے چھپ کر شائع ہوئیں۔ اور "افکار" کا " جرمن ادب نمبر" نہ چھپ سکا۔ مگرا س چیز کامیری صہبا کے ساتھ دوستی پر کوئی منفی اثر نہ پڑا۔
صہبا کے اندر جہاں پربہت سی دوسری خوبیاں پائی جاتی تھیں ، وہاں پر ان کی ترقی پسندادب سے غیر متزلزل وفاداری پہلے نمبر پر آتی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب بہتوں کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے ، صہبا اپنے آدرش پر قائم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اندر تعصب نہیں تھا ۔ وہ " افکار" میں ہر کسی کو چھاپنے کے لئے تیار تھے ۔ شرط البتہ یہ تھی کہ ادب پارہ ان کے کڑے معیار پر پورا اترے۔ مجھے ذاتی طور پر بعض اوقات مبتدیوں کی کہانیوں کے چھپنے پراعتراض پیدا ہوا۔ جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ہم سب بھی تو ایک وقت میں مبتدی تھے ۔ اگر ہمیں چھپنے کا موقع نہ ملتا ،تو ہم کیسے ترقی کر سکتے تھے۔ اس لئے مبتدیوں کی ہمت افزائی بھی " افکار" کی ذمہ داریوں میں سے ہے ۔
ہماری گفتگو کے دوران یہ ذکر بھی آیاکہ " افکار" جیسے رسالے کو صہبا کے بعد بھی نکلنا چاہیئے ۔ اس سلسلے میں میری تجویز تھی کہ " افکار فاونڈیشن " قائم کی جائے، جس کے لئے مخیر لوگ سرمایہ مہیا کریں۔ اس کی اولین ذمہ داری یہ ہو گی کہ رسالہ جاری رہے ۔ اس سلسلے میں ابتدائی معاملات ہماری ملاقات کے دوران طے کر لئے گئے ۔ بقیہ قانونی کاروائی میرے جانے کے بعد تھوڑے عرصہ کے اندر مکمل کر لی گئی ۔ اس طرح " افکار فاᄊنڈیشن" کا قیام عمل میں آیا ۔ صہبا کے اندر انتظامی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں، جس کا اظہار " افکار" کی پابندی اشاعت سے ہوتا تھا۔چنانچہ رسالہ معین وقت پر نکلتا تھا اور اس کا معیار اور اس کی گٹ اپ میں کبھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا ۔
صہبا اپنے یورپ اور امریکہ کے سفر کے دوران میرے پاس جرمنی بھی آئے تھے، جس کا ذکر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کسی تحریرمیں نہیں ہوا۔ صہبا کو علم تھا کہ جرمنی میں اردو ادب کا محاذ اتنا منظم نہیں ہے ، جتنا امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں ہے ۔ اس لئے یہاں پر ان کو نہ تو " افکار" کے لئے خریدار ملنے کی امید تھی اور نہ ہی اس زمانے میں ابھی یہاں پر مشاعروں کے انعقاد کی رسم پڑی تھی۔ میں نے یہ دونوں باتیں ان کے گوش گذار کر دی تھیں۔ صہبا نے کہا کہ وہ مجھے ملنے کے لئے آنا چاہتے ہیں اور اگر اس بہانے ہمبرگ اور اس کے گرد و نواح کی سیر بھی ہو جائے ، تو اتنا کافی ہو گا ۔ میں نے کہا کہ ان کی آمد ہمارے لئے باعث فخر ہو گی۔
چنانچہ وہ تشریف لائے اور ہوائی اڈے پر میں نے ان کو شیروانی پہنے ، ،گردن کے گرد مفلر اوڑھے اورلٹھے کے کھلے پائنچے والے سفید پاجامے میں جہاز سے ننگے سراترتے دیکھا ، تو سخت گھبرا یا کہ کہیں ان کو سردی نہ لگ جائے۔ جرمنی کا موسم بدل چکا تھا اور اس روز تو اچھی خاصی سردی پڑ رہی تھی۔ گھر کی طرف ڈرائیو کرتے ہوئے میں نے صہبا سے کہا کہ میں تو ان کو سوٹڈ بوٹڈ دیکھنے کی خواہش رکھتا تھا ۔ انہوں نے کہا :یار میں تو اس لباس میں سارے برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا میں گھومتا پھرا ہوں۔ مجھے کسی نے نہیں روکاٹوکا ۔ میں نے کہا کہ تمہیں یہاں پر بھی کوئی نہیں روکے گا ۔ مگر سردی لگنے سے یہ لباس تمہیں شاید نہ بچا سکے۔ صہبا نے کہا ہم کار میں بھی تو گھوم پھر سکتے ہیں ۔ چنانچہ میں ان کو گھر لے جانے سے پہلے ہمبرگ شہر کی سیر کرانے کے لئے نکل گیا ۔ جب میں نے راستے میں ایک چائے خانہ میں رکنے کی تجویز پیش کی ، تو پتہ چلا کہ موصوف چائے سے شغف نہیں رکھتے، البتہ کافی مل جائے ، تو پی لیں گے۔ میں نے بسکٹوں اور کیک کا آرڈر دینا چاہا ، تو صہبا نے کہا دیکھنا سخت قسم کی کوئی چیز نہ ہو، کیونکہ میرے منہ میں دانت بس گنتی کے ہیں۔ میں نے کہا :تم یورپ آئے ہو ، تو یہاں سے دانت بنواتے جاؤ ۔ کہنے لگے امریکہ میں ایک پاکستانی ڈینٹسٹ نے پیش کش کی تھی کہ میرے پاس دو ہفتوں کے لئے رک جائیں ، تو میں آپ کو نئی بتیسی لگا دوں گا اور اس پر آپ کا ایک پیسہ بھی نہیں لگے گا۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقعہ تھا ۔ مگر صہبا نے بتایا کہ انہیں اپنے وفد کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا میں ہونے والے مشاعروں میں حصہ لینا تھا ، جن کا پروگرام طے شدہ تھا۔ اس لئے وہ راستے میں اتنے دنو ں کے لئے نہ رک سکتے تھے۔
اب مجھے یہ فکر لگی کہ صہبا کو کھانا کیسا کھلایا جاسکتا ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ افکار کے دفتر میں صہبا نرم نرم چپاتی اورشامی کباب کھا کر گزارہ کرتے تھے، جو ان کے لئے خاص طور پر گھر سے بن کر آتے تھے اورجن کو چبانے کا تکلف نہیں اٹھاناپڑتا تھا ۔ ہمبرگ میں ایسی غذابھلا کہاں پر مل سکتی ہے، جو نرم اور حلال ہو۔ کراچی میں انہوں نے مجھے مقصود زاہدی اور ان کی قابل فخر شاعربیٹی طلعت زاہدی کے ساتھ ایک چینی ریستوران میں کھانے پرمدعو کیا تھا ، جہاں پر صہبا نے سوپ پر گزارہ کیا تھا ۔ میں نے سوچا کہ ہمبرگ میں بھی تو چینی ریستورانوں کی بھر مار ہے ۔ کیوں نہ ان کو وہاں پر لیجایا جائے۔ ان کے ساتھ ملاقات کی خاطر میں نے اپنے جرمن ناول نگار دوست یواخیم زائیپل کو شام کے کھانے پر بلا رکھا تھا، جو صہبا کی ہم عمر تھے، مگر جن کے منہ میں اصلی یا نقلی سارے دانت موجود تھے۔ پھر یہ بھی تو تھا کہ صہبا کے نزدیک یورپی کھانے پھیکے ہوتے ہیں۔اس بارے میں صہبا نے کہا تھا کہ سالوں کوکھانے میں نمک مرچ ڈالنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ چینی ریستورانوں میں بہت تیز قسم کی مرچ ملتی ہے ، اس لئے مجھے امید تھی کہ صہبا کو کم سے کم اس پہلو سے کوئی شکا یت نہ رہے گی۔ جہاں تک حلال کھانے کا تعلق ہے، صہبا سے میں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ ان کے لئے مچھلی کا آرڈر دیا جائے گا، جس کے حلال ہونے کے بارے میں فقہاءکے اندر کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔
میں نے اپنے جرمن ادیب دوستوں میں سے خاص طور پر یواخیم زائیپل کا انتخاب کیا تھا ، کیونکہ صہبا یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہٹلر کے زمانے میں جرمن ادیبوں پر کیا گزری تھی۔ ان کو معلوم تھا کہ بے شمار ادیب نازی پارٹی سے اختلاف رکھنے کے سبب ملک کو چھوڑجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یواخیم نے وہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اسے دوسرے جرمن نوجوانوں کے ساتھ محاذ جنگ پر لڑنا پڑا تھا۔ اس کی اس زمانے کی ڈائری بہت دلچسپ ہے ، جس کو اس نے جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے باقاعدگی کے ساتھ لکھا تھا ۔ جرمن فوجیوں کو ڈائری لکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت تھی۔ یواخیم کا بچپن اور نوجوانی کا زمانہ برلین میں گزرا تھا اور اس کو نازی پارٹی کے عروج و زوال کی ہر تفصیل یاد تھی۔ اس نے بتایا کہ نازی جرمنی میں ترقی پسند ادب کا ناطقہ بند کر دیا گیا تھا ۔ درجنوں ادیبوں کی کتابیں کھلے بندوں نذر آتش کی گئی تھیںاوریہودی اور کمیونسٹ ادیبوں کوکنسنٹریشن کیمپوں میں ڈالا گیا تھا ، جہاں سے شاذ و نادر ہی کوئی زندہ واپس لوٹا تھا۔
یواخیم جنگ کے بعد امریکہ چلا گیا تھا ، جہاں پر وہ برسوں تک امریکی یونیورسٹیوں میں جرمن ادبیات پڑھاتا رہا تھا ۔ پھر جب اس کی کتابیں جرمنی میں چھپنے لگیں ، تو اس نے جرمنی واپس آنے کی ٹھانی۔ مغربی جرمنی کی غیر معمولی معاشی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے ایک کتاب لکھی ، جس کا عنوان تھا:" جب ہم نے جنگ جیتی" ۔اس کتاب کے لئے اسے سارے ملک میں کوئی پبلشر نہ مل سکا۔بالآخر یہ کتاب مشرقی جرمنی سے چھپی اور بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ یواخیم نے پھر ایک بار ہجرت کرنے کی ٹھانی اور مشرقی جرمنی چلا گیا ۔ مگر چند برسوں کے بعد اس ملک میں ادیبوں پر لگائی جانے والی پابندیوں سے اختلاف کے سبب اس کو ادیبوں کی تنظیم سے خارج کر دیا گیا اور یواخیم کو ملک کی شہریت سے محروم کر دیا گیا ۔ یہ ساری باتیں صہبا کے لئے بہت دلچسپی کا باعث تھیںاور وہ ایک ایک تفصیل سنتے رہے۔
صہبا نے پاکستان میں اردو ادب کے بارے میں بتایا اور خاص طور پر ترقی پسند ادب سے متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں " افکار" کی خدمات پر میں نے روشنی ڈالی اور یواخیم کو صہبا کے کام کی نوعیت سے آگاہ کیا۔ میں نے کہا کہ صہبا نے رسالے کی ادارت پر اپنی شاعری کو قربان کر کے اچھا نہیں کیا۔ اس پر صہبا نے بتایا کہ امریکہ میں اس نے برسوں کے بعد کچھ غزلیں لکھیں ہیں، کیونکہ وہ مشاعروں میں خالی ہاتھ نہ جانا چاہتے تھے۔ انہی دنوں میںمجھے بدایوں کے ایک بک سیلر کی فہرست کتب ملی تھی، جس میںصہبا کا پہلا شعری مجموعہ بھی برائے فروخت شامل تھا۔ میں نے یہ کتاب وہاں سے آرڈر دے کر منگوا لی تھی، جو بعد میں میری اردو ادب کی جملہ کتابوں کے ساتھ ہمبرگ یونیورسٹی لائبریری کے سپرد کر دی گئی تھی، تاکہ محققین اردو ادب کے لئے محفوظ ہو جائے۔
صہبا کو ہمارا ہمبرگ کے مضافات میںواقع گاؤں بے حد پسند آیا۔ اس نے کہا کہ خاموشی اور اطمینان کی زندگی گزارنے کے لئے یہ جگہ بے حد مناسب ہے، مگر کراچی کی گہماگہمی کا نشہ ایسا ہے کہ ایک دفعہ چڑھ جائے ، تو انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے یاد آیا کہ قرۃ العین حیدر نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تمہیں وطن کی بو باس یاد نہیں آتی؟ انہوں نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ یورپ میں تھوڑا عرصہ گزارنے کے بعد اپنے ہاں کے بازاروں ، باغوں، محلوں کی بو باس کو ترسنے لگتی ہیںاور فوراً واپس جانے کا پروگرام بناتی ہیں۔ میں نے صہبا سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو ،تو میں تم کو کل ہمبرگ کی بندرگاہ کے اس علاقے میں لے جاؤں گا ، جہاں پر گرم مسالے کے گودام پائے جاتے ہیں اور ہر طرف ان کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ۔
صہبا صرف دو روز کے لئے آئے تھے۔ اور بقول ان کے ہمارا رہن سہن دیکھنا چاہتے تھے ، تاکہ اگلی بار ان کو میرا خط ملے، تو وہ تصور کی آنکھ سے دیکھ سکیں کہ میں نے ان کو کس ماحول میں بیٹھے ہوئے یاد کیا تھا۔ پھر انہوں نے یہ معمول بنا لیا کہ میری طرف سے آنے والا ہر خط " افکار" میں چھاپنے لگے۔ میں نے بہتیراکہا کہ میرے خط صرف تمہارے لئے ہوتے ہیں۔مگر صہبا نے جواب دیا کہ " افکار" کے قارئین بھی تو میرے اپنے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی تمہارے خط پڑھیں۔