سید رافع
محفلین
وہ کہہ رہا ہے کہ ان کو مرنا ہو گا
صہونی سن رہا ہے کہ مسلماں کو مرناہوگا
وہ کہہ رہا ہے کہ فتح ہو گی حق کی ہر طرف
مسلماں سن رہا ہے کہ صہونی کو مرنا ہو گا
وہ دبا کر آنکھ اس انداز سے بولا کہ ان کو مرنا ہو گا
ہندو سمجھ گیا کہ مسلماں کو مرنا ہو گا
وہ الفاظ کے چناو میں تھا محتاط کہ مرنا ہو گا
سارا یورپ سمجھ گیا کہ مذہب کے ہر انساں کو مرنا ہو گا
ہر ہر ملک کے کانوں میں کر رہا تھا وہ سرگوشی کہ مرنا ہو گا
تمام ملک سمجھ گئے کہ مصنوعی خط کے اس جانب سب کو مرنا ہو گا
وہ بڑے انداز سے ناپ تول کر تحقیق سے بولا کہ مرنا ہو گا
ہر ہی ملک کے بڑے سائنسداں بولے کہ مذہب کے ہر شخص کو مرنا ہو گا
اب وہ ایک اونچی مسند پر بیٹھے یہ منظر کریہہ دیکھ رہا تھا
مر رہا تھا معصوم صہیونی ایک معصوم مسلماں کے ہاتھوں
پہلو بدل بدل کر وہ پھل کھاتے نظارہ کر رہا تھا
کم عقل کا مذہب مرے کم عقل کی سائنس کے ہاتھوں تیوری تن چکی تھی ہر سو
وہ خوش پوشاک عیار آج جمع تھا مکاروں کی محفل میں
دیکھ رہا تھا ہر سو خون بچوں کا بہتے
مڑ کہ جو دیکھا ہر صہیونی، مسلماں اور ہندو نے
نظر آیا ایک ہی قسم کا خنجر سب کے سینے میں
وہ سب رکے ایک پل چھوڑ کر خون کی دھتکی آگ کو
ٹھٹک کر رہ گیا وہ بھی براجماں اونچی مسند پر بیٹھے
صبح ایک نئی ہو گئی تھی، ہر ہاتھ دنیا کے ہر کونے سے
بیعت ایک ہی بات پر تھی کہ نہ چھوڑیں گے بچے کا خوں پیتے کو
اب ہر معصوم کی تھی سنوائی، اب ہر بات میں تھی یکجائی
کیا مذہب، کیا سائنس، کیا مسلماں کیا ہندو
سب مل بانٹ کر سنتے تھے بھٹکتےصہیونی کی
جب دیکھا کہ نہ ہوتے ہیں یہ کسی درد میں تقسیم
چال اس نے چلی کہ سب دولت مندوں سے کہا
ہر بم ہر میزائیل ان غریبوں پر داغ دو
جو جدا ہوتے نہیں ہیں کسی طرح
دولت مند کا مذہب نہیں ہوتا
وہ نہ ہندوں، نہ صہیونی نہ مسلماں ہوتا
وہ شام بھی فلک نے دیکھ لی
کہ ہر سو خون کی بہتی ایک سرخ ندی
ہر ملک، ہر شہر، ہر قَرْیَہ گلنا رہوا
ہاتھ پکڑے ایک ہندو کا بچہ، مسلماں کے بچے کا
اس قاتل بے رحم کے وار سے داغ دار ہوا
ہر سو تباہی و بردبادی تھی
کوئی ایک اینٹھ پر اینٹھ لگی نہ باقی تھی
ہر فرش پر خون بہہ رہا تھا
ہر گھر قبرستاں بن چکا تھا
کوئی ماتم تھا نہ کوئی گریہ تھا
جب کوئی بچا ہی نہیں اس قریے میں تو غم کس کا
جو بچ گئے اب انہوں نے جان لیا
یہ لڑائی نہیں مذہب کی نہ ہے تہذیب کی
وہ جان گئے یہ ہے لڑائی غریب و امیر کی
صہونی سن رہا ہے کہ مسلماں کو مرناہوگا
وہ کہہ رہا ہے کہ فتح ہو گی حق کی ہر طرف
مسلماں سن رہا ہے کہ صہونی کو مرنا ہو گا
وہ دبا کر آنکھ اس انداز سے بولا کہ ان کو مرنا ہو گا
ہندو سمجھ گیا کہ مسلماں کو مرنا ہو گا
وہ الفاظ کے چناو میں تھا محتاط کہ مرنا ہو گا
سارا یورپ سمجھ گیا کہ مذہب کے ہر انساں کو مرنا ہو گا
ہر ہر ملک کے کانوں میں کر رہا تھا وہ سرگوشی کہ مرنا ہو گا
تمام ملک سمجھ گئے کہ مصنوعی خط کے اس جانب سب کو مرنا ہو گا
وہ بڑے انداز سے ناپ تول کر تحقیق سے بولا کہ مرنا ہو گا
ہر ہی ملک کے بڑے سائنسداں بولے کہ مذہب کے ہر شخص کو مرنا ہو گا
اب وہ ایک اونچی مسند پر بیٹھے یہ منظر کریہہ دیکھ رہا تھا
مر رہا تھا معصوم صہیونی ایک معصوم مسلماں کے ہاتھوں
پہلو بدل بدل کر وہ پھل کھاتے نظارہ کر رہا تھا
کم عقل کا مذہب مرے کم عقل کی سائنس کے ہاتھوں تیوری تن چکی تھی ہر سو
وہ خوش پوشاک عیار آج جمع تھا مکاروں کی محفل میں
دیکھ رہا تھا ہر سو خون بچوں کا بہتے
مڑ کہ جو دیکھا ہر صہیونی، مسلماں اور ہندو نے
نظر آیا ایک ہی قسم کا خنجر سب کے سینے میں
وہ سب رکے ایک پل چھوڑ کر خون کی دھتکی آگ کو
ٹھٹک کر رہ گیا وہ بھی براجماں اونچی مسند پر بیٹھے
صبح ایک نئی ہو گئی تھی، ہر ہاتھ دنیا کے ہر کونے سے
بیعت ایک ہی بات پر تھی کہ نہ چھوڑیں گے بچے کا خوں پیتے کو
اب ہر معصوم کی تھی سنوائی، اب ہر بات میں تھی یکجائی
کیا مذہب، کیا سائنس، کیا مسلماں کیا ہندو
سب مل بانٹ کر سنتے تھے بھٹکتےصہیونی کی
جب دیکھا کہ نہ ہوتے ہیں یہ کسی درد میں تقسیم
چال اس نے چلی کہ سب دولت مندوں سے کہا
ہر بم ہر میزائیل ان غریبوں پر داغ دو
جو جدا ہوتے نہیں ہیں کسی طرح
دولت مند کا مذہب نہیں ہوتا
وہ نہ ہندوں، نہ صہیونی نہ مسلماں ہوتا
وہ شام بھی فلک نے دیکھ لی
کہ ہر سو خون کی بہتی ایک سرخ ندی
ہر ملک، ہر شہر، ہر قَرْیَہ گلنا رہوا
ہاتھ پکڑے ایک ہندو کا بچہ، مسلماں کے بچے کا
اس قاتل بے رحم کے وار سے داغ دار ہوا
ہر سو تباہی و بردبادی تھی
کوئی ایک اینٹھ پر اینٹھ لگی نہ باقی تھی
ہر فرش پر خون بہہ رہا تھا
ہر گھر قبرستاں بن چکا تھا
کوئی ماتم تھا نہ کوئی گریہ تھا
جب کوئی بچا ہی نہیں اس قریے میں تو غم کس کا
جو بچ گئے اب انہوں نے جان لیا
یہ لڑائی نہیں مذہب کی نہ ہے تہذیب کی
وہ جان گئے یہ ہے لڑائی غریب و امیر کی