کاشفی
محفلین
غزل
(راز رامپوری)
ضبط کا حق ادا نہ ہو جائے
وہ ستمگر خفا نہ ہو جائے
عشق کی بیکسی ارے توبہ
حُسن درد آشنا نہ ہو جائے
دیکھ اے جذبِ دل وہ پردہ نشیں
کہیں جلوہ نُما نہ ہو جائے
شکوہ کرنے چلا تو ہوں لیکن
شکرِ نعمت ادا نہ ہو جائے
کیوں پشیماں ہو تم جفاؤں پر
دل کو کچھ حوصلہ نہ ہو جائے
زخمِ دل پر نمک چھڑکتے ہو
درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
بےوفائی پہ جس کی مرتا ہوں
وہ کہیں باوفا نہ ہو جائے
فکرِ اظہار مدّعا نہ کرو
راز وہ پھر خفا نہ ہو جائے
(راز رامپوری)
ضبط کا حق ادا نہ ہو جائے
وہ ستمگر خفا نہ ہو جائے
عشق کی بیکسی ارے توبہ
حُسن درد آشنا نہ ہو جائے
دیکھ اے جذبِ دل وہ پردہ نشیں
کہیں جلوہ نُما نہ ہو جائے
شکوہ کرنے چلا تو ہوں لیکن
شکرِ نعمت ادا نہ ہو جائے
کیوں پشیماں ہو تم جفاؤں پر
دل کو کچھ حوصلہ نہ ہو جائے
زخمِ دل پر نمک چھڑکتے ہو
درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے
بےوفائی پہ جس کی مرتا ہوں
وہ کہیں باوفا نہ ہو جائے
فکرِ اظہار مدّعا نہ کرو
راز وہ پھر خفا نہ ہو جائے