محمد شکیل خورشید
محفلین
کوئی باقی نہیں ہے حرفِ دعا
ضبط کی ہم نے سیکھ لی ہے ادا
سیکھ لی یہ روش بھی دنیا کی
وقت پر آنکھ پھیرنا ہے روا
وہ جو دل پر پڑی تھی وصل کی شب
اب بھی باقی ہے اس نظر کا نشہ
کون پہچانتا ہے یاس کی لے
کون سنتا ہے ٹوٹے دل کی صدا
یاد سے اس کی ڈر نہیں کوئی
اک خلش ہے نہیں یہ کوئی سزا
ترکِ نسبت کا کیا گلہ کہ شکیل
ان سے منسوب کب تھی رسمِ وفا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
محترم محمد وارث
و دیگر احباب کی نذر
ضبط کی ہم نے سیکھ لی ہے ادا
سیکھ لی یہ روش بھی دنیا کی
وقت پر آنکھ پھیرنا ہے روا
وہ جو دل پر پڑی تھی وصل کی شب
اب بھی باقی ہے اس نظر کا نشہ
کون پہچانتا ہے یاس کی لے
کون سنتا ہے ٹوٹے دل کی صدا
یاد سے اس کی ڈر نہیں کوئی
اک خلش ہے نہیں یہ کوئی سزا
ترکِ نسبت کا کیا گلہ کہ شکیل
ان سے منسوب کب تھی رسمِ وفا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
محترم محمد وارث
و دیگر احباب کی نذر