ناز خیالوی ""ضربِ تیشہ ہی سے فرہاد کو مر جانا تھا"" ناز خیالوی


ضربِ تیشہ ہی سے فرہاد کو مر جانا تھا
کہ ستمگر نے محبت کو ہُنر جانا تھا

دستکیں دے کے ہواؤں کو گزر جانا تھا
حسبِ معمول انہیں اگلے نگر جانا تھا

شدتِ شوق نہ وہ جوشِ تمنا باقی
چڑھ کے دریاؤں کو اِک روز اتر جانا تھا

بیخودی میں نہ رہی دَیر و حَرم کی بھی تمیز
کیا خبر مجھ کو اِدھر یا کہ اُدھر جانا تھا

میرے جینے کا سبب ہے تری وعدہ شکنی
تُو جو آتا تو خوشی سے مجھے مر جانا تھا

نازؔ خیالوی
 
Top