سیفی
محفلین
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے؟ خدائی
جو فقر ہوا تلخئ دوراں کا گلہ مند
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اس دَور میں بھی مردِ خدا کو ہے میّسر
جو معجزہ پربت کو بناسکتا ہے رائی
درمعرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت
اے بندہء مومن تو کجائی توکجائی
خورشید ذرا پردہء مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوسِ حنائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے؟ خدائی
جو فقر ہوا تلخئ دوراں کا گلہ مند
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اس دَور میں بھی مردِ خدا کو ہے میّسر
جو معجزہ پربت کو بناسکتا ہے رائی
درمعرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت
اے بندہء مومن تو کجائی توکجائی
خورشید ذرا پردہء مشرق سے نکل کر
پہنا مرے کہسار کو ملبوسِ حنائی