مُہیب آسیبی قہقہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
جو خوف چہروں پہ مل رہے ہیں
افق کی اُس سمت سے اٹھے ہیں
افق کے اس پار ڈھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر امیروں کے جھونپڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
ادھر ہمارے محل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اندھیرے جنگل میں جل رہے ہیں
اجالے آنکھوں کو مل رہے ہیں۔ ۔
جو آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سانپ ہی تو مچل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
مُہیب آسیبی قہقہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
جو خوف چہروں پہ مل رہے ہیں
افق کی اُس سمت سے اٹھے ہیں
افق کے اس پار ڈھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر امیروں کے جھونپڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
ادھر ہمارے محل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اندھیرے جنگل میں جل رہے ہیں
اجالے آنکھوں کو مل رہے ہیں۔ ۔
جو آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سانپ ہی تو مچل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔