عبدالقیوم چوہدری
محفلین
پاکستان کے دو سب سے بڑے مسئلے ایسے ہیں جن پر ہم صحافی لوگ زیادہ بات نہیں کرتے۔ شاید اس لیے کہ ان مسائل سے چیختی چلاتی ہیڈلائن بنانا مشکل ہے اور یہ مسائل اتنے گھمبیر اور ہمہ جہت قسم کے ہیں کہ کسی ٹکر میں بھی فٹ نہیں ہو سکتے۔
لیکن میں نے جب کسی محنت کش، تنخواہ دار، چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے، پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوانے والے کسی شہری سے بات کی ہے تو ہمیشہ یہی سنا ہے کہ بس دو مسئلے ہیں۔ لڑکیوں کو اچھے رشتے نہیں ملتے اور لڑکوں کو نوکری نہیں ملتی۔
بھلا ہو تحریکِ انصاف کا کہ اس نے اپنے منشور میں لاکھوں نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں یہ منشور خاموش ہے کیونکہ پارٹی کی قیادت کے تجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رشتے بنتے آسمانوں میں ہیں اور ٹوٹتے زمین پر ہیں۔ اس لیے معاملہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔
اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ابھی بھی کاغذ والا اخبار پڑھتے ہیں اور کُل جہان کی خبریں فیس بک پر پڑھ کر گزارہ نہیں کرتے تو آپ کو علم ہو گا کہ اخبار میں خبروں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ستاروں کا حال، طبی مشورے، روحانی مسائل کا حل، لفظی معمے جنھیں حل کر کے آپ لاکھوں روپے کے انعامات جیت سکتے ہیں لیکن میرا سب سے پسندیدہ اخباری شغل وہ کلاسیفائیڈ اشتہارات ہوتے ہیں جن میں ویلڈنگ کا کام، پلمبرز کی خدمات، نسلی کتوں کے پلے، نایاب پرندے، پلاٹ برائے فروخت اور ضرورتِ رشتہ وغیرہ کے تین چار لائنوں کے اشتہار ہوتے ہیں۔
اس سیکشن میں بھی میرا سب سے پسندیدہ حصہ ’ضرورت ہے‘ کے اشتہار ہوتے ہیں۔ یہ نوکریوں والا حصہ ہے۔ حالانکہ زندگی میں خود ڈھائی نوکریاں ہی کی ہیں لیکن یہ سیکشن پڑھ کر ہمیشہ ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اس وطنِ عزیز میں کیسے کیسے دھندے ہیں اور کیسا کیسا آجر ہے جو اپنے کام کے لیے مزدور ڈھونڈ رہا ہے۔
کبھی زمانے میں بابوؤں کی ضرورت ہوتی تھی تو قابلیت کی شرط بی اے کی ڈگری اور 30 لفظ فی منٹ کی ٹائپنگ سپیڈ ہوتی تھی۔ آج کل کمپیوٹر، فوٹو شاپ اور پروگرامنگ والے نوجوانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیٹرنگ کے کام والے درکار ہیں۔ زیادہ تر نوکریوں میں ان نوجوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے پاس اپنی موٹرسائیکل ہو۔ سکیورٹی گارڈز کی بہت مانگ ہے اور اس مشقت والے اور انتہائی بورنگ کام کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور اگر ان کے پاس اپنی لائسنس یافتہ بندوق ہو تو سمجھیں نوکری پکی۔
اس تناظر میں ایک اشتہار دیکھا جس کو دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن ہوئی۔ اشتہار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے تعمیراتی ادارے بحریہ ٹاؤن کو جو پورے ملک میں گھر، پلاٹ، فائلیں اور دبئی کی طرز پر رہائش کے خواب بیچتا ہے اسے ضرورت ہے ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کی۔
صرف میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل نوکری کے اہل ہیں یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج۔ ساتھ ہی ایک ذیلی شرط بھی تھی کہ امیدوار تازہ تازہ ریٹائر ہوا ہو۔
اس سے یہ بھی یاد آیا کہ ایک مرتبہ ملک ریاض کو ایک مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا تھا تو ان کے ساتھ عملے میں اتنے تازہ تازہ ریٹائرڈ جنرل تھے کہ کسی ستم ظریف نے کہا کہ ملک صاحب چاہیں تو اپنا کور کمانڈروں کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔
ملک صاحب سے پاکستان کے لوگ اور خصوصاً ہمارے میڈیا والے بھائی انتہائی عقیدت رکھتے ہیں اور کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا وہ بحریہ ٹاؤن کی شکل میں ملک صاحب نے بنا دیا باقی سارا ملک تو بس کچرا ہی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے خود امامِ کعبہ تشریف لائے تھے۔ تو ہمارے جرنیلوں اور ججوں کی تو خوش قسمتی ہے کہ ان کے لیے ضرورت ہے کہ اشتہار دیے جا رہے ہیں۔
اتنے تازہ تازہ ریٹائرڈ اور سینیئر جرنیلوں سے ظاہر ہے سکیورٹی کا کام تو نہیں لیا جائے گا۔ ہمارے تازہ ریٹائر جرنیلوں کو پراپرٹی کے کام کا زیادہ تجربہ بھی نہیں۔ ان کو جو چار چھ پلاٹ لینے ہوتے ہیں تو وہ ضابطۂ کار کے تحت خود ہی مل جاتے ہیں لیکن پھر یہ سمجھ آئی کہ آج کل بحریہ ٹاؤن جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجدیں، 24 گھنٹے کھلے رہنے والے چڑیا گھر کے ساتھ ساتھ گالف کورس بنا رہا ہے تو تازہ ریٹائر جنرل شاید ان گالف کورسز کی رونق بڑھانے کے لیے ہیں کیونکہ یہ تو آپ کے علم میں ہو گا کہ ہماری سینیئر عسکری قیادت گالف سے بہت شغف رکھتی ہے۔
لیکن ملک ریاض کو تازہ ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ ملک ریاض پر زمینوں کے قبضے سے لے کر پانی کی چوری تک کے درجنوں مقدمات حاسدوں نے کر رکھے ہیں لیکن ہماری عدلیہ کا کون سا سینیئر جج ایسا ہو گا جو ریٹائر ہونے کے فوراً بعد ملک ریاض کے کیس کی فائل اٹھا کر اپنے سے جونیئر ججوں کے آگے پیشیاں بھگتے۔
پھر خیال آیا کہ ہمارے کئی سینیئر جج انتہائی بذلہ سنج ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ جس دن بھی صبح کوئی بڑی عدالت لگتی ہے ٹی وی پر ایک کاٹ دار طنزومزاح شروع ہو جاتا ہے جو کبھی کبھی لاہور والے امان اللہ اور کراچی والے یوسفی صاحب کا حسین امتزاج لگتا ہے۔ یقیناً ملک ریاض کو تازہ ریٹائرڈ ججوں کی اس لیے ضرورت ہے کہ سارا دن پلاٹ کاٹنے اور خواب فروشی کے بعد تھکن اتارنے کے لیے ان کی کمپنی سے محظوظ ہو سکیں۔
ویسے اخبارات میں اشتہاروں کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی ایک سیکشن ہوتا ہے جس میں سبق آموز کہانیوں کے ساتھ بچگانہ لطائف بھی ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اشتہار پڑھ کر ایک امیدوار انٹرویو دینے پہنچا اور اشتہار والے سے پوچھا کہ کہ مجھے کام کیا کرنا ہوگا۔ اس نے کہا کوئی خاص نہیں بس روز داتا دربار جانا ہو گا خِود وہاں سے کھانا کھا لینا اور میرے لیے لیتے آنا۔
ربط
لیکن میں نے جب کسی محنت کش، تنخواہ دار، چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے، پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلوانے والے کسی شہری سے بات کی ہے تو ہمیشہ یہی سنا ہے کہ بس دو مسئلے ہیں۔ لڑکیوں کو اچھے رشتے نہیں ملتے اور لڑکوں کو نوکری نہیں ملتی۔
بھلا ہو تحریکِ انصاف کا کہ اس نے اپنے منشور میں لاکھوں نوکریاں پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رشتوں کے معاملے میں یہ منشور خاموش ہے کیونکہ پارٹی کی قیادت کے تجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رشتے بنتے آسمانوں میں ہیں اور ٹوٹتے زمین پر ہیں۔ اس لیے معاملہ خدا پر چھوڑ دیا جائے۔
اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ابھی بھی کاغذ والا اخبار پڑھتے ہیں اور کُل جہان کی خبریں فیس بک پر پڑھ کر گزارہ نہیں کرتے تو آپ کو علم ہو گا کہ اخبار میں خبروں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ستاروں کا حال، طبی مشورے، روحانی مسائل کا حل، لفظی معمے جنھیں حل کر کے آپ لاکھوں روپے کے انعامات جیت سکتے ہیں لیکن میرا سب سے پسندیدہ اخباری شغل وہ کلاسیفائیڈ اشتہارات ہوتے ہیں جن میں ویلڈنگ کا کام، پلمبرز کی خدمات، نسلی کتوں کے پلے، نایاب پرندے، پلاٹ برائے فروخت اور ضرورتِ رشتہ وغیرہ کے تین چار لائنوں کے اشتہار ہوتے ہیں۔
اس سیکشن میں بھی میرا سب سے پسندیدہ حصہ ’ضرورت ہے‘ کے اشتہار ہوتے ہیں۔ یہ نوکریوں والا حصہ ہے۔ حالانکہ زندگی میں خود ڈھائی نوکریاں ہی کی ہیں لیکن یہ سیکشن پڑھ کر ہمیشہ ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اس وطنِ عزیز میں کیسے کیسے دھندے ہیں اور کیسا کیسا آجر ہے جو اپنے کام کے لیے مزدور ڈھونڈ رہا ہے۔
کبھی زمانے میں بابوؤں کی ضرورت ہوتی تھی تو قابلیت کی شرط بی اے کی ڈگری اور 30 لفظ فی منٹ کی ٹائپنگ سپیڈ ہوتی تھی۔ آج کل کمپیوٹر، فوٹو شاپ اور پروگرامنگ والے نوجوانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیٹرنگ کے کام والے درکار ہیں۔ زیادہ تر نوکریوں میں ان نوجوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کے پاس اپنی موٹرسائیکل ہو۔ سکیورٹی گارڈز کی بہت مانگ ہے اور اس مشقت والے اور انتہائی بورنگ کام کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور اگر ان کے پاس اپنی لائسنس یافتہ بندوق ہو تو سمجھیں نوکری پکی۔
اس تناظر میں ایک اشتہار دیکھا جس کو دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن ہوئی۔ اشتہار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے تعمیراتی ادارے بحریہ ٹاؤن کو جو پورے ملک میں گھر، پلاٹ، فائلیں اور دبئی کی طرز پر رہائش کے خواب بیچتا ہے اسے ضرورت ہے ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کی۔
اس سے یہ بھی یاد آیا کہ ایک مرتبہ ملک ریاض کو ایک مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا تھا تو ان کے ساتھ عملے میں اتنے تازہ تازہ ریٹائرڈ جنرل تھے کہ کسی ستم ظریف نے کہا کہ ملک صاحب چاہیں تو اپنا کور کمانڈروں کا اجلاس بلا سکتے ہیں۔
ملک صاحب سے پاکستان کے لوگ اور خصوصاً ہمارے میڈیا والے بھائی انتہائی عقیدت رکھتے ہیں اور کچھ تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا وہ بحریہ ٹاؤن کی شکل میں ملک صاحب نے بنا دیا باقی سارا ملک تو بس کچرا ہی ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے خود امامِ کعبہ تشریف لائے تھے۔ تو ہمارے جرنیلوں اور ججوں کی تو خوش قسمتی ہے کہ ان کے لیے ضرورت ہے کہ اشتہار دیے جا رہے ہیں۔
اتنے تازہ تازہ ریٹائرڈ اور سینیئر جرنیلوں سے ظاہر ہے سکیورٹی کا کام تو نہیں لیا جائے گا۔ ہمارے تازہ ریٹائر جرنیلوں کو پراپرٹی کے کام کا زیادہ تجربہ بھی نہیں۔ ان کو جو چار چھ پلاٹ لینے ہوتے ہیں تو وہ ضابطۂ کار کے تحت خود ہی مل جاتے ہیں لیکن پھر یہ سمجھ آئی کہ آج کل بحریہ ٹاؤن جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجدیں، 24 گھنٹے کھلے رہنے والے چڑیا گھر کے ساتھ ساتھ گالف کورس بنا رہا ہے تو تازہ ریٹائر جنرل شاید ان گالف کورسز کی رونق بڑھانے کے لیے ہیں کیونکہ یہ تو آپ کے علم میں ہو گا کہ ہماری سینیئر عسکری قیادت گالف سے بہت شغف رکھتی ہے۔
لیکن ملک ریاض کو تازہ ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ ملک ریاض پر زمینوں کے قبضے سے لے کر پانی کی چوری تک کے درجنوں مقدمات حاسدوں نے کر رکھے ہیں لیکن ہماری عدلیہ کا کون سا سینیئر جج ایسا ہو گا جو ریٹائر ہونے کے فوراً بعد ملک ریاض کے کیس کی فائل اٹھا کر اپنے سے جونیئر ججوں کے آگے پیشیاں بھگتے۔
پھر خیال آیا کہ ہمارے کئی سینیئر جج انتہائی بذلہ سنج ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ جس دن بھی صبح کوئی بڑی عدالت لگتی ہے ٹی وی پر ایک کاٹ دار طنزومزاح شروع ہو جاتا ہے جو کبھی کبھی لاہور والے امان اللہ اور کراچی والے یوسفی صاحب کا حسین امتزاج لگتا ہے۔ یقیناً ملک ریاض کو تازہ ریٹائرڈ ججوں کی اس لیے ضرورت ہے کہ سارا دن پلاٹ کاٹنے اور خواب فروشی کے بعد تھکن اتارنے کے لیے ان کی کمپنی سے محظوظ ہو سکیں۔
ویسے اخبارات میں اشتہاروں کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی ایک سیکشن ہوتا ہے جس میں سبق آموز کہانیوں کے ساتھ بچگانہ لطائف بھی ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اشتہار پڑھ کر ایک امیدوار انٹرویو دینے پہنچا اور اشتہار والے سے پوچھا کہ کہ مجھے کام کیا کرنا ہوگا۔ اس نے کہا کوئی خاص نہیں بس روز داتا دربار جانا ہو گا خِود وہاں سے کھانا کھا لینا اور میرے لیے لیتے آنا۔
ربط