نوید ناظم
محفلین
زندگی کا میلہ ضرورتوں کا میلہ بھی ہے۔ جس کو بھوک لگتی ہو، روٹی اُس کی ضرورت ہے۔ انسان ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اور ضرورت انسان کو۔ اور پھر اس کھیل میں انسان جان کی بازی ہار کر' جیتنے کا اعلان کرتا ہے۔ ضرورت سے بھاگا نہیں جا سکتا مگر ضرورت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بڑا ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کیا کیا غیرضروری ہے ورنہ انسان نے ضرورت کے نام پر وہ گُل کھِلائیں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہم پیسے کو ضرورت سمجھتے ہیں اور پھر ضرورت سے زیادہ کمانے میں مصروف رہتے ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو اپنی ضرورت کا تعین کر سکے۔
ایک بار ایک بادشاہ ایک درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈھیر سارا سونا دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرے مال کی زکوٰة ہے اور میری خواہش ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ سے ادا ہو۔ درویش نے پوچھا کہ جو مال تیرے پاس ہے کیا اس کے علاوہ اور مال کی خواہش بھی تیرے دل میں ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ جی ہاں۔۔۔ درویش نے فرمایا پھر یہ زکوٰة بھی تُو رکھ لے کہ تجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں۔
اصل میں انسان کی ضرورت پوری ہو چکی ہوتی ہے مگر اس کی خواہش کو تسکین نہیں ملتی۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ حریص' ضرورت پوری ہونے کے باوجود بھی کسی نقطے پر نہیں رکتا۔اس لیے ضرورت ہم اُس شے کو کہیں گے کہ جس شے کے بغیر زندگی ختم ہو جائے۔
اللہ کے بندے، اللہ کے بندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ دماغ خالی ہو جائے تو انسان صرف اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ورنہ ہم سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
آج کے انسان نے نفس کی تسکین کا نام ضرورت رکھ لیا ہے، گاڑی کو سفر کی ضرورت کہہ لیں تو بڑی بڑی گاڑیوں کو کیا کہیں۔۔۔نکاح ضروری ہے اور اس آسان اور سادہ ترین فرض کو نبھانے کے لیے کتنی ہی غیر ضروری رسمیں ایجاد کر لی گئی ہیں۔ ضروری نہیں کہ دو انسانوں کی ضرورتیں بھی ایک جیسی ہوں۔ ایک کی ضرورت، دوسرے کے لیے اصراف بھی ہو سکتی ہے۔ بیساکھی کی ضرورت اس کو ہو گی جو اپاہج ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں جو عمل جس طرح رکھا وہی عمل انسان اور انسانیت کی ضرورت کو Define بھی کرتا ہے اور پورا بھی۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ذرہ برابر زیادہ یا کم کا عمل پوری زندگی کا عمل unbalance کر دیتا ہے۔
جس انسان کی خواہش اُس کے تابع ہو اُس کی ضرورت justify رہتی ہے اور جو انسان اپنی خواہش کے تابع ہو اُس کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ ضرورت ہی کے تحت انسان اپنی تباہی اور ہلاکت کے دہانے پر کھڑا ہے۔۔۔۔ضروری حفاظت کے نام پر اِس نے ایسے غیر ضروری ہتھیار ایجاد کر لیے کہ اب انسانیت غیر محفوظ ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو چیز ضروری ہے وہ اللہ کا فضل ہے، خالق کے ساتھ تعلق ہے، اللہ کے حبیب کی محبت ہے اور انسانوں کی خدمت ہے۔ مسلمان کے لیے مسلمانوں کا احساس ضروری ہے۔۔۔ دولت کا کمانا ضروری ہے مگر دولت کو جمع کرتے جانا ضروری نہیں۔۔۔۔بُرے حالات میں پیسے کی بجائے اللہ پر بھروسا رکھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری ہے کہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی زندگی میں کوئی فرق نظر آ سکے۔۔۔۔۔۔۔کافر اور مومن کی خواہش کے فرق کا نام ہی ایمان ہے۔۔۔۔۔۔اور اگر اس میں فرق نہیں تو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان غیر ضروری خواہشوں کو اپنے اندر سے باہر نکال سکیں جو ہمارے ایمان کو کسی بیماری کی طرح لاحق ہو چکی ہیں۔
ایک بار ایک بادشاہ ایک درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈھیر سارا سونا دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرے مال کی زکوٰة ہے اور میری خواہش ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ سے ادا ہو۔ درویش نے پوچھا کہ جو مال تیرے پاس ہے کیا اس کے علاوہ اور مال کی خواہش بھی تیرے دل میں ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ جی ہاں۔۔۔ درویش نے فرمایا پھر یہ زکوٰة بھی تُو رکھ لے کہ تجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں۔
اصل میں انسان کی ضرورت پوری ہو چکی ہوتی ہے مگر اس کی خواہش کو تسکین نہیں ملتی۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ حریص' ضرورت پوری ہونے کے باوجود بھی کسی نقطے پر نہیں رکتا۔اس لیے ضرورت ہم اُس شے کو کہیں گے کہ جس شے کے بغیر زندگی ختم ہو جائے۔
اللہ کے بندے، اللہ کے بندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ دماغ خالی ہو جائے تو انسان صرف اپنا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ورنہ ہم سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
آج کے انسان نے نفس کی تسکین کا نام ضرورت رکھ لیا ہے، گاڑی کو سفر کی ضرورت کہہ لیں تو بڑی بڑی گاڑیوں کو کیا کہیں۔۔۔نکاح ضروری ہے اور اس آسان اور سادہ ترین فرض کو نبھانے کے لیے کتنی ہی غیر ضروری رسمیں ایجاد کر لی گئی ہیں۔ ضروری نہیں کہ دو انسانوں کی ضرورتیں بھی ایک جیسی ہوں۔ ایک کی ضرورت، دوسرے کے لیے اصراف بھی ہو سکتی ہے۔ بیساکھی کی ضرورت اس کو ہو گی جو اپاہج ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی میں جو عمل جس طرح رکھا وہی عمل انسان اور انسانیت کی ضرورت کو Define بھی کرتا ہے اور پورا بھی۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے ذرہ برابر زیادہ یا کم کا عمل پوری زندگی کا عمل unbalance کر دیتا ہے۔
جس انسان کی خواہش اُس کے تابع ہو اُس کی ضرورت justify رہتی ہے اور جو انسان اپنی خواہش کے تابع ہو اُس کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ ضرورت ہی کے تحت انسان اپنی تباہی اور ہلاکت کے دہانے پر کھڑا ہے۔۔۔۔ضروری حفاظت کے نام پر اِس نے ایسے غیر ضروری ہتھیار ایجاد کر لیے کہ اب انسانیت غیر محفوظ ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو چیز ضروری ہے وہ اللہ کا فضل ہے، خالق کے ساتھ تعلق ہے، اللہ کے حبیب کی محبت ہے اور انسانوں کی خدمت ہے۔ مسلمان کے لیے مسلمانوں کا احساس ضروری ہے۔۔۔ دولت کا کمانا ضروری ہے مگر دولت کو جمع کرتے جانا ضروری نہیں۔۔۔۔بُرے حالات میں پیسے کی بجائے اللہ پر بھروسا رکھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری ہے کہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی زندگی میں کوئی فرق نظر آ سکے۔۔۔۔۔۔۔کافر اور مومن کی خواہش کے فرق کا نام ہی ایمان ہے۔۔۔۔۔۔اور اگر اس میں فرق نہیں تو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم ان غیر ضروری خواہشوں کو اپنے اندر سے باہر نکال سکیں جو ہمارے ایمان کو کسی بیماری کی طرح لاحق ہو چکی ہیں۔